Aam Admi Ko Relief Diya Jaye
عام آدمی کو ریلیف دیا جائے
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کے حالیہ اعلان سے پاکستانی عوام کو ریلیف ملا جس سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی ہوگئی۔ لیکن عوام کی خوشی اس وقت غم میں بدل گئی جب نگران حکومت کی طرف سے چند دن پہلے گیس کی قیمتوں میں آئندہ سو فیصد اضافے بلکہ ظالمانہ اضافے کی خبر آئی، اس خبر نے آنے والے موسم سرما کے مہینوں میں غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کے لیے عوام کو پریشان کر ڈالا ہے۔
حکومت کا موقف یہ ہے کہ گیس کی قیمتوں میں 100 فیصد سے زائد اضافے کے فیصلے کی وجہ سنگین مالیاتی صورتحال کی وجہ سے کیا جارہا ہے، کیونکہ سوئی گیس کی قیمتوں میں اضافے نہ کرنے کے باعث 185 ارب روپے کا شارٹ فال جبکہ بجٹ میں گھریلو صارفین کے لیے آر ایل این جی کے لیے اضافی 21 ارب روپے رکھے گئے تھے۔
پاکستان میں ایندھن اور گیس کی قیمتوں میں وقتاً فوقتاً ہونے والا اتار چڑھاؤ پاکستانی عوام کے لیے طویل عرصے سے تشویش کا باعث رہا ہے۔ یہ تبدیلیاں ملک کے معاشی منظر نامے اور بین الاقوامی معاہدوں اور آئی ایم ایف کے عوام شکن قرضوں کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے گردشی قرضوں پر مسلسل تشویش کا اظہار کیا ہے، جو پچھلے سال 2700 ارب روپے پر تھا۔ گردشی قرضوں کے بارے میں آئی ایم ایف کے خدشے کو اکثر قیمتوں کی ان ایڈجسٹمنٹ کے پیچھے ایک محرک عنصر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں خصوصاً آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے اور عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے درمیان نازک توازن متواتر حکومتوں کے لیے بار بار آنے والا چیلنج رہا ہے۔
پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے عام آدمی کو ریلیف ملا ہے اور عوام پر امید ہیں کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ براہ راست ان تک پہنچایا جائے۔ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک فعال موقف اختیار کرتے ہوئے صوبوں پر زور دیا ہے کہ وہ امدادی اقدامات کو موثر انداز میں نافذ کرنے کو یقینی بنائیں۔ اس مقصد کے لیے کسی بھی استحصال کو روکنے کے لیے ایک مضبوط پرائس کنٹرول میکانزم کو فعال کیا جانا چاہیے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
بجٹ کے عمل میں اکثر نظر انداز کیا جانے والا ایک اہم پہلو مزدور طبقے کی بہبود ہے۔ بجٹ میں طے شدہ مزدوروں کے لیے کم از کم اجرت کو تمام شعبوں میں سختی سے نافذ کیا جانا چاہیے۔ لیکن ابھی تک مزدوروں کو کم اجرت دے کر ان کا استحصال کیا جارہ ہے۔ یہ نہ صرف معاشی مساوات کا معاملہ ہے بلکہ سماجی انصاف کا بھی تقاضا ہے۔ مزدور کسی بھی قوم کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا جانا چاہیے اس سلسلے میں نگران حکومت کو خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کے پس منظر میں گیس کی قیمتوں میں اضافے کا حالیہ اعلان نگران حکومت کی طرف سے معاشی فیصلہ سازی کی پیچیدگیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ اقدام اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی ذمہ داریوں کو متوازن کرنے کی حکومت کی کوششوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے گردشی قرضے کے بارے میں آئی ایم ایف کے خدشات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا، لیکن عام لوگوں کی زندگیوں پر ان فیصلوں کے اثرات کو کم کیا جانا چاہئے۔
یہ ضروری ہے کہ امدادی اقدامات کو موثر اور منصفانہ طور پر نافذ کیا جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ فوائد ان لوگوں تک پہنچیں جنہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ مزید برآں، محنت کش طبقے کے حقوق اور فلاح و بہبود کا تحفظ ایک منصفانہ معاشرے کو پروان چڑھانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔