Darbar e Adab Ka Nawab e Aala
دربار ادب کا نواب اعلیٰ

ادب کسی بھی قوم کی فکری، تہذیبی اور تخلیقی زندگی کا آئینہ ہوتا ہے۔ اس میں نہ صرف جذبات و احساسات کی عکاسی ہوتی ہے بلکہ یہ ذہنی ارتقا کا وہ سفر بھی ہے جو معاشرتی تبدیلیوں اور فکری رویوں کی سمت متعین کرتا ہے۔ اسی فکری تسلسل کا ایک خوبصورت سنگ میل دربارِ ادب ہے، جو ادب کے متنوع اور دلکش رنگوں کو یکجا کرنے کی نواب ناظم کی ایک عمدہ کاوش ہے۔
یہ کتاب صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک ایسا ادبی منظرنامہ ہے جس میں تخلیق، فکر اور جذبات کی ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ دربارِ ادب میں شامل تحریریں قارئین کو ایک نئی دنیا میں لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں، جہاں احساس کی شدت، فن کی لطافت اور زبان کی دلکشی یکجا ہو کر ایک حسین امتزاج پیش کرتی ہیں۔ شاعری ہو یا نثر، ہر تخلیق کار کی تحریر میں ندرتِ بیان اور خیال آفرینی کی جھلک نمایاں ہے۔
نواب ناظم لکھتے ہیں "دربار ادب نامی یہ عنوان ایک ایسی کتاب کے لیے تجویز کیا گیا ہے جس میں ادب کی دنیا کا ایک ایک حرف ایک ایک جملہ اور ایک ایک پیراگراف ادب کے لکھاریوں، پاسبانوں، ترجمانوں کی قلم سے ایسے الفاظ و معانی کا گھیراؤ اور پھیلاؤ ہے۔ جسے قارئین نہ صرف تحریری حظ اُٹھائیں گے بلکہ ان کے قلب و جگر کی بعض رگوں میں ندرت تحریر کا نیا خون جولانیاں لینے لگے گا۔ ذہن و دماغ حظ اٹھائیں گے اور تحریر سننے والوں کے ہاتھ کان پڑی آواز کا لطف ہاتھ اٹھا اٹھا کر دیں گے۔ کیوں کہ ادب کی نگری کے اس اجتماع میں ہر رائیٹر، مصنف، تحریر نگار خواہ وہ شاعر ہو یا نثر نگار قارئین کے سامنے دل کش مناظر کی ایسی پر بہار و پر نگار سطور کھینچے گا کہ مطالعہ کرنے والے کے قلب و جگر کی دھڑکن پاس بیٹھے قارئین کے کانوں میں بھی سنائی دے گی"۔
یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ دربارِ ادب سے قبل بھی نواب ناظم نے "ہشت درویش" نامی کتاب کے ذریعے ادبی خدمات کا ایک چراغ روشن کیا ہے اور اب "دربارِ ادب" اس روشنی کو مزید وسعت دینے کے لیے سامنے آیا ہے۔ یہ تسلسل ثابت کرتا ہے کہ نواب ناظم کی طرف سے ادب کے فروغ کے لیے یہ کاوشیں مستقل بنیادوں پر جاری ہیں اور ان کا دائرہ کار وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔
دربار ادب کے بارے میں نواب ناظم رقمطراز ہیں "یہ بات بھی ذہن نشیں کرنے کی احتیاج ہے کہ، ہشت درویش، کے بعد، دربار ادب، کے قد آور در کھو لنے کا عزم عملی طور پر کیا جارہا ہے گویا یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے۔ کہ "دربار ادب" نامی کتاب کے ادنی سے ادنی کردار، اعلیٰ سے اعلیٰ ادبی روایات کا علم ہاتھ میں لئے نہ فنا ہونے والی نہ بھولنے والی تحریر کے ایسے صفحات سامنے لائیں گے کہ عام قاری بھی اردو ادب کی تحریری کاوش کے سرور سے دل و دماغ میں ایک نئی دنیا کے ایسے کرداروں سے آگاہ ہوگا۔ جو اکثر بڑی کتابوں میں نظر آتے ہیں مگر یہ کردار ایسے ہوں گے کہ انہیں نظر انداز کر نا اور بھول جانا نہیں ہوگا۔ کیوں کہ اس کی کتاب کے صفحات پر انشاء پردازوں کے ساتھ شعراء کی بلند پرواز، اڑان اور منفرد قسم کی اعلیٰ ترین شعری کیفیت درد و غم سے معمور ایک ایک شعر ایک ایک فقرہ قارئین کو دنیاوی فکر سے کچھ وقت کے لئے یقیناً بے نیاز کردے گا۔ جبکہ کتاب کا عنوان "دربار ادب" خود ہی ادب کے نام کے ساتھ تمام تر ادبی کیفیات کی لذات کو صفحہ قرطاس پر اس طرح بکھیرے گا کہ "دربار ادب" کے پیادہ سے لے کر ہر قلم کار کی قلم سے نکلا ایک ایک حرف ایک ایک لفظ خود دعوت دے گا کہ آؤ میرے ساتھ چند لمحے گزارو اور قلب و جگر کی روشنی کو ابھارو، کیوں کہ "دربار ادب" میں کسی تحریری اور معنوی بے ادبی کا گمان نہیں ہوگا۔ اس لیے ہم اعلانیہ چیلنج کی حیثیت سے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ قارئین آؤ اور دربار میں داخل ہو جاؤ کیوں کہ ایک دانش مند قاری جب "دربار ادب" کی حدود میں داخل ہو جائے گا وہ خود کو بھی اعلیٰ تخیلات کے معنوی کردار سے آشنائی کا حق دار ٹھہرائے گا۔ کیوں کہ "دربار ادب" ہر آنے والے نووارد کے دل میں بھی ادب کی قندیلیں ایسے روشن کرے گا کہ کوئی اندھیرا باقی نہیں رہے گا۔ لہذا ہر ادب سے شناسا ہر فرد کے لئے "دربار ادب" میں داخلہ ضروری ہے"۔
یہ کتاب اردو ادب سے وابستہ ہر فرد کے لیے نواب ناظم کی طرف سے ایک فکری تحفہ ہے۔ یہاں شاعری اور نثر کی کہکشاں جگمگا رہی ہے اور ہر تحریر ایک منفرد تخلیقی جہت کی نمائندگی کر رہی ہے۔ قارئین کے لیے دربارِ ادب میں شامل ہر تحریر ایک فکری ضیافت کا درجہ رکھتی ہے جو ان کے ذوقِ مطالعہ کو مزید نکھارے گی اور اردو ادب کے جمالیاتی و فکری پہلوؤں کو نئی وسعت عطا کرے گی۔
دربارِ ادب کی اشاعت نواب ناظم اور ان کے ادارے سسٹم پبلی کیشنز کی طرف سے ایک قابلِ تحسین کوشش ہے کہ انہوں نے ادب کے چراغ کو مزید روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب قارئین کی علمی و فکری پیاس بجھانے میں کامیاب رہے گی اور ادب دوست حلقوں میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ میں اپنے دوست نواب ناظم کو کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کرے ذور قلم اور زیادہ۔