1.  Home/
  2. Blog/
  3. Qasim Taj/
  4. Haath Se Haath Mila

Haath Se Haath Mila

ہاتھ سے ہاتھ میلا

ہم نے ہاتھ سے ہاتھ ملایا، سلام لیا، ہم دونوں گاڑی میں بیٹھے اور منزل کی جانب رواں ہوگئے میرے ساتھ میرے اسکول فیلو ابوبکر لطیف تھے اور ہماری منزل زیرو لائن پر موجود عثمانوالا گاو ں تھا۔ عثمانوالہ دریائے ستلج کے کنارے قصور اوردیپالپور کے عین درمیان واقع چھوٹی سی تحصیل ہے یہاں پر ریلوے اسٹیشن بھی ہے، منڈیاں بھی اور کالجز بھی، کچھ ایریاز میں کچے گھر بھی موجود ہیں۔ جب ہم اپنے میزبان امیر حمزہ کے گھر پہنچے تو ان کا سارا خاندان، ان کے چچا، ماموں، اُن کے والد اور چھوٹے بہن بھائی چارپائیوں پر بیٹھے چائے کی چسکیاں بھر رہے تھے۔ بڑے اپنے تجربات کا تبادلہ کر رہے تھے اور چھوٹے بچے اُن کی باتوں سے محضوض ہورہے تھے۔

میر ا اپنا شہر راے ونڈ کسی وقت میں گاوں ہوا کرتا تھا لیکن یہاں سندر میں اندستریز لگنی کی وجہ سے آبادی بڑھتی گئی اور لوگ بے انتہا مصروف ہوگئے۔ میں نے اپنے ہوش میں اپنے گاوں کو شہر میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا ہے میں نے یوں سارے کسی ایک خاندان کوبغیر خوشی غمی کے یوں اکٹھے بیٹھا ہوئے بڑے عرصہ بعد دیکھا۔ ان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑے ماموں ہم سے گفتگو کرنے لگ پڑے۔ انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار بھی کیا کہ ان کا بھانجا اور ہمارا میزبان اگر سول جج بھرتی ہوجائے تو ان کے لیے بڑی آسانی ہوجائے گی۔ خیر اس سب کے دوران ہم نے بھی چائے کی چس کی، بھری اور دریائے ستلج دیکھنے کے لیے موٹر سائیکل پر روانے ہوگئے۔

ابوبکر انتہائی شفیق انسان ہیں، سپیرئیر یونیورسٹی میں بطور لیکچرار خدمات دے رہے ہیں مگر اُن کی عادتیں مالکوں والی ہے ادارے کو اپنا ذاتی ادارہ سمجھتے ہیں ہر کام پوری ذمہ داری اور خلوص سے انجام دیتے ہیں ان کی شخصیت پر مجھے کبھی کبھی رشک بھی آتا ہے، دریا ستلج تبت سے شروع ہوکر بذریعہ انڈیا پاکستان آتا ہےمگر سندھ طاس معاہدے کے تحت اس کے پانی کا حق انڈیا کے پاس ہے اور وہ اورفلو، کی وجہ سے جب چاہے پانی ہمارے علاقوں میں چھوڑ دیتے ہیں اور ہم سے اُن کی یہ دریا دلی سنبھالنامشکل ہوجاتی ہے۔ دریا سے ایک کنارے سے دوسرے کنارے جانا کے لیے ُبھیڑے، کا استعمال کرنا پڑتا ہے ہم نے وہ استعمال کیا اور دوسرے جانب روانہ ہو پڑ ے بھیڑے، پر مخلف انسان اپنی اپنی حالت سے اپنی اپنی کہانیاں بتا رہے تھے۔

وہاں پر ایک طالبعلم تھا جو دوپہر شہر، سے اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس اپنے گاوں جا رہا تھا۔ ایک خاتون اپنی خاوند کے ساتھ تھی. بہت خوش تھی شاید اپنے مائیکے، جا رہی تھی۔ میں اس دوران موبائل پر ویڈیو بنانے لگ پڑا اور باقی مشاہدہ نہ کرسکا، ٹیکنالوجی نے ہم سے ہمارا مشاہدہ، ہمارا وقت، ہماری انرجی اور شاید ہماری سوچ بھی چُرا لی ہے۔ ہم لوگ واپسی پر بھی ایک ہی موٹر سائیکل پر تین لوگ سوار ہو کر آرہے تھے امیر حمزہ موٹرسائیکل پر ہمیں انگریزی کلاسیکل ناول کا خلاصے سنانے لگ پڑے میں بھی سن رہا تھا اور ابوبکر بھی۔ اس کے بعد میں نے بھی کچھ کتابوں کا ذکر کیا۔ امیر حمزہ نے میری علم دوستی کی تعریف کی تو میں بھی اُن کی علم کی محبت پر متاثر ہوگیا۔

مجھے ان میں سی ایس ایس افسر والی لگن نظر آرہی تھی، وہ دوست کتنے خوش نصیب ہیں جو آپس میں زندگی کے تلخ و شیریں تجربے اور سب اہم کتابیں کا ذکر کرتے ہیں خیر ہم وہاں سے واپس آئے تو گھر پر ہمارے لیے ساگ کا سالن، گوشت والی بریانی، قورمہ اور مکئی کی روٹیاں انتظار کر رہی تھیں۔ ہم وہاں سے گنوں کے کھیت میں گنے کھانے بھی گئے مگر ہماری قسمت میں اس دن رس چوسنا، نہ تھا۔ ہم نے گھر آکر روٹی کھانے پر ہی اکتفا کیا۔ ان کے تمام گھر والوں نے ہمیں اکٹھے کھڑے ہو کر رخصت کیا، ان کی والدہ اور خالہ تک نے ہمیں بے تحاشہ محبت سے نوازا۔ اتنا خلوص تو ا ب شہر میں چھوڑکر اپنے ذاتی گھروں میں ہمارے اپنے ذاتی گھر والے بھی نہیں دیتے۔ یہ گھر والے ایسا کیوں کرتے ہیں مجھے آپ سے جواب کا انتظار رہے گا۔

ہم واپس آرہے تھے تومیں نے اپنی ذاتی زندگی، پروفیشنل زندگی کھلے دل سےابوبکر کے ساتھ ڈسکس کی اور انہوں نے مجھے زندگی کے سب سے بہترین اصول صبر، اور اپنا ہر معاملہ اللہ تعالی کے حوالے کرنے کی تلقین اور محنت کا مشورہ دیتے رہے۔ ہم نے پورے سفر میں شاید ایک گانا بھی مکمل نہ سنا۔ ہم ایک جگہ چائے پینے کے لیے روکے تو بل ادا کرنے کی دونوں طرف کے اصرار پر چائے والے نے ہم سے بل وصول کرنے کے لیے انکاری کردیا۔ اس نے ایسا کیوں کیا میں ابھی تک سوچ رہا ہوں شاید آپ مجھے اس بارے میں بہتر رہنمائی فراہم کردیں۔

Check Also

Eid Aur Aabadi Qasba

By Mubashir Aziz