Bahir Jaane Ki Zaroorat (1)
باہر جانے کی ضرورت (1)
ہم دُکھی تھے شدید قسم کے دکھی۔ ہم لوگوں نے چھوٹی عید پر کشمیر دیکھنے کا ارادہ کیا تھا اور کچھ معاملات کی وجہ سے رہ گئے تھے لیکن ہمیں اس دفعہ دکھ کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اس لیے نہیں کہ ہمارا ایک ساتھی ہمارے ساتھ سفر نہیں کر پائے گا اور ہم چار کی بجائے تین ساتھ سفر کر پائیں گے بلکہ شاید اس لیے کہ وہ پیٹرول کا ٹینک جو اس نے ہمیں ہماری گاڑی میں سرکاری کھاتے سے ڈلوانے کا وعدہ کیا تھا شاید وہ اب نہ بھرواسکیں۔ لیکن فرحان نے پھر بھی اپنا وعد ہ وفا کیا اورہماری گاڑی میں سرکاری کھاتے سے پیٹرول ڈلوایا۔
الحمداللہ ہمارے ملک میں ہم سب فرعون ہیں۔ جو جس جگہ بیٹھا ہے وہ اس جگہ فرعون ہے۔ ہم سیاست دانوں، سول و عسکری افسرانوں اور کاروبار ی حضرات کو ہمارے مسائل کا ذمہ دار ٹھراتے ہیں حالانکہ ہم سب کا جہاں "داع" لگتا ہے لگا لیتے ہیں جیسے ہم نے ذاتی ٹرپ پر سرکاری کھاتے سے پیٹرول ڈلوایا اور گاڑی میں بیٹھ کر سب اشرافیہ کو ہمارے مسائل کا ذمہ دار ٹھرایا۔
میں عید کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ آزاد کشمیر کے سفر پر روانہ ہوا تھا میرے ساتھ میرے بزنس پارٹنر جنید اور اسکول جونئیر شعیب تھے۔ ہم لوگ صبح لگ بھگ گیارہ بجے مظفر آباد پہنچے تو ہمارے میزبان پروفیسررضوان کیانی نے ناشتہ کا بندوبست کیا ہواتھا۔ پروفیسر صاحب شعیب کے استاد تھے خوش اخلاق اور زندگی سے محبت کرنے وال شخص تھے۔ اب لاہور جی سی یو فیصل آباد کیمپس میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پرجوش بھی ہیں اور "کیانی ٹورز "کے نام سے ٹریولنگ کمپنی بھی چلاتے ہیں ان کو دیکھ کر مجھے اپنی ٹیچنگ جاب چھوڑنے کا دکھ بھی ہوا۔
میں نے اس دفعہ کوئی ریسرچ نہیں کی تھی اور سارا کچھ جو ہے جیسے ہے کی بنیاد پر چلنے دیا تھا۔ پروفیسر صاحب نے پہلے ہماری تواضع کی اور پھر ہمیں وادی کشمیر میں سفر کے لحاظ سے مکمل رہنمائی فراہم کیں۔ ہم لوگوں کا سب سے پہلے پڑاو "پیر چناسی"کے مقام پر تھا۔ پیر چناسی مظفرآباد سے کوئی پچیس کلومیٹر چڑھائی کا راستہ ہے ایک پیر شاہ حسین چناسی کی وجہ سے مقام مشہور ہے۔ چڑھائی کار کے لیے تھوڑی مشکل ہے مگرمقام دیکھنے اور رات رہنے کے قابل ہے۔ یہ میری زندگی کا شاید پہلا مزارتھا جس کے اند ر میں داخل نہیں ہوا اور فاتحہ بھی نہیں پڑھی۔ مجھے پتہ نہیں میں نے ایسا کیوں کیا۔
عید کی وجہ سے رش کافی زیادہ تھا اور ہوٹل نہ ہونے کے برابر۔ شعیب اور جنید کوئی چکر چلا کر پولیس کا "ہٹ ہاوس" رینٹ پر لینے میں کامیاب ہوگئے۔ ہٹ ہاوس پہاڑ کی بلکل نکٹر پر تھا، دروازے کے پاس ویو سائٹ کے لیے کرسی پڑی ہوئی تھی، شام ڈھل رہی تھی، ماحول سرد تھا، میں وہاں کچھ دیر کے لیے کمبل لپیٹ کر بیٹھ گیا۔ سر ٹھنڈ کے مارے کمبل میں دینے کو دل کر رہا تھا پر آنکھوں کے سامنے مختلف پہاڑوں کے جتھے ایک دوسرے کو جپھیاں ڈال رہے تھے۔ بادل، آسمان کو چھو کر پہاڑوں پر درختوں سے ٹکراتے ہوئے نیچے اتر رہے تھے۔
سورج بھی آہستہ آہستہ ڈھل رہا تھا، بادلوں اور سورج کے اس حسین ملاپ کی وجہ سے ماحول کبھی سرخ رومانوی ہو رہا تھا، اور کبھی سفید یخ ٹھنڈا۔ بادل کچھ دیر بعد جسم کو چھو کر بھی جارہے تھے۔ یہ سارا ماحول مل کر مایوسی اور خوشی کے مل جلے تاثرات پھیلا رہا تھا۔ میری آنکھ میں کبھی آنسو آتے تھے اور کبھی خوشی سے میں اپنے دانت باہر نکالنے شروع کر لیتا تھا۔ میں کچھ دیر بعد اندر ہٹ ہاوس میں جا کر لیٹ گیا نیند نے کب مجھےگود میں لے لیا مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔
بیچ آدھی رات میری اچانک آنکھ کھولی، میں نے سوچا کے رات کو یہ علاقے دیکھنے کے قابل ہوگا، کیونکہ میں ابھی نوجوان ہوں، غیر شادی شدہ ہوں اور ذات برادری کے لحاظ سے راجپوت بھی ہوں تو مجھے لگتا تھا کہ اندھیرےمیں مجھے ڈر نہیں لگتا لیکن اس رات میرے تمام اندازے اور میرے بزرگوں کی دلیری کی داستانیں غلط ثابت ہوئے۔ میں ہٹ سے باہر نکلا تو اتنا اندھیرا، اتنی خاموشی اور پہاڑوں کی اتنی تنہائی تھی کہ میں چپ چاپ ہٹ کے اندر جا کر پھر لیٹ گیا۔
ہم صبح صبح ناشتے کی غرض سے مظفرآباد پہنچے، مظفر آباد کی فوڈ سٹریٹ میں ایک مشہور ہوٹل "پاکستان ہوٹل" کے نام سے موجود ہے۔ ہم نے وہاں سے باقر خانی بھی کھائی، یہ باقر خانی پنجاب کی باقر خانی اور پٹھانوں کے لچھے دار پرانٹھوں کے درمیان ایک چیز کا نام ہے۔ ہلکی سی نمکین مگر کُلی طور پر انتہائی لذیذ۔ شعیب مالی معاملات میں کافی حسابی کتابی ہے ہر چیز ناپ تول کر، دیکھ بھال کر، مکمل طور پر بھانپ کر خریدتا ہے میرا آپ کو مشورہ ہے اگر آپ کہیں سفر پر جائیں تو پھر آپ شعیب جیسا دوست ضرور لے کر جائیں کیونکہ صرف پیسہ خرچ کرنے سے چیزوں کا مزہ نہیں آتا، صحیح جگہوں پر پیسہ خرچ کرنے سے مزہ آتا ہے۔
ہم وہاں سے شاردہ کیلے نکلے راستے میں ایل او سی کا بارڈر بھی آتا ہے، ہمیں وہاں ں ایک ہوٹل پر رکے، سامنے مقبوضہ کشمیر تھا ہم آزاد کشمیر میں کھڑے تھےدرمیان میں دریائے نیلم تھا سامنے دیکھنے پر مقبوضہ کشمیر میں چیزیں ترتیب سے بنی ہوئی لگ رہی تھیں، گھر مخصوص جگہ پر تھے سڑکیں واضع تھیں۔ ہم راستے میں اپر نیلم بھی تھوڑی دیر رکے اور پھر شاردہ کو رواں دواں ہو لیے۔ ہلکی ہلکی سی ہوا میں خنکی تھی تھوڑی تھوڑی بارش تھی، ساتھ بہتہ دریائے نیلم تھا اور دونوں جانب پہاڑاور سڑک کے درمیان میں ہماری چلتی ہوئی گاڑی۔
پہاڑوں کی بلندی دیکھنے سے وحشت آتی تھی اور دریائے کی گہرائی کو دیکھنے سےخوف۔ اکثر لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ مجھے پہاڑ پکارتے ہیں تو مجھے اس بات کی تب سمجھ نہیں آتی تھی، یہ واقعہ ہی بے تاب روحوں کو اپنی طرف پکارتے ہیں۔ ہم شاردہ پہنچے، ہوٹل لیا اور کھانا کھانے کے لیے بازار چل پڑے ایک دو لوگوں سے پوچھنے پر ایک ہوٹل کا تذکرہ ملا تو وہاں جا پہنچے، ہوٹل کے کھانوں میں "لاہوری ٹچ" تھا۔ ہوٹل کا مالک پاکستان کے مختلف علاقوں میں کام کر چکا تھا اور مسافروں کے ٹیسٹ کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔
ہم نے اس سے تھوڑی دیر گپ بھی لگائی اور کافی شفیق پایا۔ ہم نے وہاں پر خصوصی طور پر کشمیری دال چاول کھائے، چاولوں کو ابال کر ان پر اگر لال لوبیا ڈال دیا جائے تو یہ کشمیری دال چاول بن جاتے ہیں۔ ذائقہ میں نفیس تھے اور ہمارے پنجابی کھانوں سے صحت کے لحاظ سے بہتر۔ ہم کھانے کے بعد واک کرتے کرتے پل کراس کر دریا کے کنارے جابیٹھے، ہم نے وہاں سگریٹ جلا لی، دیر تک دریا کا شور اور اس کی لہروں کے اندر موجود اسکی خاموشی کو سنتے رہے۔
ہم واپس ہوٹل پر پہنچے تو ہمارے ساتھ والے کمروں میں موجود لوگوں نے دریا کے کنارے بون فائر کا انتظام کیا ہوا تھا ہم بھی وہاں جا کر بیٹھ گئے۔ بون فائر پر موجود ہمارے ہوٹل کا ہمسایہ لاہوڑی تھا اعظم مارکیٹ میں کپڑے کا کام کرتا تھا اور "ر" کو "ڑ" کے ساتھ تبادلہ کرتا تھا اور ہمیں اپنے ٹوور گائیڈ کی شکائیتیں کر رہا تھا کہ اس نے یہ وعدہ کیا، وہ وعدہ کیا مگر پوری کوئی نہ کیا، خیر سے ہم بھی اس کی ساری باتیں سنتے رہے آخر ہمیں بھی تو آگ سینکنی تھی۔ اگلے دن ہمارا اڑنگ کیل جانے کا ارادہ تھا
(جاری ہے)