Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rehmat Aziz Khan
  4. Aftab Shah Ki Shayari Mein Aurat Ka Ziker

Aftab Shah Ki Shayari Mein Aurat Ka Ziker

آفتاب شاہ کی شاعری میں عورت کا ذکر

آفتاب شاہ نے اپنے خوبصورت استعاراتی اور تلمیحاتی اشعار کے ذریعے انسانی جذبات، فطرت کے حسن اور نسوانیت کے جوہر کی گہرائی تک رسائی حاصل کی ہے۔ اپنی شاعری میں آفتاب شاہ نے انسانی جذبے، خوبصورتی اور صوفیانہ موضوعات کو پیچیدہ طریقے سے باندھا ہے، جو قارئین کو زندگی کے حالات و واقعات کے ذریعے ایک گہرے سفر پر لے جاتے ہیں۔

آفتاب شاہ کے ان خوبصورت اشعار کا آغاز نسائیت کی مسحور کن تصویر کشی کے ساتھ ہوتا ہے، جس میں آسمانی عناصر کے پس منظر میں عورت کے نازک لیکن طاقتور پہلوؤں کو پیش کیا گیا ہے۔ جذبے کی شدت سے لے کر چاندنی راتوں کے سکون تک، ہر مصرعہ نسوانی رغبت اور تصوف کی واضح تصویر پیش کرتا ہے۔

آسمانی اجسام، موسموں اور فطرت کے عجائبات کی تصویر کشی کے ذریعے آفتاب شاہ نے عورت کی خوبصورتی کو اس کی مختلف شکلوں میں قید کیا ہے۔ وہ شدت، ٹھنڈک، اور خوبصورتی جیسی خصوصیات کو نسائی جذبے کے ساتھ جوڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے، شاعر تضادات کی ایک ایسی داستان تخلیق کرتا ہے جو انسانی جذبات اور تجربات کی پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔

شاعر بغیر کسی رکاوٹ کے موضوعات کے درمیان منتقل ہوتا ہے، فطرت کے فضل کی وضاحت سے انسانی رشتوں اور جذبات کی باریکیوں کی طرف آسانی سے منتقل ہوتا ہے۔ وہ استعاروں اور علامتوں کی ایک بھرپور سیریز استعمال کرتا ہے، ہر ایک اس کی شاعری میں گہرائی اور مقبولیت کا اضافہ کرتا ہے۔

مزید برآں آفتاب شاہ کی شاعری میں محبت، آرزو اور تمنّا کی کھوج قارئین کے دل کو گہرائیوں سے چھو لیتی ہے، جو انہیں انسانی دل کی پیچیدگیوں پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس کے الفاظ تال اور راگ کے ساتھ رقص کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو ثقافتی اور لسانی سرحدوں سے ماورا تڑپ اور خود شناسی کے احساس کو جنم دیتے ہیں۔

اپنی بہترین شاعری میں آفتاب شاہ نسوانیت کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پیچیدگیوں اور تضادات کو بھی تسلیم کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ خواتین کو پراسرار مخلوق کے طور پر پیش کرتا ہے، جو طاقت اور کمزوری، لچک اور فضل دونوں کو مجسم کرتا ہے۔

یہ شاعری خود شاعری کی لازوال رغبت کا ثبوت دیتی ہے، جس میں انسانی وجود کی ناقابلِ بیان خصوصیات کو اپنی گرفت میں لینے اور ان کو ایسے الفاظ میں ترجمہ کرنے کی صلاحیت ہے جو نسل در نسل منتقل ہو سکتے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے "آفتاب شاہ" کی شاعری انسانی تجربے کو روشن کرنے کے لیے شاعری کی لازوال طاقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ زبان اور منظر نگاری کے اپنے شاندار استعمال کے ذریعے آفتاب شاہ قارئین کو خود کی دریافت اور غور و فکرکے سفر کی دعوت دیتے ہیں، جو ہمیں زندگی کے خوبصورتی اور پیچیدگی کی یاد دلاتا ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے آفتاب شاہ کی ایک شاہکار غزل پیش خدمت ہے۔

غزل

حدت، خنکی، شدت، خوشبو، چاند ستارہ عورت ہے
جوش، جوانی، رقص، ترنم، روپ سہانا عورت ہے

نکہت، بادل، موسم، فطرت، جھیل، گلاب، نشیلی دھوپ
تتلی، پھول، سنہری چڑیا، ہرن سوانا عورت ہے

بیتِ مومن، نظمِ ساحر، نغمہِ اختر، سوزِ میر
غزل، قصیدہ، مطلع، مقطع، شعر دو گانا عورت ہے

بحرِ آتش، معنیِ غالب، حسنِ ولی اور رنگِ ذوق
حرف، حکایت، لفظ، کرشمہ، نثر ٹھکانا عورت ہے

شاہدِ عصمت، پردہ نشینی، مونسِ ہجراں، عجزِ ولی
عفت، حرمت، نور، شرافت، شرم بچانا عورت ہے

حورِ گلستاں، حورِ تبسم، حورِ زمانہ، حورِ جہاں
حورِ مجسم، حورِ خیالاں، حور بتانا عورت ہے

رنگِ غازہ، رنگِ حنائی، شغلِ سرمہ، بوئے حنا
کنگھی، کنگن، چوڑی، گجرا سجنا سجانا عورت ہے

ادا خطائی، وفا عطائی، ناز قیامت، شوخیِ جاں
عشوہ، نخرہ، چنچل شکوہ، مکر بہانا عورت ہے

رازِ الفت، سازِ راحت، سوزِ چاہت، نالہِ دل
عشق، محبت، پیار، فسانہ نظر لڑانا عورت ہے

بدن سریلا، چال قیامت، فتنہ دوراں، فتنہِ جاں
چشمِ غزالہ، قامتِ موزوں، دکھنا دکھانا عورت ہے

باغِ بہاراں، بادِ بہاراں، صبح بہاراں، چشمِ بہار
بادل، بارش، ابر مہینہ، راگ پرانا عورت ہے

دستِ رنگیں، سینہِ بسمل، خندہ جبیں اور حیرتِ حسن
شوخیِ قاتل، چشم پریشاں، ڈرنا ڈرانا عورت ہے

معنی خیزی، حیرت شکنی، سحر بیانی، رازِ غم
بلنا، کڑھنا، رعب، جلاپا، جلنا جلانا عورت ہے

ناصحِ عالم، واعظِ دوراں، فتح یقینی، رازِ دوست
ہمت، طاقت، جرات، غیرت، عزم توانا عورت ہے

رازِ ہستی، رازِ فطرت، رازِ مسرت، رازِ حیات
قہقہ، چیخ، خوشی کا نعرہ، ہنسنا ہنسانا عورت ہے

نازک جسمی، نرم مزاجی، لچک حیائی، فتنہِ انگ
نرمی، نزاکت، لوچ، ملاحت، رنگ جمانا عورت ہے

لذت خیزی، شدت خیزی، شیریں بیانی، میٹھا پن
لطف، عنایت، شہد، حلاوت اپنا بنانا عورت ہے

دخترِ عالی، روپ سہاگن، رازِ جنت، باپ کی پگ
اماں، بہن، بیوی، بیٹی سب نکھرا گھرانا عورت ہے

Check Also

2025 Kya Lekar Aaye Ga?

By Muhammad Salahuddin