Begam Sahiba, Main Aur Qasoor
بیگم صاحبہ، میں اور قصور
آپ نے آج تک جتنی جگہیں بھی دیکھی ہیں آپ اس جگہ کے بارے میں کوئی رائے یا کوئی خیال رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کے والد صاحب وہاں کاروبار، نوکری کر چُکے ہوں، وہ جگہ آپ کا ننھیال ہو یا آپ کے کوئی عزیز و اقارب وہاں رہتے ہوں۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے آپ کی اُس جگہ کے بارے میں رائے بن چُکی ہو۔ آپ اُس جگہ کو دیہات سمجھتے ہوں یا کوئی بہت جدید شہر سمجھتے ہوں۔ لیکن ہم کیا اُس جگہ سے واقعی واقف ہیں یہ وہ سوال جو ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے تاکہ ہم تاریخ کے اوراق کو کنگھال سکیں۔ وہاں کی مقامی شخصیات، مقامی روایات، مقامی سوغات کو جان سکیں، سمجھ سکیں، پہچان سکیں۔
یہی سمجھنے میں قصور کئی مرتبہ جا چُکا ہوں اور اس کو بہتر سمجھنے کے لیے کئی دفعہ کوشش کر چکا ہوں۔ پر اس دفعہ میرے ساتھ بیگم صاحبہ تھیں۔ بیگم صاحبہ نے وہ شہر نہیں دیکھا۔ اس دفعہ میں نے یہ شہر اُن کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی۔ ہم لوگ دو بجے کے قریب اپنے شہر سے نکلے اور بذریعہ صوئے آصل روڈ قصور شہر پہنچے۔ آج کل مون سون کا موسم چل رہا ہے تو موسم انتہائی خوشگوار تھا، ہلکی ہلکی بارش اور اُن کی بوندیں، دونوں جانب لہلہاتا کھیت، تن آور درخت، راستے میں اکثر جگہ پر پھول بھی لگے ہوئے تھے۔
آپ ہاتھ باہر نکال کر بارش کی بوندوں کو محسوس بھی کر سکتے ہیں۔ تیز ہوا کو اپنے چہرے پر بھی محسوس کروا سکتے تھے درختوں کی خوشبو کو سونگھ سکتے تھے، آپ پھولوں کے مختلف رنگوں کو دیکھ کر محضوظ بھی ہو سکتے تھے۔ آپ اس دوران گانے بھی سُن سکتے تھے اور مختلف ویڈیوز بھی دیکھ سکتے تھے۔ ہم نے بحریہ ای ایم سی بھی دیکھا، بحریہ نشیمن بھی اور مین فیروز پور روڈ کے ذریعے مُلحقہ علاقوں کو بھی دیکھا۔
ہم وہاں سے سیدھا فوڈ اسٹریٹ میں داخل ہوئے اور گول گپے اُڑائے۔ یہ گول گپے شاید میری زندگی کے سب سے شاندار گول گپے تھے۔ گول گپوں کی دوکان بھی قابل دید تھی، چھوٹی سی دکان اور اس میں بیٹھنے کے لیے جگہ اُس سے بھی چھوٹی۔ بڑی مُشکل سے دو لوگ وہاں بیٹھ سکتے تھے اور گول گپے میں بھی ذائقہ کی جان تھی ہم نے پہلی دفعہ گول گپوں میں فروٹ ڈال کر کھایا پر پھر بھی مجھے گول گپوں کا پانی اتنا کھٹا پتہ نہیں کیوں نہیں لگا۔
ہم وہاں سے باہر نکلے تو موسم، فوڈ اسٹریٹ پر لگے اسٹال اور کسی حد تک صفائی ہمیں کسی یورپی شہر میں ہونے کا احساس دلا رہے تھے۔ ہم نے وہاں ایک پرُانی بوسیدہ عمارت کا معائنہ بھی کیا اور وہاں پر واقع ہونے والی کہانیوں کو بھی ڈسکس کیا۔ ہم وہاں سے گنڈا سنگھ بارڈر روڈ پر بھی گئے۔ ہم نے گاڑی سائیڈ پر لگائی تو ایک کھیت کھلیان کے کنارے کھڑے ہوگئے۔ کھیتوں میں پانی کھڑا تھا جیسے کوئی دریا ہو، آسمان میں کالی گھٹا تھی کچھ پرندے ایک جتھے میں اُڑ رہے تھے اور ایک ابابیل بھی تھی۔ سامنے سے ایک بابا جی آ رہے تھے۔
اگر مُشکلات نہ ہوں تو کہانی کیسے بنے گی، گاڑی کے دروازے کے لوک میں کچھ پھنس گیا تھا جس کی وجہ سے دروازہ بند نہیں ہو رہا تھا۔ ہمیں مجبوراََ دروازے کو ہاتھ سے پکڑ کر رکھنا پڑا جب تک ہم نے وہ دروازہ ایک مکینک سے ٹھیک نہیں کروا لیا۔ ہم نے وہاں سے شکاری نان بھی کھایا۔ شکاری نان انتہائی مزے دار اور خستے تھے۔ پتہ نہیں انہوں نے اُس پر کوئی جادو کیا ہوا تھا۔
ہم بابا بلھے شاہ کے دربار بھی گئے۔ یہ بُلھے شاہ وہیں ہیں جن کے نام پر انڈیا اور پاکستان دونوں مُلکوں میں گانے بنتے ہیں اور ان شُکر گزاری کی کہانی نے تو انسانوں کی سوچ کو یکسر بدل کر بھی رکھ دیا ہے۔ ہم نے بُلھے شاہ کے مزار پر فاتحہ پڑھی۔ دربار کے خادم نے ہمیں گلاب کے پھول بھی تھمائے اور ہم نے قوالوں کے پاس کھڑے ہو کر بابا بُلھے شاہ کی قوالی بھی سُنی اور حقیقی عشق کو سمجھنے کی کوشش بھی کی۔
ہم وہاں سے چلتے چلتے عالمی شہرت یافتہ ایوب فالودہ کے پاس بھی پہنچے۔ جوتوں کی سادگی اور عملی ہونے کی وجہ سے ہمیں چلنے میں بالکل دشواری نہ ہوئی۔ ایوب فالودہ میں بیٹھنے، کھانے کا ٹیبل ہر چیز پتھر سے بنی ہوئی تھی کہ پانی سے دھو کر ہی صاف۔ ہم نے رائے ونڈ واپسی پر وہاں سے اندرسے بھی کھائے، اندرسے بہترین میٹھے اور زبان میں گھل جانے والے تھے۔