Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rehmat Aziz Khan
  4. Insani Smuggling Ki Rok Tham Ke Liye Qanoon Sazi

Insani Smuggling Ki Rok Tham Ke Liye Qanoon Sazi

انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے قانون سازی

سینٹ آف پاکستان سے ایک اچھی خبر آئی ہے کہ سینٹرز نے تارکین وطن کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے جو کہ خوش آئند فیصلہ ہے اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس حوالے سے وزارت داخلہ کی جانب سے ایک ترمیمی بل سینٹ میں پیش کیا گیا ہے جس میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے لیے سخت سے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔

بل کے مطابق انسانی اسمگلنگ کرنے والے افراد کو 10 سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانہ، اسمگلنگ سے متعلق دستاویزات تیار کرنے والے کو 10 سال قید اور 50 لاکھ روپے جرمانہ، غیر قانونی طور پر رہائش پذیر شخص کو پناہ دینے والے کو 5 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ متاثرہ شخص کی موت یا زخمی ہونے اور غیر انسانی سلوک کرنے پر مجرم کو 14 سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ اس کے علاوہ، مجرموں کے تیز ٹرائلز کے لیے خصوصی عدالتیں بھی تشکیل دی جائیں گی۔

انسانی اسمگلنگ نہ صرف پاکستان کا مسئلہ ہے بلکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بھی ہے جو کئی دہائیوں سے پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے غریب ممالک میں موجود ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں جب جنگیں اور اقتصادی بحران آئے تو ہزاروں افراد بہتر زندگی کی تلاش میں غیر قانونی طور پر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی کے آغاز میں یہ مسئلہ مزید سنگین ہوگیا جب مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں بدامنی اور غربت نے لاکھوں افراد کو غیر قانونی ذرائع سے بیرون ملک جانے پر مجبور کیا۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں سے لوگ بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر قانونی طور پر یورپ، مشرق وسطیٰ اور امریکہ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

انسانی اسمگلنگ کے اسباب میں تعلیم اور آگاہی کی کمی، کرپشن اور قانون کی کمزور عملداری، بین الاقوامی سرحدوں کا غیر محفوظ ہونا اور دیگر وجوہات شامل ہیں۔ پاکستان میں بے روزگاری اور اقتصادی بدحالی لوگوں کو غیر قانونی ذرائع سے بیرون ملک جانے پر مجبور کرتی ہے۔ عوام کو غیر قانونی ہجرت کے خطرات اور قانونی طریقوں کے بارے میں آگاہی نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے وہ انسانی اسمگلروں کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ بعض اوقات سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت بھی انسانی اسمگلنگ کو فروغ دیتی ہے۔ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں غیر قانونی ہجرت کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کی کمی ہے۔

حکومت پاکستان نے انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں شہباز شریف کی سربراہی میں ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کی ہے۔ اس فورس کے تحت ایف آئی اے کے بعض اہلکاروں کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا ہے جو انسانی اسمگلنگ میں مبینہ طور پر ملوث تھے۔ خاص طور پر یونان اور اسپین میں پاکستانیوں کی ہلاکتوں کے بعد حکومت نے سخت اقدامات لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ نئے قوانین اور سخت سزائیں انسانی اسمگلنگ کے خاتمے میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں بشرطیکہ ان پر مکمل اور شفاف طریقے سے عملدرآمد کیا جائے۔ اگر ان قوانین کو سنجیدگی سے نافذ کیا گیا تو اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کی گرفتاریوں میں تیزی آئے گی اور غیر قانونی ہجرت کے خطرات میں کمی آئے گی۔

مجوزہ قوانین کے نفاذ میں کئی چیلنجزبھی درپیش ہیں۔ پاکستان میں قانونی معاملات کی طوالت اور کمزور عدالتی نظام کی وجہ سے اکثر مجرم بچ نکلتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود کرپشن کی وجہ سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہ بچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ مؤثر تعاون ضروری ہے۔ جو لوگ انسانی اسمگلنگ کا شکار بنتے ہیں ان کی بحالی کے لیے کوئی واضح پالیسی موجود نہیں۔

اگرچہ سینٹ آف پاکستان کا انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت اقدامات کے لیے قانون سازی کا فیصلہ ایک مثبت قدم ضرور ہے لیکن اس پر کامیابی سے عملدرآمد کرنے کے لیے ایک مؤثر اور شفاف حکمت عملی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اگر حکومت اپنے قوانین کو سختی سے نافذ کرے اور ذمہ داروں کو واقعی سزائیں دی جائیں تو انسانی اسمگلنگ کے خاتمے میں نمایاں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

Check Also

Baloch Nojawano Ke Naam

By Najam Wali Khan