Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qasim Taj
  4. Aik Din Superior Ke Sath

Aik Din Superior Ke Sath

ایک دن سپیرئیر کے ساتھ

ہاں کا پیغام ملا اورمیں یونیورسٹی جا پہنچا۔ مجھے یونیورسٹی سے ڈگری لیے عرصہ بیت گیا ہے مگر کل رات اچانک یونیورسٹی کی یاد ستانے لگی۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے رات کو اپنے کلاس فیلو اور یونیورسٹی میں بطور پروفیسرخدما ت سر انجام دینے والے محمد ابوبکر سے رابطہ کیا اور بس۔ میں ہمیشہ بائیک پر یونیورسٹی گیا تھا لیکن آج میرے پاس گاڑی تھی۔ میرے پاس یونیورسٹی کا کار ڈ پڑا ہواتھا تو میں آسانی سے یونیورسٹی کے گیٹ سے اندر داخل ہوگیا۔

میں نے یونیورسٹی کو دوبارہ نئے طریقے سے دیکھنے کے لیے پورے کیمپس کا جا ئزہ لیا۔ میں نے شروعات لائیبریری کی جگہ سے کی۔ لیکن اب وہاں لائیبریری نہیں تھی میرے دوست منٹو کی کتابیں، قدرت اللہ شہاب کا شہاب نامہ، ممتاز مفتی کی علی پور کا ایلی اور ڈاکٹر یونس بٹ کی کتابیں اوپر والی منزل میں اپنی جگہ بنا چکیں تھیں اور اپنے ساتھ لائبیریری بھی لے گئیں تھی۔ میں جوس کارنر گیا، جوس کارنر پر جاوید چودھری صاحب کے کالمز پر بحث کرنے کے لیے فاطم سعدان موجود نہ تھا، بعض اوقات میری یہاں بلال سعید سے بھی بحث ہوجاتی تھی مگر اب وہاں صرف جوس، پھل اور بینچ پڑے تھے۔

یونیورسٹی کے ہسپتال میں نہ ہی وہ خوبصورت میڈیکل کی طالبات تھیں اور نہ ہی ڈراوناطلباء۔ آج جہاں ڈینٹل ہسپتال ہے وہاں کبھی باسکٹ بال کورٹ ہوا کرتا تھا بلال، ابوبکر، ہارون تارڑ اور ارسلان ناصر وہاں کھیلا کرتے تھے اور میں صرف دیکھا کرتا تھا لیکن وہاں اب دیکھنے کو بھی کچھ نہ تھا صرف کنکریٹ کے بلاک تھے جس میں ایسے انسانوں کا رقص تھا جن کا مجھ سے کوئی تعلق اورکوئی واسطہ نہ تھا۔ میں اپنے کلاس روم بھی گیا میں نے اپنے سارے کلاس فیلوز کے چہرے اور ان کی عادات کو تازہ کرنے کی کوشش کی۔ کہ کیسے وہ لڑکا ٹیچر سے مذاق کر لیتا تھا اور کیسے فلاں ٹیچر ہمارے کلاس کی واحد دو لڑکیوں کوبلا وجہ رعائت دے دیتا تھامیں نے کرسیوں کی ترتیب سے ان کے نام بھی پکارے۔

میں نے وہاں آئیڈیلسٹ قاسم کو بھی ڈھونڈا مگر وہ شاید حقائق کی دنیا میں کہیں کھو چکا ہے وہ نظریے کے لیے دوسرو ں سے الجھتا نہیں ہے، علمی بحث نہیں کرتا، دلائل بلکل نہیں دیتا اور اپنی رائے تووہ مانگنے سے بھی نہیں دیتا، بڑا مطلبی ہوتا جا رہا ہے۔ میں ہمارے فیکیلٹی روم گیا مگر آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ اب گولڈ کیمپس شفٹ ہوچکا ہے تو وہاں میرا جاننے والا کوئی نہ تھا۔ تھیں تو بس میری یادیں۔ کیفے ٹیریا کے سٹاف تو پرانا تھا مگر وہاں اب بہت کچھ بدل چکا تھا۔ سارا فرنیچر تبدیل ہوچکا تھاکرسیوں کی جگہ جدید ٹیبلز نے لے لی تھی، دیواروں پر اقوال لکھے ہوئے تھے۔ صفائی پہلے بھی مناسب تھی اب بھی مناسب ہی ہے۔

پرانے جوڑے نئے جوڑوں میں تبدیل ہوچکے تھے اور وہ بھی پرانے جوڑوں کی طرح ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھا رہے تھے، دوستوں کے گروپس نئے گروپس میں بدل چکے تھے اور اکیلے تنہا بیٹھے انسانوں کی جگہ نئے اکیلے تنہا انسان بیٹھے تھے جن کے چہروں پر خاموشی اور ان کے ماحول میں خیالات میں گرمی ہی گرمی تھی۔ میراکرش، بھی اپنے دوستوں کے ساتھ گروپ میں نہیں بیٹھا تھا۔ مگروہاں ایک چیز جو نہیں بدلی تھی، وہ تھی ان کی دودھ پتی، وہ بھی ڈبل ٹی بیگز کے ساتھ۔

ابوبکر بھائی نے میزبانی کا حق ادا کرتے ہوئے مجھے بل دینے سے روک دیا۔ میں جب سےشکر گزاری، سے واقف ہوا ہوں میں تب سے کھانے میں زیادہ نقص نہیں نکالتا جو ملتا ہے، جیسے ملتا ہے، کھا لیتا ہوں مگر آج بہت دیر بعدکیفے والے نے مجھے سادہ چائے پکڑائی اور میں نے اس کو دودھ پتی کا اصرار کر کے واپس کر دی۔ ہم نے چائے پی اور بے شمار معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ ابوبکر میرے ان دوستوں میں شمار ہوتے ہیں جن سے میں وقت کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں مانگتا یہ ان کا بڑھا پن ہے جو ہمیشہ مجھ پرشفقت کا ہاتھ رکھتے ہیں۔

ان کی میٹنگ کا وقت ہو رہا تھا انہوں نے مجھ سے اجازت لی اور میں بھی یونیورسٹی کے باہر گیٹ کی طرف چل پڑا۔ میرے اندر خیالات اور جذبات کا سمند ر ٹھاٹھے مار رہا تھا اور چہرے پر مایوسی اور خوشی کے ملے جلے جذبات تھے آنکھوں میں کچرا جانے کی وجہ سے پانی آگیا تھا شاید۔

Check Also

Muhib e Watan Bangali

By Syed Mehdi Bukhari