Selab Kahani, Meri Bhi Madad Karo
سیلاب کہانی: میری بھی مدد کرو
"کاش کچھ کھانے کو مل جائے۔۔ ایک چھوٹی سی ہڈی ہی سہی" وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سوچنے لگا۔ مگر وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔۔ بس پانی ہی پانی تھا۔
یہ کیچڑ والا پانی پی پی کر اب اس کا حال برا ہو چکا تھا "نا جانے میرے دوست کس حال میں ہوں گے؟"
وہ پانی سے بچنے کے لئے اونچی جگہ پر کھڑا تھا۔ چلنے پھرنے کی جگہ کم تھی مگر اپنی جبلت سے مجبور ہوکر وہ اس کم جگہ میں بھی مسلسل چکر کاٹ رہاتھا۔
دور سے ایک عجیب سی آ واز آ رہی تھی۔ "پتہ نہیں یہ کس چیز کی آواز ہے؟" وہ سوچنے لگا
آواز رفتہ رفتہ قریب آنے لگی۔ وہ گردن اٹھا اٹھا کر دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ "انسان۔۔ انسان آ رہے ہیں۔۔ یہ میری مدد کریں گے۔۔ "وہ تیزی سے چکر کاٹنے لگا۔
خوشی سے اس کا رواں رواں جھوم اٹھاتھا۔
٭٭٭
کشتی تیزی سے آگےبڑھ رہی تھی۔ امداد کارکن خوش تھے۔ آج انھوں نے ایک دورا وفتادہ جگہ پر پھنسے چند لوگوں کو بچالیا تھااور اب وہ انھیں کیمپ تک لے جا رہے تھے۔
"وہ۔۔ وہ کیا ہے؟" اچانک ایک کارکن کو دور ٹیلے پر کچھ حرکت نظر آئی۔ ملاح نے کشتی کی رفتار کم کی اور کارکن اپنی دور بین سے دیکھنے لگے۔
"ارے وہ تو کوئی کتا ہے۔۔ " کارکن نے دور بین واپس گلے میں ڈال لی اوربیٹھ کر موبائل دیکھنے لگا۔ ڈرائیور نے کشتی کو پھر سے رفتار دے دی اورتیزی سے منزل کی طرف رواں ہو گیا۔
٭٭٭
وہ اپنی بچی کھچی پوری طاقت لگا کر بھونک رہا تھا۔ شدید بےچینی کے عالم میں ادھر ادھر حرکت کر رہا تھا، اس کی دم ُپورے زور و شور سے ہل رہی تھی۔
"رکو۔۔ رکو۔۔ میں بھوکا ہوں۔۔ میں بھی یہاں پانی میں پھنس گیا ہوں۔۔ میری بھی مدد کرو۔۔ مجھے بھی کشتی میں بٹھا لو۔۔ "مگر انسان اس کے قریب آنے کے بجائے اس سے دور ہوتے جا رہے تھے۔
"رکو۔۔ کہاں جا رہے ہو؟ میں وہ ہی ہوں جو تمہارے ساتھ تمہارے گھر محلے میں رہتا ہوں۔۔ میں راتوں کو جاگ کر تمہارے گھروں کی حفاظت کرتا ہوں۔۔ میں تمہارے لئے جان تک دے دیتا ہوں۔۔ بات تو سنو۔۔ "
مگر کشتی دور سے دور ہوتی چلی گئی۔ بھونک بھونک کر اس کا گلا بیٹھ گیا۔
باقی ماندہ توانائی بھی ختم ہو گئی، وہ تھک ہار کر وہیں کیچڑ میں بیٹھ گیا اور دھندلائی ہوئی آنکھوں سے بہتے پانی کو دیکھنے لگا۔
٭٭٭
" کوئی ہے؟ ارے کوئی ہے؟ میری مدد کرو۔۔ میرے ٹانگیں کیچڑ میں دھنس گئی ہیں۔۔ میں بھوکی ہوں۔۔ کوئی مدد کرو۔۔ "وہ بار بار آواز لگا رہی تھی۔
اس کی ٹانگیں کیچڑ میں پوری دھنس گئی تھیں۔ وہ جتنا زور لگاتی کیچڑ اس کو اتنا ہی جکڑتی چلی جا رہی تھی۔
کئی دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اب تو جسم میں زور لگانے طاقت بھی نہیں بچی تھی۔۔ جو بھی جمع شدہ خوراک تھی سب استعمال ہو چکی تھی۔
اچانک اسے آسمان سے کچھ آواز آتی سنائی دی۔ اس نے اوپر دیکھا کوئی گاڑی تھی جو آسمان میں اڑ رہی تھی۔۔ اس انسان بیٹھے نیچے پانی کو دیکھ رہے تھے۔۔ وہ انسانوں کو دیکھ کر خوش ہوگئی۔
"یہ تو میرے دوست ہیں۔۔ "
اس نے سوچا "ہم صدیوں سے ساتھ ساتھ ہیں۔۔ یہ میری مدد کریں گے۔ "
کچھ افسران ہیلی کاپٹر سیلاب زدہ علاقے کا فضائی جائزہ لے رہے تھے۔ تباہی کے مناظر انھیں پریشان کر رہے تھے۔
"نیچے کچھ ہے۔۔ کچھ ہل رہا ہے۔۔ " ایک افسر نے دور بین لگا کر دیکھا۔
"ایک اونٹ ہے۔۔ لگتا ہے پھنس گیا ہے۔۔ "
ہیلی کاپٹر اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا، وہ اپنی پوری طاقت لگا کر انسانوں کو آواز لگا نے لگی۔
" میں یہاں ہوں۔۔ کیچڑ میں پھنس گئی ہوں۔۔ میری مدد کرو۔۔ مجھے یہاں سے نکالو"
" میں تمہارا بھاری سامان اٹھا لوں گی۔۔ میں ریت میں بھی بہت تیز بھاگ سکتی ہوں۔۔ میرا دودھ تمہاری بھوک مٹا دے گا۔۔ بس ایک بار مجھے یہاں سے نکال دو۔۔ میں تمہارے بہت کام آ ؤں گی۔۔ "
مگر وہاں کوئی اس کی پکار نہیں سن رہا تھا۔ ہیلی کاپٹر کے شور میں اس کی آواز دب گئی تھی۔
وہ ما یوس ہوگئی۔ اپنا سر اپنی پشت پر رکھ کر آنسو بہانے لگی۔
٭٭٭
"منی۔۔ تم مجھے کیسے بھول گئیں؟ تم تو مجھ سے اتنا پیار کرتی تھیں۔۔ سارا دن میرے ساتھ کھیلتی تھیں۔۔ یاد ہے ایک دن میں کہیں چلی گئی تھی تو تم نے رو رو کر برا حال کر لیا تھا۔۔ اور اب تم مجھے یہاں مرنے کے لئے چھوڑ گئیں۔۔ "
وہ روئی کا گولہ سا بنی ہوئی ڈبے میں لیٹی ہوئی سوچ رہی تھی۔
کئی دن ہو گئے تھے۔
منی کی شکل تک نہ دیکھی۔۔ کچھ کھایا۔۔ نہ پیا، وہ باربار اونچی جگہ پر جاکر دیکھتی تھی۔
مگر کہیں سے نکلنے کا راستہ نہ تھا۔۔
بس پانی ہی پانی
ہر طرف۔۔
اس وقت بھی وہ ایک دیوار پر کھڑی تھیں جب اسے کچھ آوازیں سنائی دیں۔
" یہ۔۔ یہ تومنی کی دوست رانی کی آواز ہے۔۔ "
"رانی۔۔ رانی۔۔ میری مدد کرو۔۔ میں یہاں ہوں۔۔ "
وہ اونچی اونچی آواز نکالنے لگی۔ رانی نے اسے دیکھ لیا۔
"امی۔۔ امی منی کی مانو پانی میں پھنسی ہے۔۔ " رانی نے امی کو دیکھا "ارے یہاں اپنا بوجھ اٹھانا مشکل پڑ رہا ہے۔۔ اس بلی کو اٹھائے گا۔۔ چل جلدی۔۔ "رانی کی امی نے اس کو کھینچا۔
مانو مایوس نظروں سے انھیں جاتا دیکھتی رہی۔
٭٭٭
"اوئے۔۔ اسےکہاں سے اٹھا لایا؟"امدادی کارکن نے دوسرے سے پوچھا۔
"سر یہ وہاں پڑا تھا بے چارہ۔۔ بھوکا پیاسا۔۔ سخت دھوپ میں۔ مجھ سے اس کی حالت نہیں دیکھی گئی۔۔ اسی لئے اٹھا لایا۔۔ یہ بھی تو اللہ کی مخلوق ہیں۔۔ بھوک پیاس تو انھیں بھی لگتی ہے۔۔ تکلیف تو یہ بھی محسوس کرتے ہیں۔۔ "
وہ اس کتے کو زمین پر لٹا کر اس کے منہ میں صاف پانی ڈالنے لگا۔
"اوئے۔۔ " دوسرے کارکن نے کھانا بانٹنے والوں کو تیز آواز لگائی۔
"تھوڑے چاول کسی تھیلی میں ڈال کر بھیجو۔۔ "
کتے نے مشکور نظروں سے اپنے محسن کو دیکھا اور جلدی جلدی چاول کھانے لگا۔
٭٭٭
"سر وہاں مدد کی ضرورت ہے۔۔ "
وہ اپنے افسر کو بتا رہا تھا۔
"کتنے لوگ ہیں؟"افسر نے سوال کیا۔
"نہیں سر لوگ نہیں ہیں۔۔ کچھ جانور ہیں جو کیچڑ میں پھنس گئے ہیں۔۔ ان کی مدد کرنی ہے۔۔ "افسر نے فائل سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"پاگل ہوگیا ہے؟ یہاں انسانوں کو مدد نہیں مل رہی۔۔ یہ جانوروں کے لئے مدد مانگ رہا ہے۔۔ بادشاہ لوگ ہو تم سب بھی۔ "افسر نے طنز سے سر جھٹکا اور اپنی فائل میں مصروف ہو گیا۔
وہ گاؤں کا رہنے والا تھا۔ اس شہری افسر کو کیسے سمجھاتا کہ یہ صرف جانور نہیں ہیں۔ یہ زندگی کا حصہ ہیں۔ گھر کا جز ہیں۔ ان کی تکلیف بھی اتنا ہی دل دکھاتی ہے جتنا گھر کے کسی اورفرد کی۔
وہ بھی ہار ماننے والا نہیں تھا۔ جانتا تھا جہاں افسری کام نہ آئے وہاں بچپن کے دوست کام آتے ہیں۔ اور ایسا ہی ہوا۔۔
جلد ہی وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسے جانوروں کی مدد کے لئے نکل کھڑا ہوا۔
٭٭٭
منی نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ سب سمجھاتے رہے۔ امی تو غصہ میں تھپڑ بھی جڑ دیا۔
"یہاں اپنی جان مشکل سے بچی ہے۔۔ اب اس کی بلی لینے کون جائے گا؟
تھپٹر کھا کر منی اور زور و شور سے رونے لگی امی نے پھر مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا۔ مگر ابو بیچ میں آگئے۔
"کیوں مار رہی ہے اس کو؟ جانتی تو ہے کہ کتنا پیار کرتی ہے یہ اپنی مانو سے۔۔ "
ابو اس کو سہلانے لگے۔ امی کا غصہ کم نہ ہوا۔
"سارا گھر ڈوب گیا۔۔ سب سامان برباد ہو گیا۔۔ اور اسے بلی کی پڑی ہے۔۔ "
"ابو۔۔ میری مانو بھی پانی میں ڈوب گئی ہو گی؟" منی روتے ہوئے بولی
"نہیں بیٹا۔۔ وہ تو اوپر کہیں بیٹھ گئی ہوگی۔۔ دیکھ میں شام میں جا کر دیکھوں گا۔۔ اگر پانی کم ہو گیا ہوگا تو تیری مانو کو لے آ ؤں گا۔۔ اب تو اپنی امی کو تنگ مت کر۔۔ ورنہ اور مارے گی وہ۔۔ "
منی ابو کی تسلی سے خوش ہوگئی۔
٭٭٭
"مانو۔۔ "، مانو۔۔ " کوئی اسے آواز دے رہا تھا۔
مانو کو لگا اس کا وہم ہےمگر وہ اس آواز کو خوب پہچانتی تھی۔ یہ ابو کی آواز تھی۔ وہ جلدی سے اٹھی اور دیوار پر چڑھی۔ "ابو۔۔ میں یہاں ہوں۔۔ "
وہ دیوار پر چلتی ہوئی آگے بڑھی۔ "آجا آجا شاباش۔۔ "ابو اس کو بلا رہے تھے۔ وہ لپک کر ان کی گود میں کود گئی۔
"ابو۔۔ میرے پیارے ابو۔۔ " مانو محبت سے ان کے بازو پر اپنا چہرہ رگڑنے لگی۔
ابو نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔
شام تک مانو اور منی پھر سے ساتھ کھیل رہی تھیں۔
٭٭٭