Chaand Se Makalma
چاند سے مکالمہ

کالا چاند خاموشی سے آسمان کے کونے میں الٹا لٹکا ہوا تھا، جیسے کسی نے اسے سزا کے طور پر وہاں باندھ دیا ہو۔ میں نے سگریٹ کا دھواں فضا میں چھوڑا اور آہستہ سے کہا: "ہم دونوں بددعائے ہوئے لوگ ہیں۔۔ مجھے تیری اور تجھے میری بددعا لگی ہوئی ہے، ہم کبھی خوش نہیں رہ سکیں گے"۔
چاند نے ہنستے ہوئے کہا: "تم لوگ عجیب مخلوق ہو۔ خود ہی محبت کرتے ہو، خود ہی بددعائیں دیتے ہو اور پھر انہی بددعاؤں کے ملبے پر بیٹھ کر فلسفہ بگھارتے ہو"۔
میں بھی مسکرا دیا: "تو کیا کروں؟ انسان ہوں، جذبات کی فیکٹری میں پیدا ہوا ہوں۔ کبھی دعا نکلتی ہے، کبھی بددعا۔ "
چاند کا رنگ کچھ اور سیاہ ہوا۔ "نہیں، تم صرف انسان نہیں۔ تم وہ مخلوق ہو جو اپنے زخم چاٹتے چاٹتے اُن سے عشق کر بیٹھتی ہے، تمہیں درد کے بغیر سکون نہیں ملتا"۔
میں نے نظریں زمین پر گاڑ دیں۔ "شاید ٹھیک کہتا ہے تو۔۔ میں نے دعا میں جتنا خلوص رکھا، بددعا میں اس سے زیادہ رکھا۔ کیونکہ جسے میں چاہتا تھا، وہ دعا کے قابل نہیں نکلا"۔
کالے چاند نے آہ بھری، "تمہارے الفاظ جلتی راکھ کی طرح ہیں نرم مگر جلانے والے۔ تم سوچتے ہو کہ بددعا صرف دوسروں کو لگتی ہے؟ نہیں، ہر بددعا واپس لوٹ کر اپنے خالق کے دل میں گھس جاتی ہے۔ تم دونوں ایک دوسرے کو نہیں، خود کو جلا رہے ہو"۔
میں نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا: "تو پھر اس جلنے کا کیا حاصل؟"
چاند نے سرد لہجے میں کہا: "حاصل؟ حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا، شاید یہی حاصل ہے کہ تم اب محبت کے سادہ مفہوم سے آزاد ہو چکے ہو۔ تم نے محبت کو اس کے آخری اور خوفناک چہرے میں دیکھا ہے، بددعا کی شکل میں"۔
میں نے چاند کی طرف دیکھا "تو کہہ رہا ہے یہ عشق نہیں، خودکشی ہے؟"
چاند نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا: "یہ عشق کا وہ مرحلہ ہے جہاں دعا مر جاتی ہے اور بددعا زندہ رہتی ہے۔ تمہاری روحیں اب ایک دوسرے کی دشمن نہیں، ایک دوسرے کی سزا ہیں"۔
میں نے سگریٹ کا آخری کش لیا، راکھ ہوا میں بکھیر دی اور بوجھل لہجے میں پوچھا: "تو پھر ہمیں نجات کیسے ملے گی، اے کالے چاند؟"
چاند خاموش رہا، پھر مدھم آواز میں بولا: "نجات؟ نجات صرف ان لوگوں کو ملتی ہے جو بھول جاتے ہیں۔ تم دونوں یاد کے قیدی ہو۔ تمہاری بددعا بھولنے کی ضد سے بڑی ہے۔ تم ہمیشہ ایک دوسرے میں زندہ رہو گے، لیکن خوش کبھی نہیں رہو گے"۔
میں نے آسمان کی طرف دیکھا، چاند اب پہلے سے بھی زیادہ سیاہ لگ رہا تھا۔
شاید وہ بھی کسی کی بددعا میں جلی ہوئی راکھ بن چکا تھا۔

