Mere Shehar Ka Asal Maqam
میرے شہر کا اصل مقام
ہم سب لوگ، ہماری ساری دُنیا ہر وقت، ہر لمحہ، ہر گھڑی کچھ نہ کچھ بیچ رہی ہے۔ کچھ کپڑے بیچ رہے ہیں، کچھ جوتے بیچ رہے ہیں، کچھ گھڑیاں بیچ رہے ہیں یہاں تک کہ کچھ لوگ تک اپنا آپ بھی بیچ رہے ہیں۔ امریکہ اپنا امیریکن ڈریم بیچ رہا ہے، چائنہ اپنی بنائی ہوئی مصنوعات بیچ رہا ہے دبئی کے پاس تیل کے سوا کچھ نہیں تھا تو اپنے مُلک میں اس نے سیاحت بیچنا شروع کردی۔
ہر انسان، ہر ادارہ ہر مُلک چاہتا ہے کہ اُس کے پاس کوئی نہ کوئی "اکٹھ" ہوجائے لوگ آئیں، ایک دوسرے سے ملیں، تبادلہ خیال ہو اور پیسے کی مصنوعات کا بھی تبادلہ ہو جائے۔ دبئی میں ہر سال نیو ائیر کے موقع پر اربوں ڈالرز کماتا ہے۔ انڈیا میں کمبھ کے میلے پر پانچ کروڑ سے زیادہ لوگ آتے ہیں اور وہ اربوں روپیے چھاپتے ہیں۔
غربت ختم کرنے کا حل صرف اور صرف کاروبار میں ہے اور وہ بھی اگر "اکٹھ" کے ذریعہ ہو تو وہ کمال کی بات ہے میرے شہر میں بھی ایک "اکٹھ" ہو رہا ہے لیکن میں بطور راے ونڈ کے شہری اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ جتنا پیسہ ہم اس سے کما سکتے تھے اُتنا نہیں کمایا، نہ کما رہے۔
الحمداللہ ہمارے شہر میں ہر سال سالانہ دس سے بیس لاکھ بندہ اجتماع کے تین دنوں میں آتا ہے۔ شہر کی مین شاہراہیں بند ہوجاتی ہیں۔ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کی وجہ سے بازار میں سبزیاں مہنگی ہوجاتی ہیں، پھل فروش مہنگے داموں پھل بیچنا شروع کر دیتے ہیں، ہسپتالوں میں بھی رش بڑھ جاتا ہے، جب وہ شہر سے اتوار والے دن نکلتے ہیں تو شہر میں ہر طرف دھول ہی دھول ہوجاتی ہے، یہاں کاروبار بھی لاکھوں، کروڑوں میں ہوتا ہے بس نہیں ہوتا تو یہاں سیاح اُس تعداد میں نہیں آتے اور جو کاروبار یہاں پر کیا جاسکتا ہے وہ نہیں کیا جاتا، ہم بطور برانڈ اپنے شہر کو نہیں بیچ پا رہے کہ یہاں لوگ ویسے بھی آئیں اور کاروبار کو مزید پروان چڑھے۔
ہم اُن کو بہترین سہولیات بھی نہیں دے پا رہے۔ دبئی بہیودہ کاموں کے لیے بہترین سہولیات دے کر ترقی کر رہا ہے ہم نیک کام کے لیے بھی بہترین سہولیات نہیں دے پارہے۔ ہمارے شہر میں اللہ تعالی کے حکم سے غربت نہیں ہے، مالی مسائل سے تو امریکہ اور چائینہ بھی ابھی تک اپنی جان نہیں چھڑوا سکے مگر یہاں جو تھوڑی بہت ہمارے شہر میں تنگی ہے اُس کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے بس اپنے شہر کو اپنا سمجھنے کی ضرورت ہے اس کو برانڈ بنانے کی ضرورت ہے اس کو زیادہ سے زیادہ اچھا مارکیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ پوری دُنیا میں تیسرا بڑا اور پاکستان کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔
میرے اپنے شہر کے باسیوں سے درخواست ہے کہ ہمارے شہر میں جو مہمان آتے ہیں ہم اُن کی جتنی ہوسکے اُس سے زیادہ اُن کی خدمت کریں، اُن کی بہتر رہنمائی کرسکیں تاکہ وہ ہمیں ایک اچھا میزبان کی طرح یاد رکھیں، آپ اگر کبھی شمالی علاقہ جات میں جائیں اور وہاں راے ونڈ کا نام لیں تو وہ آپ کو پلکیں پر بٹھا لیتے ہیں۔ ہمیں بھی ان کی ایسی ہی قدر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم بطور راے ونڈ کے شہری ہونے فخر کرنے کے بھی ضرورت ہے، ہمارے شہر سے دین کا اتنا کام ہو رہا مگریہ بتاتے ہوئے ہماری زبان لڑھک جاتی ہے۔