Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Selab Kahani, Khushi

Selab Kahani, Khushi

سیلاب کہانی: خوشی

صفیہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ عدنان واش روم سے نکلا اور صفیہ دیکھ کرسر ہلا کر رہ گیا۔ "اب کیا دیکھ لیا؟"اس نے صفیہ سے پوچھا۔

صفیہ نے گود میں رکھا موبائل عدنان کی طرف بڑھا دیا۔ مو بائل چلتا ویڈیو کلپ دیکھ کر عدنان کا دل بھی دکھی ہو گیا۔ ویڈیو کسی سیلاب زدہ علاقے میں بہتے پانی کے ریلے کی تھی۔ اس بہتے پانی میں ایک تقریباً سال بھر کے بچے کی ننھی سی لاش بہتی جا رہی تھی۔

موت کی سختی بھی اس کی معصومیت کی نہ چھین سکی۔ یوں لگتا تھا کہ ابھی وہ قلقاری مار کر اٹھ بیٹھے گا اور پانی کی چھینٹں اڑانے لگے گا۔

عدنان مو بائل سائیڈ میں رکھ کر صفیہ کے پاس بیٹھ گیا اور شانے پر ہاتھ رکھ کر بولا "یہ سیلاب واقعی بہت بڑا سانحہ ہے۔۔ "

صفیہ کو کسی طور سکون نہیں آ رہا تھا وہ بولی "مگر یہ سیلاب ایسے اچانک کیسے آ گیا۔۔ اب تو سائنس نے اتنی ترقی کیسے کر لی۔۔ پہلے سے اتنا بھی نہیں پتہ چل سکا کہ لوگ محفوظ مقام پر پہنچ سکیں۔۔ "

عدنان آفس جانے کے لئے کھڑا تھا بولا "حکمرانوں کی نا اہلی اور سرکاری اداروں کی بد انتظامی ہے۔۔ ہر کام کے لئے ادارے موجود ہیں مگر کوئی بھی ادارہ کرپشن سے خالی نہیں ہے۔۔ خمیازہ غریب عوام بھگت رہی ہے۔۔ "

صفیہ چہرہ صاف کر تے ہوئے بولی "عدنان۔۔ ہمیں ان کے لئے کچھ کرنا چاہئے۔۔ اللہ نے ہمیں اتنا دیا ہے۔۔ "

عدنان بھی ہمدرد دل کا مالک تھا بولا "میں نے فنڈز میں کافی رقم دی ہے۔۔ باقی تم جس طرح چاہو ویسا کرلیں گے۔۔ "

صفیہ جانتی تھی کہ عدنان اس بہت محبت کرتا ہے اور اس کی خوشی کے لئے وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔

صفیہ اور عدنان کو لوگ چاند سورج کی جوڑی کہتے تھے۔ مگر اس جوڑی میں گہن لگا ہوا تھا، بے اولادی کا گہن۔۔

ساری دنیا کے بہترین ڈاکٹرز بھی ان کو یہ خوشی نہ دے سکے۔ عدنان یوں بھی مرد تھا اور اپنی کاروباری مصروفیات میں مگن رہتا تھا مگر صفیہ کے لئے یہ کمی سوہان روح تھی۔

***

صفیہ سیلاب زدگان کے لئے کچھ کرنا چاہتی تھی۔ مظلوم بچے کی ویڈیو دیکھنے کے بعد تو وہ خود ان کے درمیان جا کر انھیں دیکھنا چاہتی تھی۔ پیسے کی صفیہ کے پاس کمی نہ تھی۔ ارب پتی باپ کی بیٹی تھی۔ جہیز میں ڈھیروں پراپرٹی لائی تھی جس کا کرایہ اس کے بینک بیلنس میں جمع ہوتا رہتا تھا ادھر عدنان بھی کچھ کم نہ تھا۔ اس کا کاروبار کئی ملکوں پر پھیلا تھا۔ فراوانی ہی فراوانی تھی۔

صفیہ نے عدنان کے آفس سے بندے بلائے اور انھیں سامان کی خریداری پر مامور کر دیا۔ اس نے زیادہ تر سامان بچوں کا منگوایا تھا۔ ان کے کپڑے، بستر، پیمپر، دودھ دوائیں، بسکٹ، ٹن فوڈ، پانی غرض یہ کہ ٹرک بھر کر سامان خرید لیا گیاتھا۔

٭٭٭

" لڑکی ہوئی ہے۔۔ "فاطمہ نے پھٹے پرانے کپڑوں میں لپٹی بچی سلمان کے ہاتھ میں تھما دی۔

سلمان نے ایک نظر بھی بچی کو نہ دیکھا۔ بلکہ اپنے پانچوں کے درمیان اس کو بھی رکھ دیا۔ وہ پانچ بچے پہلے ہی بھوک کے ہاتھوں عاجز تھے۔ انھیں اس وقت صرف کھانے سے دلچسپی تھی۔۔ وہ بھی منہ موڑے بیٹھے رہے۔

کھاناسیلاب زدگان کے اس کیمپ میں کبھی پورا نہ آیا۔ کبھی تھوڑے سے چاول، کبھی کچھ بسکٹ اور بس۔۔

سو وہ ننھی پری بھی چپ چاپ ان کے بیچ لیٹی رہی جیسے جانتی ہو کہ کوئی بھی اس کو خوش آمدید نہیں کہے گا۔

"زیبا۔۔ زیبا کیسی ہے؟" اس نے فاطمہ سے پوچھا۔

فاطمہ نے سلمان کی طرف دیکھنے سے گریز کیا اور نیچی نگاہ کر کے بولی "زندہ ہے۔۔ ابھی تو۔۔ خون بہت بہہ رہا ہے۔۔ پہلے ہی کمزور ہے۔۔ اللہ رحم کرے۔۔ دعا کرو۔۔ "

سلمان واپس اپنے بچوں میں جا بیٹھا۔ اب تک اس نے بچی پر ایک نگاہ نہ ڈالی تھی۔ اس کے بڑے بیٹے شاہد نے نفرت سے ننھی بہن کو دیکھا۔

"اس کی وجہ سے امی کا یہ حال ہوا ہے۔۔ "

وہ اٹھ کر خیمے سے باہر آ گیا۔۔ باقی بچے بھی بیٹھے بیٹھے بور ہو چکے تھے اس لئے وہ اس پیچھے پیچھے خیمے سے باہر نکل گئے۔

٭٭٭

"صفیہ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔۔ راستے بہت خراب ہیں تم کیسے ان کیمپوں میں جاؤ گی۔۔ اور وہاں کے حالات دیکھنا تمہارے بس کی بات نہیں۔۔ تم تو رو رو کر پوری ہو جاؤ گی۔۔ "

عدنان صفیہ کی نرم دلی سے واقف تھا۔ وہ ایسی ہی تھی۔ ہر کسی کی تکلیف اسے اپنے دل میں محسوس ہوتی تھی۔ بچپن میں بھی وہ اپنی چیزیں نوکروں کے بچوں کو دے دیتی تھی اور اب بھی اس کا یہ ہی حال تھا کہ جہاں کسی کو پریشان دیکھا فوراً اس کی مدد کے لئے کمر بستہ ہو جاتی تھی۔ مگر عدنان کو اس کی حساسیت سے ڈر لگتا تھا۔ ہر کسی کا دکھ وہ خود پر سوار کر لیتی تھی اس لئے وہ اسے سیلاب زدگان کے کیمپ میں جانے سے روک رہا تھا۔ مگر صفیہ وہاں جانا چاہتی تھی۔ اس نے عدنان سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھے گی اور زیادہ پریشان نہ ہوگی۔ چارو نا چار عدنان نے اسے اجازت دے دی۔

٭٭٭

صفیہ بیک وقت خوش اور اداس تھی۔ خوش اس لئے کہ اس نے ان غریب بچوں کی مدد کی۔ سامان لیتے وقت ان کے چہرے پر خوشی بکھری دیکھی تھی۔ اور اداس اس لئے کہ یہ وقتی مدد تھی۔

جب یہ ختم ہو جائے گی پھر یہ کیا کریں گے؟ یہ سوال اس کو دکھی کر رہا تھا۔

"میڈم سامان تھوڑا ہی بچا ہے۔۔ اس طرف بھی ایک کیمپ ہے۔۔ وہاں یہ سامان دیتے ہوئے ہم مین شاہراہ پر نکل جائیں گے۔ "

عدنان کے سیکریڑی ڈرائیور سے بات چیت کر کے آیا اور جیپ میں بیٹھتے ہوئے اس نے صفیہ کو تفصیلات سے آگاہ کیا۔ یوں یہ قافلہ واپسی کے راستے پر چل پڑا۔

٭٭٭

وہ ایک چھوٹا سا کیمپ تھا چند ہی لوگ وہاں موجود تھے۔ صفیہ کو وہاں آ کر عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔ کیمپ میں شدید سوگواری کا عالم تھا۔ لوگ بجھے ہوئے چہروں کے ساتھ سامان لے رہے تھے۔

صفیہ نے بے ساختہ ایک عورت سے پوچھا "یہاں کیا ہوا ہے؟"

عورت نے پُر نم آنکھوں سے صفیہ کو دیکھا اور کہا "ایک عورت کا انتقال ہو گیا ہے۔۔ ڈیلیوری کے بعد خون نہیں رکا۔۔ بچی زندہ ہے۔۔ ماں اللہ کے پاس چلی گئی"۔

صفیہ کا ضبط کا وعدہ ٹوٹنے لگا وہ بمشکل بول پائی "بچی کہاں ہے؟ مجھے دکھاؤ پلیز۔۔ "

عورت صفیہ کو لے کر ایک خیمے کی طرف بڑھ گئی۔ اندر کا منظر دیکھ کر صفیہ کی روح کانپ گئی۔

معصوم سی بچی خیمے کے بیچوں بیچ پڑی سسک رہی تھی اور اس بچی کا باپ گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا تھا۔

صفیہ نے بے ساختہ بچی کو گود میں اٹھایا اور اس خاموش کرنے کے لئے تھپکنے لگی۔

عورت بولی"بھوکی ہے۔۔ جب سے پیدا ہوئی ہے ایک قطرہ اس کے حلق میں نہیں گیا۔۔ "

آنسو صفیہ کے رخساروں پر بہنے لگے "کیا یہاں کوئی ایسی عورت نہیں تھی جو اس کو فیڈ کروا دیتی؟"

وہ سر جھکا کر بولی "باجی۔۔ فاقے کش عورتیں کہاں سے دودھ پید ا کریں گی؟ یہاں کچھ کھانے کو موجود نہیں۔۔ ان کے اپنے بچے بھوکے ہیں۔۔ اس کو کون دودھ پلاتی"

سلمان بھی اٹھ کھڑا ہوا اور صفیہ سے بولا "باجی اسے لے جاؤ۔۔ اس شہر کے کسی ایدھی سینٹر کے جھولے میں ڈال دینا۔۔ میں اس کو نہیں رکھ سکتا۔۔ "

صفیہ کا دل کٹ کر رہ گیا۔

٭٭٭

قدرت کے ہر کام میں مصلحت پوشیدہ ہے۔ صفیہ کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی یوں اچانک مل جائے گی اس نے سوچا بھی نہ تھا۔ دنیا بھر کی دولت اس کو جو خوشی نہ دے سکی وہ اس خستہ حال کیمپ نے اسے دے دی۔

کچھ دیر پہلے جس بچی پر کوئی نگاہ ڈالنے کو روادار نہ تھا اب سب اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔

"نصیب کی بات ہے۔۔ اتنے بڑے گھر کی بیٹی بن گئی"۔

صفیہ نے ایک نظر معصوم بچی کے چہرے کودیکھا۔ اس لمحے نا جانے کیوں وہ بچی مسکرا دی۔ جیسے کسی فرشتے نے کان میں سر گوشی کی ہو۔

" مما آ گئی ہیں۔۔ "

صفیہ نے بے ساختہ اس گلے لگا لیا۔

" خوشی۔۔ یہ میری خوشی ہے۔۔ آج سے اس کا نام خوشی ہے۔ "

٭٭٭

Check Also

Khawarij Ke Khilaf Karwai Aur Taliban

By Hameed Ullah Bhatti