Kash Nawaz Sharif Shahid Khaqan Abbasi Ki Baat Maan Lete
کاش نواز شریف شاہد خاقان عباسی کی بات مان لیتے

نواز شریف اس دن شاہد خاقان عباسی کی بات مان لیتے تو تاریخ شاید کچھ اور ہوتی۔۔ نواز شریف ایک فاتح کی حیثیت سے وزیر اعظم کے دفتر کا "قبضہ" لینے جا رہے تھے۔ یہ مئی کی 26 تاریخ تھی اور سال تھا 1993۔ کچھ دیر قبل ہی سپریم کورٹ نے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ صدر غلام اسحاق خان نے اپریل 1993 میں نواز شریف کی حکومت بر طرف کی تھی، لیکن عدالت عظمیٰ نے یہ اقدام کالعدم قرار دیتے ہوئے حکومت بحال کر دی تھی۔
اب نواز شریف اس دفتر کو واپس حاصل کرنے جا رہے تھے، جہاں عدالتی فیصلے سے پہلے نگران وزیر اعظم بلخ شیر مزاری کا حکم چلتا رہا تھا۔ شاہد خاقان عباسی اُس وقت نواز شریف کی جماعت میں تھے اور وزیراعظم کے دفتر جانے والے چار پانچ افراد کے مختصر سے قافلے میں شامل تھے۔
اس روز نماز مغرب کے لیے وضو کرتے ہوئے نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی سے پوچھا تھا، "اب آگے کیا کرنا چاہیے؟"
شاہد خاقان عباسی نے جواب دیا، "نواز شریف صاحب! آپ نے سیاسی جنگ تو جیت لی ہے، اب اخلاقی جنگ بھی جیت لیں"۔ نواز شریف نے پوچھا، "وہ کیسے؟" شاہد خاقان نے مشورہ دیا، "آپ یہاں سے سیدھا ایوان صدر جائیں اور صدر سے کہیں کہ (اب تک) جو کچھ ہوگیا (وہ ہوگیا)، ملک کے لیے ہم اکٹھے ہیں، اب ہم مل کر کام کریں گے"۔
نماز کے بعد نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی کی یہ رائے دیگر پارٹی قائدین کے سامنے بھی رکھی، لیکن وہاں یہ تجویز کثرت رائے سے مسترد کر دی گئی۔
اس روز اگر نواز شریف اور ان کے ساتھی اپنی سیاسی انا ایک طرف رکھ دیتے تو ملک کے حالات کہیں مختلف ہوتے۔ نہ کچھ عرصے بعد نواز شریف کو استعفیٰ دینا پڑتا، نہ بے نظیر بھٹو آنے والے برسوں میں محلاتی سازشوں کا شکار ہوتیں اور نہ ہی جنرل مشرف کی آمریت آتی۔ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا مطالبہ کرتا تو پاکستان کا موقف فرد واحد کے بجائے پارلیمان کی جانب سے پیش کیا جاتا۔ پھر شاید ملک میں دہشت گردی کی لہر بھی نہ آتی، ہزاروں جانیں نہ جاتیں، بے گناہوں کا خون نہ بہتا۔
جب شاہد خاقان عباسی نے یہ مشورہ دیا تھا، اس وقت حکمران اپنی ذات کے بجائے ملک کا سوچ لیتے تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔
خیر، وہ وقت تو گزر گیا، لیکن ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ آج بھی کیا جا سکتا ہے۔ سیاسی مفاہمت کی ضرورت آج بھی ہے، آج کے فریق بھی اپنی سیاسی انا پس پشت ڈال کر ملک کے لیے ایک ہو سکتے ہیں۔
نوٹ: تحریر میں جس گفتگو کا حوالہ دیا گیا وہ شاہد خاقان عباسی نے صحافی کامران خان کو بتائی تھی اور نکتہ کے یو ٹیوب چینل پر دیکھی جا سکتی ہے۔