Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Qasim Taj/
  4. Kartarpur Ka Tawaf

Kartarpur Ka Tawaf

کرتار پور کا طواف

ہم لوگوں نے اندرون لاہور سے مشہور ناشتہ کیااور کرتارپور کی طرف روانہ ہوگئے کبھی کبھی میں سوچتا ہوں اگر لاہور کے پاس کھانے نہ ہوتے تو کیا لاہور لاہور ہوتا؟ خیر ہم کرتارپور جا رہے تھے ہمیں معلوم تھا کرتارپور بند ہوگا لیکن ہم لوگ کرتارپور دیکھنے وہاں نہیں گئے تھے، ہم لوگ یہ جاننے گئے تھے کہ کیا کرتاپور کوریڈور بنایا گیا ہے یا اس کو بنوایا گیا ہے کیو نکہ سکھ دنیا کی دوسری بڑی قوم ہے جس کے پاس اپنی ریاست نہیں ہے اور شاید وہ واحد قوم ہے جو ماضی میں ٹھیک ٹھاک حکمرانی کرتی رہی ہے۔ میں اندرون لاہور پہنچنے سے پہلے ٹھوکر نیاز بیگ رکا تھا میرے ساتھی اور تیاسر بھائی نے مجھے وہاں سے لینا تھامیں سٹاپ پر وین میں سے اترا تو ہوٹل پر کام کرنے والے اور وہاں پر کام کرنے والے دونوں لوگ اونگھیں لے رہے تھے، کوئی منہ ہاتھ دھو رہا تھا، کوئی بیٹھا ناشتہ لگنے کا انتظار کر رہا تھا اور کوئی اپنے مالک کی برائیوں میں مصروف تھاکہ اس کا مالک اس سے بہت کام لیتا ہے اور تنخواہ براے نام دیتا ہے۔ میں نے دل میں سوچا یہ شخص کتنا ناشکرا ہے کورونا کے بعد پوری دنیا میں بیس سے تیس فیصد لوگ اپنی نوکری، اپنے کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں بے شمار اپر کلاس لوگ مڈل کلاس میں اور مڈل کلاس لوئر کلاس میں تبدیل ہو چکے ہیں اور یہ اپنے مالک کی برائیاں کررہا ہے بلکہ اس کوتو شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس کو اپنے مالک کی برائی کرنے کا موقع ملا ہوا ہے۔ ہم لوگ کرتارپور پہنچے اور اپنے میزبان دودھہ گاوں کے جامع مسجد کے امام اور شبان ایجوکیشن فورم کے بانیوں میں سے ایک مولانہ آصف خاں صاحب سے ملے۔

ہم پانچ لوگ تھے اور میں صرف تیاسر بھائی اور عثمان بھائی سے واقف تھا باقی دونوں حضرت سعد بھائی اور عبداللہ بھائی سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ ہم نے گاڑی میں بیٹھتے ہی سب سے پہلے اپنے سفر کے لیے امیر چنا۔ او ریہ فیصلہ کیا مشورے کے بعد امیر صاحب کی فیصلہ آخری فیصلہ ہوا کرے گا۔ مجھے یہ بات بہت اچھی لگی مجھے لگتا ہے اآپ کو اور مجھے بھی یہ بات اپنے پلے باندھ لینی چاہیے اور زندگی میں کسی کو اپنا بڑا مان لینا چاہیے تاکہ زندگی کے فیصلے لینے میں آسانی ہو۔ مولانا آصف صاحب دودھہ گاوں میں ایک صدی سے زیادہ تعینات تھے، کرتارپور کوریڈور بننے سے پہلے یہاں کیا حالات یہ آپ ہاں کے رہائشی کی ہی زبانی سنیں "کافی عرصہ پہلے یہاں بس ایک چبوترہ ہو ا کرتا تھا، گاوں کے لوگوں کی یہاں پر زمینیں تھیں وہ اپنے جانوروں کو چرانے کے لیے یہاں لے کر آیا کرتے تھے، بعض اوقات کوئی جانور چبوترے کے اوپر چڑھ جاتا اور وہاں سے بعض اوقاتی یہاں پر فضلات بھی خارج کردیتا تھا، کچھ عرصہ پہلے یہاں پہلے دفعہ چوکی بنائی گئی اور لوگوں سے باقاعدہ شناختی کارڈ لے کر اند ر جانے دینے لگے، ہم لوگ کیونکہ گاوں کے تھے ہم لوگ ویسے بھی اکثر چلے جاتے تھے، ہر سال میں ایک دفعہ محکمہ اوقاف کے لوگ یہا ں آتے صفائی وغیرہ کرواتے اور سکھ لوگ اپنی مذہبی رسومات ادا کرتےتھےیہاں پر پہلے باقاعدہ سڑک کا نا م و نشان بھی موجود نہیں تھا۔

ایک دن اچانک یہاں بیس تیس پولیس اور رینجر ز کے ڈالے اآئے اور اس کے بعد زوروں شوروں سے یہاں کام شروع اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے یہ سارے کوریڈور کا کام مکمل ہوگیا (گورنمنٹ بھی کیا عجیب چیز ہے جب کام کرنا ہو تو کچھ منٹ لگاتی ہے اور جب نہ کرنا ہو تو کراچی جیسا حال بنا دیتی ہے)۔ ہماری آبائی زمینیں ہم سے کوڑیوں کے بھاو خریدی گئیں کبھی ہم نے کھیتی کی اجازت دے دیتے ہیں اور کبھی منع کردیتے ہیں ہمارے گاوں کے اندر کبھی بھی وردی پہنے اہلکار آجاتے ہیں ہمارے گھروں کی تلاشی لینا شروع کردیتے ہیں ہمیں ہمارے ہی اہلکار ذلیل کردیتے ہیں "۔

ہم نے کرتارپور کو باہر سے خاردار جالیوں کے بیچ میں سے دیکھا اور آس پاس کی جگہوں کا معائنہ لگایا۔ ہمیں وہاں سے مولانہ اشرف علی تھانوی صاحب کے طالب علم اور تبلیغی جماعت کے مشہور مولانہ جن کو فاتح ربوہ بھی کہا جاتا ہے کی قبر پر فاتحہ خوانی کا موقع بھی ملا۔ ہمارے ایک ساتھی فاتح ربوہ کی قبر کے پاس کھڑے ہوکر آبدیدہ ہوگئے انہوں نے ہمیں راستے میں بھی بتایا کہ پتہ نہیں کیوں ان کو ان سے قربت بہت محسوس ہوتی ہے۔ ہم لوگ واپسی کی طرف روانہ ہوگئے راست انتہائی نا ہموار تھا حالا نکہ کہ ہم ٹھیک ٹھاک کار میں بیٹھے ہوئے تھے مگر پھر بھی اتنے جمپ کھانے کے بعد مجھے وڑائچ طیارہ اور پی آئی اے کے پائلٹس یاد آگئے راستے میں ہم نے خوب شغل بھی لگایااور مختلف تعلیمی موضعوں پر تفصیلی گفتگو بھی کی۔ سفر تقریبا ختم ہوچکا تھا میں واپس راے ونڈ شریف کی وین میں بیٹھ چکا تھا اور کنڈکڑ کو کرایہ تھمانے کا انتظار کررہا تھا۔

Check Also

Taiwan

By Toqeer Bhumla