1.  Home/
  2. Blog/
  3. Qasim Taj/
  4. Etebar Uth Gaya

Etebar Uth Gaya

اعتبار اُٹھ گیا

ہم چاہے شہر میں رہتے ہیں، گاوں میں رہتے ہیں یا کسی قصبہ میں ہمارے اردگرد ایسے بے شمار معاملات ہوتے ہیں جنہیں نا پسند کرتے ہوئے بھی ہم پسند کرتے ہیں۔ شہر کے رش میں انسان کی تنہایاں ہوں، گاوں میں موجود ہماری پرانی سوچ ہو یا قصبہ میں رہتے ہوئے ہمارا کنفیوژ ہوجانا ہو۔ یہ کام کرتے کرتے ہم لوگ اکثر بیزار بھی ہوتے ہیں اور مانوس بھی۔

میرے قصبے میں جو شاید اب شہر بن چکا ہے میں بھی ایسے معاملات ہیں جنہیں میں ناپسند کرتے ہوئے بھی پسند کرتا ہوں۔ ان میں سے ایک میلہ کالگنا ہے۔ ہمارے شہر میں دو میلے لگتے ہیں۔ ایک بڑا میلہ اور ایک چھوٹا میلہ اور حیرت سے یہ دونوں ہیں بھی مشہور اسی ناموں سے۔ میں کل رات ہمارے شہر میں لگے "بابا دولہ مولہ" کے میلے پر پہنچا۔ میں آپ کو یہ بتاتا چلوں میں نے ایک دفعہ ان بزرگ ہستی پر ریسرچ کرنے کی کوشش تھی، ہمارے شہر میں کوئی نامور تاریخ دان بھی نہیں اور ہمارے شہر پر باقاعدہ کوئی کتاب بھی نہیں لکھی گئی جس سےہم ان ہستی کے بارے میں پتہ چل سکے۔

ان ہستی نے خود بھی کوئی کتاب نہیں لکھی اور ان کی تعلیمات کیا تھیں، کرامات کیا تھیں اور ان کا پیغام کیا تھا کسی کو کچھ کانوں کان کوئی خبر نہیں۔ بس ہر سال میلہ لگ رہا ہے لوگ آتے ہیں، جاتے ہیں اور میں نے ان کے میلے کے انتظام کرنے والوں سے بھی پوچھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت پہنچی ہوئی شخصیت ہیں اور ان کے بے شمار کمالات ہیں اور بے شمار من گھٹرت کہانیاں۔

ہمارے برصغیر میں میلہ اس موقع کو کہا جاتا ہے جہاں بے شمار لوگ کسی خاص کام کے لیے اکٹھے ہوں چاہے یہ کام مذہبی ہو، سیاسی ہو، سماجی ہو یا سائنس کا کوئی معاملہ ہو۔ پوری دنیا میں سب سے بڑا میلہ "کمبھ کا میلہ" ہندوستان میں لگتا ہے۔ کمبھ کا میلہ ہر تین سال بعد چار مختلف جگہوں اور پانی جب رس کی شکل اختیا ر کرنے لگ جاتا ہے چار مختلف دریاوں پر منعقد ہوتا ہے۔ جس سے تقریبا بارہ کروڑ مقامی اور بین الا قوامی لوگ اس میلہ پر آتے ہیں جس سے ساڑھے چھ لاکھ نوکریاں اور ہندوستانی بارہ ہزار کروڑ روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ مگر اس کے مقابلے میں ہمارے ملک میں میلوں کو اس طرح سے ہم لوگ کاروباری نظر سے دیکھتے ہیں ہم تو کاروبار کو کاروبار کو نظر سے نہیں دیکھتے۔ یہ بابا دولہ مولہ کا میلہ بھی تھوڑی بہت اکنامک ایکٹویٹی جنریٹ کرتا ہے پر اس کا پوٹینشل بہت زیادہ ہے۔

آپ میلے میں داخل ہوں تو سب سے پہلے آپ کو مختلف دکانیں نظر آتی ہے اس میں سے ایک دکان "نیون لائٹس"کی دکان تھی اور دکاندار کسی اندھیرے کی جگہ میں جان بوجھ کر بیٹھ کر ان کا آن رکھتا ہے تاکہ آنا والا گاہگ اس کو دور سے دیکھ لے اور مانوس ہو کر اس کی جانب چلا آئے۔ اس کے بعد آپ کو کھانے پینے کی دکانیں نظر آتی ہیں۔ جس میں آپ کو جلیبی، قتلمہ، اندرسہ اور قصوری فالودہ کی دکانیں نمایاں ہیں۔

اس کے آگے آپ کو"خوشیوں کی دکان" بھی نظر آتی ہے جہاں بے شمار چھوٹے بچے آپ کو کھلونے خریدتے نظرآتے ہیں۔ وہ کھلونے پر کیونکہ مرضی چلا سکتے ہیں تو ہر بچہ اپنی مرضی کا کھلونا خریدنا چاہتے ہے، زیادہ تر بچیاں کیونکہ ان کی اپنی بارے میں رائے ایک نازک جان جیسی ہوتی ہے آپ کو "گڑیا" خریدتی نظر آئیں گی اورزیادہ تر بچے کیونکہ ان کی اپنی بارے میں راے اب "ارتغرل" جیسی ہوگئی ہے اور پہلے "بدمعاش" کے جیسے ہوتی تھی آپ کو پستول خریدتے نظر آتے ہیں۔

ایک جانب آپ کو جھولے بھی نظر آتے ہیں۔ جھولے میں نمایاں آپ کو بارہ ڈولی پنگھوڑا، موٹر ہوائی کشتی، چھلانگیں لگانے کے لیے تراپلین (ٹراپلین) اور انسان سر والے سانپ والا"زوو" بھی نظر آتا ہے۔ میں جب وہاں کھڑا ہوا تھا تو مجھے بچپن کی ایک "یاد "تازہ ہوئی۔ بچپن میں جب میں پہلی دفعہ مختلف جانور اور بالخصوص "انسانی سروالا سانپ" دیکھنے زوو کے اندر گیا تو وہاں سانپ توموجود تھا مگر انسانی سر نہ تھا۔

تھوڑی دیر بعد انتظار کرنے کے بعد وہاں ہمارے سامنے مالک نے مکھن کو آواز لگائی "او مکھن اند ر آ انھاں نے سانپ ویکھنا اے" مکھن اندر آیا، ہمارے سامنے سانپ کے کیبن میں داخل ہوا، اور سامنے ہی وہ سوراخ میں سے سر نکال کر کھڑا ہوگیا۔ اور زوو والے آواز لگاگئی "اے دیکھو جی انسانی سر والا سانپ"۔ میرا اس دن پہلی دفعہ انسانیت پر سے اعتبار اُٹھ گیا۔

Check Also

Muhabbat Aur Biyah (2)

By Mojahid Mirza