Ziada Samjhdar Na Baniye
زیادہ سمجھدار نہ بنئے
وقت بدلتا رہے گا۔ کل تک جماعت میں پہلی سیٹ پر بیٹھنا مقصد حیات تھا۔ استاد کے ساتھ کاپیاں اٹھا کر اسٹاف روم تک جانا فخر کی انتہا ہوتا تھا۔ پھر نہ جانے ہم کب اتنے بڑے ہوئے اور ترجیحات بدلتی چلی گئیں۔ ایک کے بعد ایک نیا مقصد، نیا گول سیٹ ہوتا گیا، کاملیت کی کھوج میں سب سے آگےسب سے نمایاں ہونے کی چاہ میں۔ سکون اور خوشی نہ جانے کہاں کھو گئی، جانتے بھی ہو خوشی کیا ہے؟
خوشی محسوس کرنے کے لیے انسان کے اندر ایک بچہ ہونا ضرور ی ہے۔ کیونکہ خوشی کیا ہے یہ صرف بچہ ہی جانتا ہے۔ اسی لئے کہتا ہوں کبھی کبھی بچہ بن جائیے، بھروسہ کرنا سیکھئے۔ ویسے ہی جیسے بچے کو اپنی ماں پر بھروسہ ہوتا ہے۔ وہ کبھی نہیں سوچتا کہ یہ خوراک ختم ہو گئی تو اور کہاں سے آئے گی؟ اسے اپنی ماں پر بھروسہ ہے۔ ہم اپنے اللہ پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے؟ باپ جب اپنے بچے کو ہوا میں اچھالتا ہے تو وہ ڈر کر چیختا نہیں ہے۔ بلکہ کھلکھلا کر ہنس دیتا ہے، اسے اپنے باپ کے بازوں پر بھروسہ ہے۔ جانتا ہے یہ مجھے گرنے نہیں دے گا۔
ہمیں اپنے اپنے اللہ پر کیوں نہیں ہے؟ یقین کیجیئے یہ سب لوگ جو آپ کے خیال میں بہترین اور کامیاب زندگی گزار رہے ہیں، امتحان میں پوزیشن لینے والے، میرٹ لسٹ میں سرفہرست آنے والے، فضاؤں میں اڑان بھرنے والے، سمندروں کی تہہ میں اسکوبہ ڈائیونگ کرنے والے، یہ سب کرنے کے بعد بھی اگر ان کے دل سے مزید کی چاہ نہ نکلی تو یہ سب اکارت ہے۔ وہ کامیاب، مشہور مالدار لوگ جو آپ کا آئیڈیل ہیں ان میں سے اکثر ڈپریشن کے مریض ہیں۔
ہزاروں ایکڑ کا گھر، جدید ترین کار قیمتی ملبوسات سے بھری ہوئی الماریوں کا مالک ہی ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے۔ کیونکہ مال کی ہوس مزید کی چاہت اسے دوڑائے پھرتی ہے، پلاننگ در پلاننگ، منصوبہ در منصوبہ، کامیاب، مشہور، خوبصورت، دولت مند اور ایک دن نیوز بریک ہوتی ہے کہ انھوں نے خود کشی کر لی۔ کیونکہ سب کچھ پا کر بھی مزید کی چاہ ختم نہیں ہوتی، دل خوش نہیں ہوتا، پرانی باتیں بھولتا نہیں ہے۔
بہت سمجھدار نہ بنیئے بھول جایئے جیسے بچہ بھول جاتا ہے۔ جس ماں سے مار کھا کے بیٹھا تھا، اسی سے لپٹ جاتا ہے۔ اپنے اندر کے بچے کو زندہ رہنے دیں۔ دس سال بعد کی فکر میں اپنا آج مت گنوائیے۔ بلاآخر سب ختم ہو جائے گا۔ اتنے اونچے گولز سیٹ کر لئے کہ ان کا حاصل کرنے کے چکر میں اپنا آپ روند ڈالا۔ حاصل کیا ہوا؟ کچھ نئے منصوبے!بڑے ہو کر ہم زندگی ایسے گزارنے لگتے ہیں جیسے بھگتا رہے ہیں۔
ہر بات میں جلدی ہر کام میں کیلکیولیشنز، اپنی ہر چیز میں انفرادیت، کیا ہے یہ انفرادیت؟ منفرد نظر آنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ کہیں کوئی اچانک سامنے آئے گا جو آپ سے زیادہ اچھا اور مکمل ہوگاجو ہیں وہ ہی رہیں۔ کیونکہ بس آپ ہی منفرد ہیں۔ کبھی محسوس کیا؟ کہ زندگی میں مطمئن رہنے کا واحد طریقہ اپنی جڑوں سے جڑے رہنے میں ہے۔ پرانے دوست اپنا اسکول کالج بس وہی کیوں یاد رہ جاتے ہیں؟
اپنی الماری کی تلاشی لیجیے، کہیں نا کہیں کسی نہ کسی کونے میں کوئی نہ کوئی ایسی چیز ضرور ہو گی جو بڑی پرانی ہوگی۔ کوئی کاغذ کا پرزہ ہوگا جو کئی بار ہاتھ آیا ہوگا مگر آپ اسے پھینک نہ پائے ہوں گے۔ آپ کی ساری سمجھداری ساری نفاست پسندی کے باوجود آپ نے ایسی کئی پرانی چیزیں رکھ چھوڑی ہوں گی۔ کیوں؟ بچپن کے سنےہوئے گیت اب تک یاد ہیں نا۔ کہیں اچانک ان کی دھن کان میں پڑ جائے تو ہم مڑ کر ضرور دیکھتے ہیں۔
لب ضرور مسکرا اٹھتے ہیں۔ ہر بار ایک عجیب سا فرحت و انبساط محسوس ہوتا ہے۔ اسی لئے تو کہتی ہوں، زندگی میں خوشی چاہیے، تواپنے اندر کے بچے کو زندہ رہنے دیجیئے، زیادہ سمجھدار نہ بنیئے۔