Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Selab Kahani, Nizam

Selab Kahani, Nizam

سیلاب کہانی: نظام

"اے۔۔ اٹھ جا۔۔ " کسی نے زبیر کا پیر پکڑ کر ہلا دیا۔ زبیر آنکھیں ملتا اٹھا۔ اور اپنے پیروں کے پاس کھڑی شخص کو دیکھ کر خوف سے اس کی گھگھی بندھ گئی۔

وہ شخص پوری طرح سے ایک سفید چادر میں ملفوف تھا۔ یہ سفید چادر اس کے چہرے پر نیچے تک لٹکی ہوئی تھی۔ ایک ہاتھ میں روشنی کے لئے قندیل تھی اور دوسرے ہاتھ میں لمبا سا لٹھ تھا۔

"کک۔۔ کون۔۔ کون ہو تم؟"زبیر نے ہکلا کر پوچھا

پیروں کے پاس کھڑے شخص نے قندیل تھوڑی اوپر کی اور سرسراتی آواز میں کہا "موت کا فرشتہ۔۔ "خوف سے زبیر کو رواں رواں لرزنے لگا۔

اس نے مدد کے لئے چاروں طرف دیکھا۔ موت کے فرشتے کی قندیل کی روشنی میں آس پاس کا منظر واضح ہونے لگا۔

زبیر ایک تختے پر بیٹھا تھا اور اس کے چاروں طرف کفن پوش لاشیں پانی میں تیررہی تھیں۔ موت کا فرشتہ اس کے تختے پر چڑھ آیا۔

زبیر نے چیخ کر اپنی ماں کو آواز دینی چاہی مگر فرشتے کا لٹھ اس کے حلقوم پر گڑا ہوا تھا۔ فرشتے نے اپنے لٹھ کو حرکت دی اور زبیر پانی میں جا گرا۔ ایک شدید جھٹکا لگا اور زبیر کی آنکھ کھل گئی۔

اس نے خود کواپنے گھر میں بستر پر لیٹا پایا۔ وہ پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ کافی دیر وہ دم سادھے لیٹا رہا۔ پھر ہمت کر کے اٹھا وضو بنایا اور اپنے رب کے آگے کھڑا ہو کر مدد مانگنے لگا۔

"الٰہی۔۔ کئی سال گزر گئے اس سیلاب کو۔۔ وہ میرا سب کچھ لے گیا۔۔ مگر میرے لاشعور میں اپنا خوف چھوڑ گیا۔۔ اب مجھے نجات دے۔۔ "

٭٭٭

2010 میں زبیر 15 سال کا تھا۔ ایک کھلنڈرا مگر ذہین لڑکا۔۔ پڑھائی سے زیادہ کھیل کود کا شوقین۔۔ چھوٹا سا گاؤں تھا۔۔ سرسبز و شاداب۔۔ دور دور بنے گھر اور بہت دور بنا ایک اسکول۔۔ اس کے باپ چوہدری اسلم کا شمار گاؤں کے کھاتے پیتے لوگوں میں ہوتا تھا۔

زرخیز زمین اور مال مویشی نے بڑی آسودگی فراہم کی ہوئی تھی۔ بڑا سا پکا گھر تھا جس کا صحن ہر وقت گائے بھینسوں، مرغی بکریوں کی آوازوں سے بھرا رہتا تھا۔ بچپن کا بے فکر دور تھا۔۔ زندگی بڑی دلچسپ تھی۔۔ سب روٹین کے مطابق تھا۔

مگر ایک دن ایساسیلاب آیا کہ جس میں زبیر کی ساری بے فکری بہہ گئی۔ اس کا چھوٹا سا گاؤں باقی دنیا سے بہت کنیکٹڈ نہیں تھا۔ کم ہی لوگوں کے پاس موبائل تھے اور جن کے پاس تھے انھیں استعمال کرنا نہیں آتے تھے۔ نہ ہی ان کے علاقے میں سگنل ٹاور تھے۔

دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔۔ یہ اطلاع انھیں بہت بعد میں ملتی تھی۔ سیلاب کی اطلاع بھی خود سیلاب نے آ کر ہی دی تھی۔ تباہی کا وہ منظر اب تک زبیر کی آنکھوں میں موجود تھا۔ کچے گھر تو ریت کے گھروندوں کی مانند بہہ گئے۔

کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ پانی صحت مند گائے بھینسوں کو کھلونوں کی طرح بہا لے گیا۔۔ انسان کی کیا بساط۔۔ پانی اس کے گھر میں بھی تیزی سے بھر رہا تھا۔

زبیر کا گھر کافی بڑا تھا مگر سنگل اسٹوری ہی تھا کیوں کہ گاؤں میں اب بھی لوگ اونچائی سے زیادہ وسعت کو اہمیت دیتے ہیں۔

سب لوگ چھت کی طرف بھاگے۔ بابا نے دادی اور بچوں کو گود میں لے کر اوپر چڑھانا شروع کیا۔ ماں کی وحشت اپنے ہر بچے کو پکار رہی تھی۔

کل نو افراد تھے۔ ضعیف دادی۔۔ زبیر سے چھوٹے پانچ بہن بھائی، ماں باپ اور خود زبیر۔

سب کے سب چھت پر موجود تھے۔ اچانک دس سالہ زرینہ چلائی "ماں۔۔ میری گوری۔۔ وہ پانی میں بہہ رہی ہے۔۔ " گوری اس کی بکری تھی جواسے بہت عزیز تھی۔

عزیز تو سبھی کچھ تھا مگر اب تو سب بہہ رہا تھا۔

ہر طرف پانی ہی پانی نظر آ رہا تھا۔ بابا کمر پر ہاتھ رکھے دور دور تک دیکھ رہے تھے، چاروں طرف مٹیلا پانی بہہ رہا تھا۔ سر پر سورج کی چمک اور گرمی نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا۔

"امی گمی اے۔۔ " تین سالہ خضر نے توتلی زبان میں شکوہ کیا۔

باقی بچے بھی گرمی سے پریشان ہو رہے تھے۔ امی نے سب بچوں کو اپنے آگے بٹھا لیا اور خود دھوپ کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گئی۔ زبیر کا دل بھر آیا۔۔

"ماں کو اسی لئے ماں کہا گیا ہے۔۔ "

دن چڑھتے چڑھتے سر پر آ گیا۔۔ بھوک پیاس اور گرمی نے وار کرنے شروع کر دئیے۔ چاروں طرف پانی تھا اور ان کے لبوں پر پیاس کی پپڑی جم چکی تھی۔ روتے بچے اب کسی بات سے نہیں بہل رہے تھے۔ انھیں کھانا اور پانی چاہئے تھا۔۔ انھیں سایہ چاہئے تھا۔

کھانا اور پانی تو دادی کا بوڑھا وجود بھی مانگ رہا تھا۔ دھوپ سے جلتے ہوئے لب ہولے ہولے اپنے رب کو پکار رہے تھے۔ زبیر نے چھت کے کناروں پر سے گدلا پانی اوکھ میں لیا اور بچوں کے منہ میں ڈالا۔

گندا پانی انھیں نعمت لگا۔ بڑوں نے بھی اسی پانی سے اپنی پیاس بجھائی۔ بابا چھت پر کبھی ایک طرف جاتے تو کبھی دوسری طرف۔۔ مگر کہیں جائے فرار نہ تھی۔ پانی چاروں طرف سے گھیر ے کھڑا تھا۔

اپنی اولاد کی بھوک پیاس اور تکلیف، بوڑھی ماں کی خاموش فریاد، جی چاہتا تھا اسی پانی میں کود جائیں۔ دن ڈھل گیا، مگر پانی نہیں ڈھلا۔

بہاؤ ختم ہو چکا تھا مگر ٹہراؤ اتنا ہی تھا۔ رات میں پانی اور ہیبت ناک ہو گیا۔۔ مچھروں اور دیگر اڑنے والی مخلوق نے چاروں طرف سے حملہ کر دیا۔۔ بھوک سے نڈھال بچے رو رو کر مزید بے حال ہو گئے۔ ماں دوپٹے میں منہ چھپائے روتی رہی۔

رات نجانے کتنی صدیوں پر محیط تھی۔ مگر جب سورج نے پہلی کرن دکھائی تو پچھلے دن کی ہولناک گرمی کا خیال روح کو لرزا گیا۔ "یا اللہ۔۔ "ماں نے آسمان کی طرف دیکھا۔

بچے پھر بھوک پیاس سے رونے لگے گو کہ اب ان کا رونا بے آواز تھا۔ رونے کے لئے بھی جسم میں جان چاہئے، جان۔۔ جو جسموں سے رفتہ رفتہ نکل رہی تھی، جان۔۔ جو دادی کے بوڑھے جسم سے رات کے نجانے کون سے پہر نکل چکی تھی۔

سب سے پہلے زبیر نے اس بات کا نوٹس لیا کہ دادی مسلسل ایک ہی انداز سے لیٹی ہیں۔ وہ بنا کچھ کہے ان کے قریب کھسک آیا۔ زبیر نے سانس کی جنبش محسوس کرنے کی کوشش کی مگر دادی کا وجود بالکل ساکت تھا۔

انجانا سا احساس تھا جس نے زبیر کو چیخنے پر مجبور کردیا "دادی۔۔ بابا۔۔ دادی۔۔ " چوہدری اسلم تیزی سے ماں کی طرف لپکا۔

نبض۔۔ سانس۔۔ دھڑکن۔۔ سب چپ تھیں۔

سب دادی کے چاروں طرف جمع ہو کر رونے لگے۔ چھوٹے بچے اپنا رونا بھول کر بڑوں کو حیرت سے تکنے لگے۔ بابا وحشت کے عالم میں چھت کے ایک سرے سے دوسرے سر ےتک بھاگے۔

زبیر یک دم خود کو بہت بڑا اور ذمہ دار محسوس کرنے لگا اس نے آگے بڑھ کر باپ کو تھام لیا۔ گلے لگا کر خود بھی رویا اور ان کو بھی رلایا۔ دن گرم ہونے لگا۔ بچے بے حال ہونے لگے۔

دادی کے جسد خاکی کی رنگت بدلنے لگی۔ چھت کے کناروں تک پانی ہی پانی تھا۔۔ "کوئی ہے۔۔ مدد کرو۔۔ کوئی ہے۔۔ "

چوہدری اسلم نے ہاتھوں کو منہ کے آگے رکھ کر پوری جان سے صدا لگائی۔ مگر لگتا تھا ساری کائنات بہہ چکی ہے۔ شدید دھوپ نے دادی کے جسم کو خراب کرنا شروع کر دیا۔۔

رات تک جسد خاکی سے تعفن آنے لگا۔۔ ماں بچوں کو لے کر کچھ فاصلے پر جا بیٹھی۔

خضر اور شازیہ نیم بے ہوش ہو چکے تھے۔ گندا پانی بھی اب ان کی بھوک نہیں مٹا پا رہا تھا۔ اسی گندے پانی کے سبب زرینہ کو الٹیاں ہونے لگیں۔ ماں کی بے قرار ممتا چیخنے لگی۔

وہ کبھی ایک کو اٹھاتی تو کبھی دوسرے کی طرف دوڑتی۔ مگر اس کی یہ سعی لا حاصل رہی۔۔ کہیں سے کوئی چشمہ نہ پھوٹا۔

چوہدری اسلم بڑی دیر سر نہواڑے بیٹھا رہا۔۔ بلاآخر اٹھا چھت کے کنارے پر جا کر گدلے پانی سے وضو کیا۔ زبیر نے بھی اس کی تقلید کی۔ چوہدری اسلم نے ماں کو اس ہی کے دوپٹے کا کفن دیا۔۔ احساس کم مائیگی اس کی روح کو زخمی کر رہی تھی۔۔ کیسا بیٹا ہوں میں ماں کو سفید کورا کفن بھی نہ دے پایا۔۔

باپ بیٹے نے نماز جنازہ پڑھی اور میت کو چھت کے کنارےسے پانیوں کے حوالے کر دیا۔ بے بسی کی آخری انتہا پر کھڑے چوہدری اسلم کو آنے والے وقت کا کوئی اندازہ نہ تھا۔ اگلے دن سب سے پہلے زرینہ کی حالت بگڑنا شروع ہوئی۔ الٹیاں کر کر کے اس حالت ناگفتہ بہ ہو چکی تھی۔

زرد پڑتی رنگت کے ساتھ وہ ماں کی طرف دیکھتی رہی۔۔ زبیر کبھی ماں سے لپٹتا کبھی زرینہ کو اپنی دامن سے ہوا کرتا۔ مگر اس کی آنکھیں بند ہوتی گئیں۔ ماں کا کلیجہ کٹنے لگا۔۔ باپ سر پیٹنے لگا۔۔ مگر زرینہ کو اب کسی سی کوئی غرض نہ تھی۔۔ وہ اس پانیوں سے بھری زمین سے پیاسی ہی چلی گئی۔

ایک بار پھر گدلے پانی سے وضو کیا گیا۔۔ دو فردی نمازجنازہ ادا کی گئی اور میت پانی میں اتار دی گئی۔۔ اور ایسا آخری بار نہیں ہو۔۔ زرینہ کے بعد خضر۔۔ پھر شازیہ۔۔ پھر نوید چھ دن میں ایک ایک کرکے وہ سب بھی بھی اپنی اپنی پیاس لئے مٹیالے پانیوں میں سماگئے۔

سر پر سورج چمک رہا تھا۔۔ چھت پر چار وجود بے سدھ پڑے تھے۔۔ چوہدری اسلم سے گردن موڑ کر زبیر کو دیکھا۔۔ "اگر میں پہلے مرا تو یہ میرا جنازہ پڑھ دے گا۔۔ "

تبھی آسمان پر کوئی حرکت نظر آئی۔۔ دھندلائی ہوئی آنکھوں نے ایک ہیلی کاپٹر دیکھا۔

چوہدری اسلم کے بے جان وجود میں نجانے کہاں سے جان آ گئی وہ اٹھا اور اپنی بے ہوش پڑی بیوی کا دوپٹہ ہوا میں لہرا لہرا کے چیخنے لگا۔۔ "مدد کرو۔۔ یہاں دیکھو۔۔ مدد کرو۔۔ "

جلد ہی ہیلی کاپٹر سے انھیں دیکھ لیا گیا۔ نیم مردہ وجود فضا میں اٹھائے گئے۔ جب کئی دن بعد انھیں اسپتال میں ہوش آیا تو ان کے دماغ سن ہوچکے تھے۔۔ گزرے واقعات کسی دھندلی فلم کی طرح ہر وقت آنکھوں کے آگے چلتے تھے۔

باقی ماندہ خاندان نے شہر میں ہی سکونت اختیار کر لی۔۔ پھر کبھی ان زمینوں کو رخ نہ کیا جنہوں نے ان کے پیاروں کو اپنی مٹی نہیں دی تھی۔۔ زبیر نے آگے بڑھ کر خاندان کو سنبھال لیا۔۔ محنت مزدوری کی۔۔ جتنا کر سکتا تھا اس سے بڑھ کر کیا۔۔ گاؤں کا پندرہ سالہ زبیر اب ایک ذمہ دار بیٹا اور بھائی تھا۔۔ زندگی چلتی رہی۔۔ سانس آتی جاتی رہی۔۔ ماں اتنا غم لے کر زیادہ دن نہ جی پائی۔۔ چوہدری اسلم بھی دکھوں سے مسلے ہوئے وجود کے ساتھ کچھ ہی دن جیا۔

سالوں گزر گئے۔ زبیر اور راشد دونوں بھائی ہی ایک دوسرے کی کل کائنات بن چکے تھے۔ تکلیف دہ یادیں ساری رات انھیں بے چین رکھتیں۔۔ زبیر کو روز رات ڈراونے خواب آتے۔۔ سیاہ پانیوں کی پکار اس کا دل دہلا دیتی۔۔ راشد کہیں بھی پانی جمع دیکھتا تو خوف سے لرزنے لگتا۔

2022 میں پھر سیلاب اپنی تباہ کاریوں کے ساتھ موجود تھا۔ زبیر اور راشد اب شہر میں تھے۔ یہاں سیلاب کا خطرہ نہیں تھا۔ مگرسیلاب کی خبروں سے ان کا رواں رواں کانپتا تھا۔

"بھائی جان! اس ملک میں دس سال بعد بھی کوئی تبدیلی نہ آئی۔۔ وہ ہی سیلاب ہے اور وہی آفت زدہ سیلاب زدگان ہیں۔۔ لاشوں کے انبار ہیں۔۔ کیا اس ملک میں ایسے ہی سیلاب آتے رہیں گے؟ کیا کبھی ایسا کوئی نظام آئے گا جس میں سیلاب کا پانی تباہی پھیلائے بغیر گزر سکے گا؟

راشد کے سوالوں کا زبیر کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

٭٭٭

Check Also

Platon Ki Siasat Mein Ghira Press Club

By Syed Badar Saeed