Quaid e Azam Par Qatilana Hamla
قائداعظم پر قاتلانہ حملہ

1943ء قائداعظم محمد علی جناح کو روزانہ چالیس پچاس خطوط موصول ہوتے جن میں قائداعظم کو انگریزوں کے خلاف کانگریس کا ساتھ نہ دینے پر غداری کے الزامات لگائے جاتے، قائداعظم کو لعنت ملامت کی جاتی اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتیں۔۔ ہیکٹر بولیتھو نے اپنی کتاب "جناح، معمار پاکستان" میں اس کی تفصیل لکھی ہے۔
یہ گالیوں بھرے خطوط لکھنے والے زیادہ تر خاکسار تحریک کے کارکنان ہوتے تھے۔ خاکسار تحریک کے بانی علامہ مشرقی عنایت اللہ خان تھے۔ یہ تنظیم بیلچہ پارٹی کے نام سے مشہور تھی یہ لوگ کندھے پر بیلچہ رکھ کر چلتے تھے ان کا باقاعدہ خاکی یونیفارم تھا۔ ہر خاکسار پر خاکی یونیفارم پہننے اور نماز روزہ کی پابندی لازم تھی۔ نماز نہ پڑھنے والے خاکسار کو مارا پیٹا جاتا تھا۔ مشہور شاعر ن م راشد 1937ء میں اس خاکسار تحریک کا حصہ بنے، ڈیڑھ سال تک تحریک سے وابستہ رہے پھر چھوڑ دی۔ ن م راشد کا اصل نام نذر محمد راشد تھا۔ علی پور چھٹہ میں پیدا ہونے والا نذر محمد اپنا نام ن م نہ رکھتا تو کبھی بھی مشہور شاعر نہیں بن سکتا تھا۔ نذر محمد میں صوتی ردھم نہیں ہے۔
مارچ 1940ء میں خاکساروں نے اندرون لاہور بھاٹی گیٹ پر فوجیوں کی طرح پریڈ کرتے ہوئے جلوس نکالا، حکومت نے روکنے کی کوشش کی۔ خاکساروں نے برطانوی پولیس پر حملہ کر دیا، بیلچوں سے مارا ایک پولیس آفیسر مر گیا۔ پولیس نے گولی چلا دی بہت سے خاکسار مارے گئے۔
1947 سے پہلے یہ جماعت تقسیم کے خلاف تھی لیکن بعد میں حمایتی بن گئی۔ جیسے جمعیت علمائے اسلام پاکستان بننے کے خلاف تھی، مولانا فضل الرحمٰن کے والد صاحب پاکستان بننے کے بعد بھی یہ کہتے تھے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں۔ بعد میں یہی جمعیت پاکستان کی ٹھیکیدار بن گئی اور پاکستان کو اسلام کے ساتھ جوڑ دیا۔
خیر میرا موضوع قائداعظم پر قاتلانہ حملہ تھا جس کے بارے میں اکثر پاکستانی لاعلم ہیں۔ اس کا اصل نام محمد صادق تھا۔ وہ پہلے مجلس احرار کا رکن تھا پھر مرکز اتحاد ملت کا رکن بنا۔ مولانا ظفر علی خان نے صادق کی کارکردگی سے خوش ہو کر اسے کامریڈ کا خطاب دیا۔ صادق شاعری بھی کرتا تھا اپنی جماعتوں تنظیموں کے لیے نظمیں ترانے اور نعرے بناتا تھا۔ صابر تخلص تھا، کامریڈ کا مطلب رفیق ہوتا ہے اور صادق مزنگ چونگی لاہور کا رہنے والا تھا اس طرح اس نے اپنا نام "رفیق صابر مزنگوی" رکھ لیا۔
خاکسار تحریک میں رہتے ہوئے رفیق صابر مزنگوی کو شدت سے احساس ہوا کہ قائداعظم ملک اور قوم سے غداری کر رہا ہے، 26 جولائی 1943 کی گرم دوپہر رفیق صابر قائداعظم کے دفتر میں داخل ہوا اور ایک مُکا قائداعظم کے منہ پر مارا۔ جیب سے چاقو نکال کر گردن پر وار کیا جسے قائداعظم نے روکنے کی کوشش کی، چاقو ترچھا پڑا اور گردن کی بجائے ٹھوڑی کٹ گئی۔ شور سن کر چوکیدار بھی آ گیا اور قائداعظم کے سیکرٹری سید احمد یعقوب دونوں نے حملہ آور کو پکڑ لیا۔
موہن داس کرم چند گاندھی بھی ایک شدت پسند ہندو کے ہاتھوں مارے گئے تھے، اس روز قسمت اچھی تھی ورنہ قائداعظم محمد علی جناح بھی ایک مسلمان کے ہاتھوں قتل ہو جاتے۔ سچ بتائیں کیا آپ کو اس سے پہلے قائداعظم پر قاتلانہ حملے کے بارے میں علم تھا؟

