Abba Ji Ke Naam
ابا جی کے نام
آپ جب پیدا ہوتے ہیں، آپ کے کھانے کا خیال، آپ کے کپڑوں کا خیال، آپ کے بخار کا خیال ایک شخص کو دن رات محنت کرنے پر اکساتا ہے، آپ اس شخص کی سوچوں میں، اُن کے رویے میں شامل ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس کو جوکام سمجھ آتا ہے وہ کرتا ہے، وہ جو زور لگا سکتا ہے وہ لگاتا ہے۔ اس کا وقت اس کا نہیں رہ جاتا آپ کا ہوجاتا ہے اس کی خواہشات اس کی نہیں رہتی آپ کی ہوجاتی ہیں۔ اُس کی سوچ اُس کی نہیں رہ جاتی آپ کی ہوجاتی ہے۔ ایسے شخص کو باپ کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ہم انسانوں میں مخلص ترین لوگوں کی ترتیب بنائیں اور خدا کا روپ دنیا میں دیکھنا چاہیں تو باپ کا نام شاید اول نمبر پر آئے۔
میرے ابا جان رانا تاج خاں، ابا جان نے کُل چونسٹھ سال زندگی گزاری اور بھرپور گزاری۔ ہرعام باپ کی طرح انہوں نے اپنی تمام خواہشات کو قربان کرکے ہماری خواہشات کو افضل جانا، ہماری اکثر خواہشات پوری کر سکے اور کچھ پوری نہ کرسکے۔
میرے ابا جان راے ونڈ میں ریلوے میں ملازمت بھی کرتے رہے، وہ لاہور میں انڈیگو ہوٹل میں ملازمت بھِی کرتے رہے اور وہ پشاور میں اخبار بھِی چھاپہ کرتے تھے، انہوں نے راے ونڈ میں کاروبار بھی کیا۔ اللہ تعالی نے آخرکار ان کو ان کی تمام تر محنتوں کو قبولیت کاروبار میں بخشی۔ میرے اباجان شہر کے معزز لوگوں میں شمار ہوتے تھے، میں آج بھی ان کی وجہ سے علاقے میں بے تحاشہ عزت وصول کرتا ہوں۔ ابا جان جدید سوچ اور سادہ طبعیت کے مالک تھے۔ اباجان کی سات بہنیں تھیں اور وہ اکیلے بھائی اور الحمداللہ انہوں نے یہ ذمہ داری پورے ایمان داری سے نبھائی۔
ابا جان ہرعام باپ کی طرح اخروٹ تھے اوپر سے سخت اور اندر سے انتہائی نرم تھے، میں کیونکہ گھر میں چھوٹا تھا اس لیے میرے معاملے میں کافی نرم تھے۔ میں گھر کا پہلا شخص تھا جس نے پرائیوٹ یونیورسٹی کا منہ دیکھا تھا۔ میں گھر کا پہلا لڑکا تھا جس نے کپڑوں میں جدت پسندی اپنائی تھی، اباجان نے میرے معاملے میں ہمیشہ نرم مزاجی سے کام لیا کرتے تھا۔ مجھے انہوں نے صرف ایک دفعہ زندگی میں کٹ لگائی تھی۔
عام باپ کی طرح وہ بھی بے شمار معاملات میں دین دار اور کچھ میں دنیا دار تھے۔ وہ دو دفعہ عمرے کا فریضہ ادا کرچکے تھے، اکثر نماز بھی ادا کرتے تھے روزے بھی رکھتے تھے اور زکوۃ بھِی دیتے تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ٹین اسپورٹس پر ریسلنگ بھی دیکھتے تھے اور سینما گھروں میں فلمیں بھی۔ ہمارے گھر میں بے شمار پریشانی کے معاملے آئے مگر میں نے ان کو کبھی پریشان نہ پایا ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ پائی۔ ہمارے معاشرے میں بچیوں کو لے کر والد بہت حساس ہوتے ہیں میرے اباجان بھی تھے۔ وہ کسی حد تک کھانا بھی بنا لیتے تھے، یاروں کے یار تھے، بڑوں کے ساتھ بڑے اور چھوٹوں کے ساتھ چھوٹے بن جاتے تھے۔
الغرض وہ ایک عام باپ تھے اور ہر عام باپ کی طرح وہ عظیم تھے۔ اگر آپ کو ان کے رویے کی کوئی بھی بات اپنے والد صاحب جیسی لگی توآپ اپنے والد کو گلے لگا لیجیے اور میرے والد کے لیے دعا کر دیجیے۔