Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Zarooriat Ya Aasayeshat

Zarooriat Ya Aasayeshat

ضروریات یا آسائشات

"نور آ رہی ہے"صبا نے حرا کو کہنی ماری۔ حرا نے نظر اٹھا کر سامنے سے آتی نور کو دیکھا۔یار اپنے نام کے جیسی ہی ہے نور جیسی صبا نے حسرت سے نور کو دیکھا۔کالج کے سفید لباس میں بھی کس قدر خوبصورت لگتی ہے اور ایک ہم ہیں۔کیوں کہ وہ برانڈڈ کپڑے کا یونیفارم پہنتی ہے اور ہم اتوار بازار کا وہ برانڈڈ فیس واش سے منہ دھوتی ہے اور ہم چائنہ کے نقلی صابن سےوہ برانڈڈ ہیر پراڈکٹس استعمال کرتی ہے اور ہم لوکل شیمپو بھی پانی ڈال کر استعمال کرتے ہیں اور کیوں کہ اس کا پاپا کا بہت بڑا بزنس ہےحرا نے تپ کر تقریر ہی کر ڈالی۔

ہاں صحیح کہا صبا جیسے اپنے ہونے پر شرمسار ہو گئی ہمارے ماں باپ کوئی ضرورت پوری ہی نہیں کر پاتے کیا شاندار ریسپشن تھا۔ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹی فرح اپنا میک اپ صاف کر رہی تھی۔شادی ہال کی سجاوٹ دیکھی تھی آپ نے مامااس کی اٹھارہ سالہ بیٹی نازی بولی کیسا جگمگ کر رہا تھااور دلہن کا ڈریس، جیولری اور میک اپ اف اتنا حسین اب اتنا تو کرنا ہی پڑتا ہے نا بھئی عزت کا معاملہ ہے اب بچوں کی شادیاں روز روز تو نہیں ہوتی نا۔

فرح شیشے میں اپنے شوہر کی طرف دیکھ رہی تھی اور نازی کا چشم تصور اسے دلہن کی جگہ بیٹھا دکھا رہا تھا۔اوئے حمزہ ،علی نے اپنی میز کرسی میں سے تھوڑی پیچھے کی اور سر گھما کر اپنے کو لیگ حمزہ کو آواز دی اسد کی گاڑی دیکھی یار کیا گاڑی ہے اس کی زیرو میٹر ہے۔علی کے انداز میں حسرت ہی حسرت تھی ہاں بھائی حمزہ نے بھی آہ بھری،جب سے اس کو ٹرانسفر ہوا ہے تب سے اس کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ سیٹ ہی ایسی ملی ہے اسے چاروں طرف سے پیسہ برستا ہے۔

بس یار کچھ ایسی ہی سیٹنگ بن جائے تو میں بھی گاڑی چینج کرو اب تو بچے بھی اعتراض کرتے ہیں یار واقعی بہت ضرورت ہے ہمیں بڑی گاڑی کی ،علی آج کل اسی فکر میں رہتا تھا۔ہاں میں بھی کافی ٹائم سے سوچ رہا ہوں گاڑی چینج کر لوں چھوٹی گاڑی میں مزہ ہی نہیں آتا بس کوئی پیدا والی سیٹ مل جائےضروریات اور خواہشات آج کا انسان ان دو لفظوں کے درمیان گھن چکر بنا ہوا ہے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کون سی چیز ہماری ضرورت ہے اور کون سی چیز ہماری خواہش۔

معاشیات کی رو سے دیکھا جائے تو ضروریات وہ چیزیں جو ہمیں زندہ رہنے کے لیے ہونی چاہئیں، جیسے غذا، پانی، لبا س رہائش اور بیماری کی صورت میں دوا۔ جبکہ آسائشات وہ اشیا ہیں جو زندہ رہنے کے لئے ضروری نہیں ہیں لیکن انسان محض نفسیاتی اطمینان حاصل کرنے کے لئے انھیں اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے۔ضروریات اور آسائشات کے بیچ مبہم سا فرق ہے اور ہم اس فرق کو فراموش کر کے ضروریات کے محدود دائرے سے نکل گئے ہیں اور آشائشات کے لامحدود پانیوں میں غرق ہو چکے ہیں۔اب چاہے وہ برانڈڈ لباس ہو یا جدید گیجٹ ہم اپنی کسی خواہش پر خود سے یہ سوال نہیں پوچھتے کہ کیا یہ ضروری ہے؟

آج ہم اپنےآبا و اجداد سے کہیں زیادہ سہولیات و آسائشات کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں پھر بھی غیر مطمئن ہیں۔ آج کا ایک اوسط آمدنی رکھنے والے آدمی کو بھی بادشاہوں جیسی آسائشات حاصل ہیں مگر مزید کی حرص اسے چین نہیں لینے دے رہی مہنگا کھانا بڑا گھر بڑی گاڑی بچوں کے لئے بہترین اسکول برانڈڈ ملبوسات امپورٹڈ اشیا یہ سب آشائشات ہی حاصل ِ زندگی لگتا ہے ہمارا ماحول و میڈیا ہمیں خواہشات کے جنگل میں دھکیل رہے ہیں۔ کوئی نہیں بتا رہا کہ ہر خواہش و آرزو کو پورا کرنا ضروری نہیں ہوتا ہر خواہش اگلی خواہش کا ہاتھ تھامے ہو ئے ہوتی ہے جبکہ ضرورت اپنی تکمیل کے بعد شانت ہو جاتی ہے۔

پہلے لوگ کام میں مطمئن ہو جاتے تھے۔ آج جیب میں تیس ہزار کا موبائل، تن پر چار ہزار کا سوٹ اور پیروں میں دو ہزار کا جوتا پہن کر ہم غربت کا رونا روتے ہیں۔ہمارے بزرگ دیئے کی لو میں سارے کام کر لیتے ہیں اور ہم ایسے چکا چوند کے عادی ہو گئے ہیں کہ جب تک کمرے میں چاروں طرف بلب روشن نہ ہو اندھیرا سا ہی لگتا ہے۔نت نئی چیزوں میں خوشی ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں مگر خوشی ملتی ہی نہیں۔خوشی یا سکون کا تعلق مادی آسائشات سے ہوتا تو آج کا امیر لوگوں کے بچے ڈپریشن کا شکار ہو کر خودکشی نہ کرتے۔ سکون و اطمینان تو ایک کیفیت ہے جو مادی چیزوں سے بالا تر ہے۔ یہ کسی فرش نشین مزدور کو حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہو تو بڑے بڑے بزنس ٹائیکون بھی ذہنی سکون کی ادویات لیتے نظر آتے ہیں۔

اے کاش کوئی ہمیں یہ احساس دلائے کہ ضروریات کا پورا ہوجانا ہی اصل نعمت ہے اور آسائشات کی کوئی حد نہیں ہے۔

Check Also

Ham Yousuf e Zaman Thay Abhi Kal Ki Baat Hai

By Syed Tanzeel Ashfaq