Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Qasim Taj/
  4. Multan Mein Aadha Din Aur Aadhi Raat

Multan Mein Aadha Din Aur Aadhi Raat

ملتان میں آدھا دن اور آدھی رات

میرےتقریبا تمام اسکول کے ساتھی ساتھ تھے۔ ہم لوگ ملتان اپنے دوست سہیل کوائیر پورٹ چھوڑنے جا رہے تھے۔ میرا دوست اظہر جو کوئی دو دفعہ بُری ڈرائیونگ کے نتیجے میں گاڑی کو تباہ کرچکا تھا آج بھی ڈرائیوروہ تھا میں نے اللہ اللہ کیا! ہمارا خوف بھی عجیب چیز ہے اس کو جتنی اہمیت دو اتنا برھتا جاتا ہے اور جتنا اس کا سامنا کرو اتنا کم ہوتا جاتا ہے۔ میں نے بھی اس دن خوف کا سامنا کیا اوربس گاڑی میں بیٹھ گیا۔

ہم لوگ ملتان پہنچے، کھانا کھایا اور ہوٹل میں جا رہے تھے کہ مجھے اچانک آدھی رات میں ملتان دیکھنے کی سوجھی، صرف فرحان نے میرے منصوبے کو منظوری بخشی اور ہم دونوں ملتان گھنٹہ گھر پہنچ گئے۔ سامنے شاہ رکن عالم اور بہاوالدین زکریا صاحب کا مزار تھا آدھی رات میں آدھی رات والی دُکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ میں اور فرحان ملتان کی اندرون گلیوں میں چل پڑے۔ میں جب گلیوں میں پھر رہا تھا تو مجھے بار بار پتہ نہیں کیوں مڈنائیٹ ان پیرس، فلم یاد آرہا تھی۔

فلم کا مرکزی کردار گل، آدھی رات میں پیرس نکل پڑتا ہے اور اس راستے میں گزرے زمانے کے بہترین رائٹر جیسے ارنسٹ ہمینگ وے، شاعر حضرات اور پینٹر حضرات جیسےپیکاسو، ملتے ہیں وہ ان سے ساری زندگی مانوس رہا ہوتا ہے اور ان سے یوں مل کے اس کو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی خواب حقیقت بن گیا ہو۔ مجھے بھی وہاں ایسا ہی لگ رہا تھا لیکن مجھے کسی رائیٹر کی جگہ صوفی بزرگ مل رہے تھے۔ مجھے وہاں سخی شہباز قلندر ملے، میری ملاقات بابا فرید گنج شکر سے ہوئی، مجھے وہاں بابا بلھے شاہ ملے، میرے ملاقات وہاں بہاوالدین زکریا ملتانی سے ہوئی اور مجھے بھی لگا جیسے میرا کوئی خواب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ مگر یہ صرف کھلتی آنکھوں سے دیکھنے والے خواب تھے۔

ہم نے صبح کا ناشتہ کیا اور سہیل کو ائیرپورٹ روانہ کرنے چلے گئے۔ سہیل مجھ سے الوداعی گلے ملے تو میں نے اسے کہااب اگر پردیس جا رہی رہے ہو تو پیسے کما کر ہی واپس آنا، اس نے انشاللہ کہا اور وہ ائیر پورٹ کے اند رداخل ہوگیا۔ ہم لوگ ملتان کو دیکھنے شہر کے اندر چلے گئے۔

فرحان اور میں بہاوالدین زکریا ملتانی کے مزار کے ساتھ ملحقہ میوزیم میں داخل ہوگئے میوزیم میں سرائیکی کلچر کو نمایاں طور پر واضع کیا گیا تھا۔ ملتان سہروردی طریقت کی بنیاد ہے۔ میوزیم میں انگریز اور سکھوں کے درمیان مشہور جنگ اور دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی نان نیوکلئیر جنگ کا احوال اور اس کے نتیجے میں ہونی والی قتل و غارت کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں انگریز ملتان پر قابض ہوئے اور نجانے کتنی اموات ہوئی تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔

ملتانی برتن، ملتانی چادریں اور ملتانی مٹی، نیلی اجرک اور گھاگھرا چولی جواب بہت کم لوگ استعمال کرتے ہیں پتلوں پر پہنائے گئے تھے اور شاید اب میڈیا اور انگریزی اثر و رسوخ کی وجہ سے روائتی کپٹرے صرف پتلے ہی پہنیں۔ علاقے کے لوگ جھومر ناچ پر ناچاتے دیکھائے گئے تھے۔ میوزیم کی چھت پر پورے شہر کو دیکھا جاسکتا تھا۔ ملتان اس چھت سے دیکھنے کے قابل ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے آپ ملتان کو یہاں سے ضرور دیکھیے گا سارا شہر آپ کی مٹھی میں ہو جیسے۔

میں وہاں سے شاہ یوسف گردیز کے مزار پر بھی گیاجنہوں نے مسلم ملتان کی بنیاد رکھی تھی۔ عبداللہ اور فرحان میرے ساتھ تھے شاہ یوسف گردیز کے گردیزی محلے میں پتہ نہیں کیوں اداسی تھی، کوئی دُکھ تھا، کوئی رنج تھا۔ میں اہل تشیع کے مکتب فکر کی گلیوں میں جب بھی جاتا ہوں مجھے وہاں پر اداسی چھا جاتی ہے ایسے لگتا ہے ان گلیوں میں کوئی رنج ہے کوئی تکلیف ہے جو ہے توبالکل خاموش، مگر وہ بہت زیادہ چیخ رہی ہے۔

ہم لوگ واپس روانے ہوئے تو سہیل کے بڑے بھائی ہمارے ساتھ گاڑی میں تھے۔ میں نے عقیل سے گاڑی مانگ کر اپنی ڈرائیور کی ڈیوٹی لگا لی۔ گاڑی کے ماحول میں دوست کے بڑا بھائی ہونے کی وجہ سے تکلف موجود تھا۔ جو بھی کوئی بات کر رہا تھا وہ تکلف کو ملحوظ خاطر رکھ کر رہا تھا میں نے اس تکلف کو ایسے بہیودہ گانے لگا کر توڑا کےتکلف، بھی پانی پانی ہو گیا۔ پھر صہیب بھائی نے خود ہی ایسے گانے لگائے جو ہمارے جذبات کو تھوڑا بہت ٹھنڈا کرنے میں معاون ثابت ہوئے، گانے کی بدلتی ہوئی دھنوں میں ہم کب راے ونڈ پہنچ گئے ہمیں پتہ ہی نہیں چلا۔

Check Also

Kya Hum Mafi Nahi Mang Sakte?

By Mohsin Khalid Mohsin