Higher Education Commission Ke Budget Mein 25 Arab Rupay Ki Bahali
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں 25 ارب روپے کی بحالی
گزشتہ دنوں وفاقی حکومت کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے بجٹ میں 25 ارب روپے کی کٹوتی کے فیصلے نے ملک بھر میں زیر تعلیم جامعات کے طالب علموں کے تعلیمی مستقبل کے حوالے سے شدید تشویش پیدا کردی تھی۔ اس فیصلہ کے نتیجے میں صوبائی جامعات کو وفاق سے فنڈز فراہم نہ کیے جانے کا خدشہ تھا، جس کے بعد صوبائی جامعات یا تو فیسوں میں بڑے اضافے کرکے اپنے اخراجات کا بوجھ طلبہ پر منتقل کرتیں یا تعلیمی سرگرمیوں میں کمی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتیں۔ دونوں صورتیں قومی مفاد کے صریحاً منافی ہوتیں۔ تاہم یہ ایک خوش آئند خبر ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے اعلان کیا ہے کہ حکومت نے بجٹ کٹوتی کا فیصلہ واپس لے لیا ہے، اور اب کمیشن کو 65 ارب روپے کا بجٹ ملے گا، جس سے صوبوں کی جامعات کو معمول کے مطابق فنڈنگ کی جاسکے گی اس فیصلے کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام 2002 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے دوران عمل میں آیا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد ملک میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا اور تحقیق و ترقی کے فروغ کے لیے وسائل فراہم کرنا تھا۔ اس سے پہلے اس کا نام یونیورسٹی گرانسٹس کمیشن تھا۔ ایچ ای سی نے اپنے قیام کے بعد سے کئی اہم منصوبے شروع کیے جن میں بیرون ملک اسکالرشپس، تحقیقی گرانٹس، اور جامعات کی بہتری کے لیے فنڈز کی فراہمی شامل ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے سابقہ دورِ حکومت میں، وزیر اعظم میاں نواز شریف اور بعد میں میاں شہباز شریف نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں کٹوتی کے فیصلوں کو واپس لے کر کمیشن کے تمام فنڈز بحال کردیے تھے۔ ان کے دور میں تعلیمی بجٹ میں اضافے اور طلبہ و اساتذہ کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے۔
موجودہ حالات میں وفاقی حکومت کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں کٹوتی کے فیصلے کو واپس لینے کا اعلان ایک خوش آئند قدم ہے۔ اس سے نہ صرف جامعات کو مالی مشکلات سے بچایا جاسکے گا بلکہ طلبہ کی تعلیم پر منفی اثرات بھی مرتب نہیں ہوں گے۔ بجٹ کی بحالی کے بعد، ہائر ایجوکیشن کمیشن ترقیاتی منصوبوں اور تحقیقی کاموں کے لیے فنڈز فراہم کرسکے گا، جو کہ ملکی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ بجٹ کی بحالی کے بعد فنڈز کی منصفانہ تقسیم ہو اور تمام جامعات کو ان کے ضرورت کے مطابق فنڈز ملیں۔ اس سلسلے میں چند سفارشات پیش خدمت ہیں:
بجٹ میں مستقل اضافہ: حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیمی بجٹ میں مستقل اضافہ کرے تاکہ جامعات کو مالی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ تعلیم و تحقیق کے میدان میں ترقی کر سکیں۔
شفافیت اور احتساب: ہائر ایجوکیشن کمیشن اور دیگر تعلیمی اداروں کو فنڈز کے استعمال میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ مالی وسائل کا صحیح استعمال ہو سکے۔
تعلیمی پالیسی کی بہتری: حکومت کو ایک جامع تعلیمی پالیسی وضع کرنی چاہیے جس میں جدید تعلیم و تحقیق کے تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے اور جامعات کو جدید ٹیکنالوجی اور وسائل فراہم کیے جائیں۔
عوامی و نجی شراکت داری: تعلیم کے فروغ کے لیے عوامی و نجی شعبے کی شراکت داری کو فروغ دینا چاہیے تاکہ مالی وسائل کی کمی کو پورا کیا جا سکے اور جامعات کو جدید سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں 25 ارب روپے کی کٹوتی کے فیصلے کو واپس لینا تعلیم کے شعبے کے لیے ایک مثبت اقدام ہے۔ اس سے نہ صرف جامعات کی مالی مشکلات حل ہوں گی بلکہ طلبہ کو بھی بہتر تعلیمی سہولیات فراہم کی جا سکیں گی۔ حکومت کو مستقبل میں بھی تعلیم کے شعبے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھنا چاہیے کیونکہ حقیقی قومی ترقی و خوشحالی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔