Kasuri Khushbu
قصوری خوشبو
روایت ہے کہ قصور کا نام بھگوان رام کے بیٹے قشور، کے نام پر پڑا ہے جیسے لاہور کا نام رام کے بیٹے لہو پر پڑا ہے مگر ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب افغانیوں نے اس علاقے پر قبضہ کیا اور اس کے گرد محل بنوائے تو عربی لفظ قصور، جس کام طلب محل ہوتا ہے پر اس کا نام پڑ گیا۔ وجہ تسمیہ جو بھی ہو مگر قصور شہر دیکھنے سے کم اور محسوس کرنے سے شاید زیادہ تعلق رکھتا ہے۔ یہاں ایک عجیب قسم کا سکون اور عجیب قسم کا اطمینان ہے یہ اطمینان بنتا بھی ہے اور ہونا بھی چاہیے جس شہر میں بلھے شاہ اور وارث شاہ جیسے شاگرد ہوں اور شاہ عنایت قادری جیسے استاد ہوں جن کاتعلق قادریہ سلسلے سے ہو اور سلسلہ شاہ عبدالقادر گیلانی سے جا ملے اور ایسے دو شاگردہوں جس میں سے ایک حقیقی عشق کی معراج کو پہنچ جائے اورلکھ ڈالے "عیباں والا بندہ میں ِ اندروں باہروں گندا میں " اور دوسرا، دوسرا مجازی عشق کیہیر رانجھا، کی ایسی داستان لکھ جائے جو آج کے اس جدید دور میں بھی جہاں عاشق اپنے معشوق کو بذریعہ ویڈیو کال پر بات کرسکتا ہے واٹس ایپ کرسکتا ہے جہاں عاشق معشوق کو بلیک میل کر رہا ہو ا یسے لوگو ں کے لیے بھی یہ کہانی ایک خواب جیسی لگتی ہوکہ ایک ایسا عاشق جو اپنی معشوق کے لیے بارہ سال بھینسوں کو چراتا رہے اس کے لیے گوالا بن جائے وہاں اطمینان ہونا بھی چاہیے۔
میں آج چائنہ کے رانجھوں کو یہ چیلنج دے کر کہتا ہوں کہ وہ اپنی ہیر کے لیے کچھ قربانی دے کر تو دکھائیں ہیر ضرور ملے گی صرف خالی اداس گانے سن لینے سے اوردکھی اسٹیٹس شیئر کرلینے سے ہیر تو کیا ہیر کی جویں بھی ہاتھ میں نہ آئیں۔ قصور میں دیکھنے کے لائق بے شمار مقامات ہیں میں یہ وقفے سے وقفے دیکھ رہا ہوں اور ہر دفعہ حیران ہو کر واپس آرہا ہوں۔ بابا بلھے شاہ اوچ شریف سے چلے، پانڈوکی شریف(آپ کے والد، والدہ کی قبر یہاں موجود ہے) میں قیام کیا اور پھر قصور میں مستقل رہائش پذیر ہوگئے۔ بلھے کا مزار، وہاں پر موجود بعض اوقات قوال گاتے ہوئے بلھے کا کلام ہمارے اندر کی میل کو ایسا کھنگالتا ہے جیسے دھوبی کسی کپڑے کو زمین پر پٹک پٹک کر کھنگال رہا ہو۔ ہمارے معاشرے میں 2021میں بھی ذات پات کا نظام موجود ہے میرے اندر خود بھی ابھی اتنی جہالت موجود ہے کہ میں اپنے نام کے ساتھرانا، لکھ کر اچھا محسوس کرتا ہوں لیکن بلھے شاہ تو پھر بلھے شاہ 1700صدی میں بھی تھے وہ خود سید ہو کربھی اس وقت ایک آرائیں کو اپنا استاد بنا کر معاشرے میں ذات پات کے نظام کو چیلنج کردیا۔
بابا بلھے شاہ کی اپنے استادو مرشد شاہ عنایت قادری کے داماد کے ساتھ کیا اختلافات تھے اور ان میں جھگڑا کیوں تھا میرا یہ سفرنامہ اس مکمل کہانی کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے گا خیر قصور میں بابا شاہ کمال چشتی بھی موجود ہیں اوروہ بھی پہاڑی کی چوٹی پر۔ ان کے دربار کی سو سیڑھیاں ایسی ہیں جیسے بیک گراونڈ میں انڈیا کوئی گانا چل رہا ہو اور انسان مزار پر منت مانگنے جا رہا ہوں۔ ہندووں کے مشہور بزرگ بابا لال دیال کا تعلق بھی قصور سے تھا، مہارانی داتر کور (مہاراجہ رنجیت سنگھ کی بیوی)بھی قصور سے تھیں اور مشہور زمانہ ڈاکو جگا جٹ یا جگا ڈاکو (جگا ٹیکس کا موجد)جس کو پنجاب کا رابن ہوڈ بھی کہا جاتا ہے جو امیروں سے مال لوٹ کر غریبوں میں بانٹا کرتا تھا بھی قصورسے ہی تھا۔ کبھی کبھی مجھے بھی لگتا ہے ہمیں بھی جگا ڈاکو کی طرح امیروں سے مال لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کرنا چاہیے ہمیں بھی اپنے اپنے علاقے کا جگا ڈاکو بننا چاہیے میری دعا ہے اللہ ہم سے بھی کوئی ایسا کام لے لے۔ قصور میں گنڈا سنگھ بارڈر ملک کے لوگوں کے لیے ملک کی لازوال قربانیوں کی داستان سنانے کے لیے بھی موجود ہے، یہاں کی اندرون گلیاں بھی لاہور جیسی انتہائی تنگ اور باریک ہیں جن کے بارے میں مشتاق احمد یوسفی نے لکھا تھاکہ "اندرون لاہور کی گلیاں اتنی باریک ہیں کہ جب لڑکا اور لڑکی وہاں سے گزریں تو صرف نکاح کی گنجائش رہ جاتی ہے" ویسی ہی گلیاں قصور کی بھی ہیں۔
آج کل گلی سورجن سنگھ کے بہت چرچے میں ہے جس کو جرمنی اورپاکستان کے اشتراق سے بنایا گیا ہے میرا دعوہ ہے کہ قصورمیں ایسی بے شمار گلیاں ہیں جن کی اگر مرمت کی جائے تو وہ بھی بلکل گلی سورجن سنگھ، کی طرح انتہائی خوبصور ت ہوجائیں اور مجھ جیسے مسافروں کو یورپ میں ایسی گلیاں تلاش نہ کرنی پڑیں۔ یہاں کا ریلوے اسٹیشن راے ونڈ کے اسٹیشن جیسا خوش نصیب نہیں اور نہ ہی سی پیک کے کسی روٹ میں آتا ہے جس کو دوبارہ خوبصور ت بنایا جائے مگر پھر بھی یہ ریلوے اسٹیشن مجھے جیسے جہالوں کے لیے قابل دید ہے قصور میں چمڑے کا کاروبار بھی اپنی انتہا کو چھو رہا ہے یہاں پر بے شمار لوگ اس انڈسٹری سے وابستہ ہیں اورقصورے کھانے وہ تو پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں آپ اگر پاکستان میں کسی سے پوچھیں گیں فالودہ کیا ہوتا ہے توشاید وہ آپ کو بتائے گا کہ اب فالودہ، فالودہ نہ رہا وہ قصوری فالودہ ہوگیا۔ اب مچھلی، مچھلی نہیں رہی وہ قصوری مچھلی ہوگئی ہے اوراندرسہ اب اندرسہ نہ رہا وہ بھی قصوری اندرسہ ہوگیااور قاسم تاج بھی راے ونڈ پنڈ پانی والی ٹینکی کا رہنا والا نہ رہا وہ بھی قصوری ہوگیا ہے۔