Saturday, 29 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qadir Khan Yousafzai
  4. Bayaniye Badal Gaye, Magar Awam Ke Halaat Kyun Na Badle?

Bayaniye Badal Gaye, Magar Awam Ke Halaat Kyun Na Badle?

بیانیے بدل گئے، مگر عوام کے حالات کیوں نہ بدلے؟

پاکستان میں سیاست ہمیشہ بیانیوں کے گرد گھومتی رہی ہے، مگر آج کے دور میں یہ بیانیے مزید شدت اختیار کر چکے ہیں۔ ہر جماعت کا ایک نعرہ، ایک خواب، ایک کہانی، لیکن ان کہانیوں کے پیچھے چھپے تضادات کس حد تک عوام کو نظر آتے ہیں؟ یہی وہ سوال ہے جو آج کے سیاسی منظرنامے میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ سیاست محض الفاظ کا ہنر نہیں، بلکہ عملی اقدامات کا امتحان بھی ہے اور جب بیانیے حقیقت سے دور ہوں تو سیاست محض ایک تماشا بن کر رہ جاتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے نواز شریف کو جب اقتدار سے الگ کیا گیا تو ایک نیا بیانیہ تراشا "ووٹ کو عزت دو"۔ بظاہر جمہوریت پسندی کا یہ نعرہ عوام کے جذبات کو گرمانے میں جزوی کامیاب رہا، لیکن کیا اس کے پیچھے واقعی کوئی اصولی سیاست تھی؟ ماضی میں غیر جمہوری قوتوں کی گود میں پلنے والی جماعت جب اقتدار سے باہر ہوئی، تو بعد ازاں یہ قوتیں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی۔ لیکن جیسے ہی اقتدار کی راہیں ہموار ہوئیں، وہی ن لیگ غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ صلح کا راستہ تلاش کرتی نظر آئی۔ نواز شریف کی جلاوطنی، ان کی مزاحمتی سیاست اور پھر اچانک مصالحتی پالیسی۔۔ یہ سب کیا تھا؟ کیا عوام کے حق میں لیا گیا کوئی فیصلہ تھا یا محض اقتدار کی واپسی کے لیے ایک نئی حکمت عملی؟ یہی وہ تضاد ہے جو پاکستانی سیاست میں مسلسل دہرایا جا رہا ہے۔

دوسری جانب تحریک انصاف نے ایک مختلف بیانیہ پیش کیا۔۔ تبدیلی، انصاف، کرپشن کے خلاف جنگ۔ عمران خان نے روایتی سیاست کو چیلنج کرنے کا دعویٰ کیا، مگر جیسے ہی اقتدار میں آئے، تو ان کے اپنے فیصلے، تقاریر اور عملی اقدامات ایک دوسرے کی ضد بن گئے۔ پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے والے عمران خان اسی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور ہوئے۔ اقربا پروری کے خلاف تقریریں کرنے والے عمران خان نے اپنے قریبی ساتھیوں کو اعلیٰ عہدے سونپ دیے اور پھر جب اقتدار ہاتھ سے نکلا، تو وہی اسٹیبلشمنٹ جو کبھی غیر جانبدار نظر آتی تھی، اچانک تنقید کا نشانہ بن گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کی سیاست بھی انہی روایتی طریقوں کا تسلسل نہیں، جن کے خلاف وہ خود برسرِ پیکار تھی؟

پیپلز پارٹی کی سیاست بھی کسی سے مختلف نہیں۔ جمہوریت کی علمبردار جماعت ہونے کی دعوے دار پیپلز پارٹی گزشتہ ایک دہائی سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے، مگر عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ کرپشن کے خلاف بیانیہ دینے والے مبینہ طور پر خود کرپشن کیسز میں ملوث نکلے۔ بھٹو کے فلسفے کی دعویدار پارٹی، جسے کبھی عوامی سیاست کا محور سمجھا جاتا تھا، اب ایک روایتی خاندانی سیاست کا حصہ بن چکی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا نوجوان قیادت کے طور پر ابھرنا کیا واقعی کسی انقلابی سیاست کا اشارہ ہے، یا پھر صرف خاندانی سیاست کے تسلسل کا ایک نیا چہرہ؟ سندھ میں گورننس کی ناکامی، صحت اور تعلیم کے ناقص حالات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، کیا پیپلز پارٹی کے جمہوری دعووں پر سوالیہ نشان نہیں؟

یہ سب جماعتیں، یہ سب بیانیے، حقیقت میں صرف الفاظ کا جال ہیں۔ اقتدار کی کشمکش میں ہر سیاسی جماعت اپنی سہولت کے مطابق بیانیہ بدل لیتی ہے، مگر عوام کے لیے کچھ نہیں بدلتا۔ بیانیے محض تقریریں نہیں، بلکہ ان کے پیچھے عمل بھی ہونا چاہیے۔ ورنہ یہی بیانیے، یہی تضادات، یہی چہرے، بس ایک نئے نعرے کے ساتھ عوام کے جذبات سے کھیلتے رہیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں بیانیے صرف وقتی ہوتے ہیں، اقتدار کے لیے بنائے جاتے ہیں اور حالات کے مطابق بدلے جاتے ہیں۔ عوام کے لیے سوال یہ نہیں کہ کون سا بیانیہ زیادہ مقبول ہے، بلکہ سوال یہ ہے کہ کون سا بیانیہ حقیقت پر مبنی ہے اور کون سی قیادت اپنے نعروں کے ساتھ مخلص ہے؟

آج جب ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ بیانیے عوام کو خواب تو دکھاتے ہیں، مگر ان خوابوں کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔ ایک لمحے کے لیے رک کر سوچیے، وہ عوام جنہیں "تبدیلی"، "جمہوریت"، "حقوق" اور "ووٹ کی عزت" جیسے نعرے دیے گئے، آج بھی انہی مسائل میں جکڑے ہوئے ہیں۔ مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، ادارے کمزور ہو رہے ہیں اور سیاست دانوں کی تقریریں بس جلسوں کی حد تک محدود رہ گئی ہیں۔

بیانیے تبھی طاقتور ہوتے ہیں جب ان کے پیچھے حقیقت کھڑی ہو۔ لیکن جب سیاست کا محور صرف اقتدار ہو، تو بیانیے کھوکھلے نعرے بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں شخصیات تو بدلتی ہیں، لیکن عوام کے مسائل وہی رہتے ہیں۔ آج کے دور میں سوال یہ ہونا چاہیے کہ کیا واقعی سیاستدان عوامی خدمت کے لیے میدان میں آتے ہیں یا پھر اقتدار کے کھیل میں ایک نیا پتہ بن کر رہ جاتے ہیں؟

پاکستان کی سیاست میں اگر واقعی کوئی تبدیلی چاہیے، تو بیانیوں سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آنا ہوگا۔ سیاست محض تقریروں، وعدوں اور نعرے بازی سے نہیں، بلکہ عمل سے بدلتی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاستدان اپنی زبان سے نہیں، اپنے عمل سے عوام کو بتائیں کہ وہ کس کے لیے سیاست کر رہے ہیں۔ ورنہ عوام کے لیے کچھ نہیں بدلے گا، بس بیانیے بدلتے رہیں گے، نعرے نئے آتے رہیں گے اور سیاستدان نئے چہروں کے ساتھ پرانے کھیل کھیلتے رہیں گے۔

Check Also

Pulao Aur Biryani Ki Jharap, Aap Kis Taraf Hain?

By Azhar Hussain Azmi