Selab Kahani, Khushbudar Biryani
سیلاب کہانی: خوشبو دار بریانی
" دیگیں تیار ہیں؟"، رضوان نے فون پر پوچھا"اور بندے؟ چلو ٹھیک ہے میں نکل رہا ہوں۔۔ "۔ وہ کلف لگے سفید سوٹ کو دامن جھٹک کر اٹھا اور ڈرائیور کو آواز دی۔ "مجید! گاڑی نکالو۔۔ "
اسی اثنا میں اس کی بیوی عروج لان میں داخل ہوئی۔ وہ شب خوابی کے لبادے میں تھی۔ برانڈ کانشس تھی اسی لئے شب خوابی کا لباس بھی بہت خاص برانڈ کا ہی پہنتی تھی۔
"اتنی صبح کہاں جا رہے ہیں؟"عروج نے پوچھا۔
"سیلاب زدگان کو کھانا بانٹنے۔۔ "رضوان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
عروج بھی مسکرانے لگی اور بولی "دیگیں لے کر؟"۔
رضوان کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔
"ہاں۔۔ دیگیں لے کر۔۔ " وہ گاڑی کی طرف چل پڑا۔
اسی وقت ایک لوڈر پک اپ اور ایک ہائی روف بھی وہاں آ کر رکی۔ رضوان اپنی گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔ گاڑی میں رضوان کا دست راست ظہور پہلے ہی بیٹھا ہوا تھا۔ ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ لوڈر پک اپ اور ہائی روف بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔
"کھانا آ گیا۔۔ "، ان کی گاڑیاں دیکھ کرسیلاب زدگان کے کیمپ میں کھلبلی مچ گئی۔
روتے ہوئے بچے ہنسنے لگے۔ پریشان چہروں پر خوشی آ گئی۔ بھوک سے بے جان ہاتھ پیروں میں زندگی دوڑ گئی۔۔ صبح سے کھانے کا انتظار کر رہے تھے۔۔ پچھلی رات سے بھوکے تھے۔۔ سب اٹھ کر باہر بھاگے تاکہ گاڑی کے پاس سب سے پہلے پہنچ سکیں۔ سب سے پہلے کھانا حاصل کر سکیں۔
ہائی روف سے چار تنومند اسلحہ بردار مرد اترے۔ کیمپ کے قافہ زدہ کمزور مرد ان کو دیکھ کر پیچھے ہونے لگے۔ عورتیں اور پیچھے ہو گئیں۔ بس بچے ہی ایسے جی دار تھے کی آگے آگے ہو کر کھڑے رہے۔
"پیچھے ہو جاؤ سب۔۔ " اسلحہ برداروں نے بچوں کو بھی پیچھے دھکیل دیا۔
لوڈر میں لائن سے کئی دیگیں رکھی تھیں۔ اب کے منہ کپڑے سے بندھے تھے اور ان پر بڑے بڑے تسلے ڈھکے ہوئے تھے۔
ظہور نے ہائی روف کے پاس کیمرہ سیٹ کردیا۔ رضوان اپنی جدید گاڑی سے اترااورکیمرہ کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ سیاہ چشمہ اس کے چوڑے چہرے پر خوب جچ رہا تھا، بھوکے سیلاب زدگان صبر سے کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ ظہور اب رضوان کے ساتھ کھڑا تھا۔ ریکارڈنگ شروع ہو چکی تھی۔
"ناظرین۔۔ آج میں ایم این اے رضوان کی ساتھ سیلاب زدگان کو کھانا فراہم کرنے کے مشن پر نکلا ہوں۔۔ ابھی صبح کے دس بجے ہیں۔۔ ناشتے کا وقت ہے۔۔ اور رضوان صاحب اپنے بہن بھائیوں کے پاس یہاں موجود ہیں۔۔ رضوان صاحب کو سب اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ ایم این اے ہونے کے علاوہ یہ ایک بہت بڑے سوشل ورکر بھی ہیں۔۔ انھوں نے ہمیشہ عوام کی خدمت کی ہے۔۔ سیلاب ہو یا زلزلہ یہ ہمیشہ مدد کے لئے سب سے پہلے پہنچے ہیں۔۔ یہ آج بھی اس مشکل گھڑی میں عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔۔ "
سیلاب زدگان عقیدت بھری نظروں سے رضوان کو تکنے لگے۔۔ ان کے درماندہ دل تھوڑا قرار پکڑنے لگے۔ "ایک سچا ہمدرد مل گیا۔۔ "۔
"آئیے رضوان صاحب سے بات کرتے ہیں اور ان کے مشن کے بارے میں جانتے ہیں۔ " اب کیمرےکا فوکس رضوان تھا۔
"آپ نے میرے بارے میں اتنا کچھ کہہ دیا۔۔ میں اس قابل کہاں۔۔ عوام کا ایک ادنا سا خادم ہوں۔۔ میری ہمیشہ یہ ہی کوشش رہی ہے کہ میں اپنے بہن بھائیوں کے کام آ سکوں۔۔ بھائی میں کوئی جاگیردار یا امیر کبیر آدمی نہیں ہوں۔۔ میں ایک غریب گھر سے ہوں۔۔ میں ان سب کو درد اور بھوک کو محسوس کر سکتا ہوں۔۔ "
سیلاب زدگان کی آنکھیں احساس تشکر سے نم ہونے لگیں۔ "کوئی تو ہےجو ہم میں سے ہے۔۔ ہمارا درد سمجھتا ہے۔۔ "
"اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کے لئے میں ہر وقت حاضر ہوں۔۔ یہ کھانا میں نے حکومت کے فنڈ سے نہیں پکوایا۔۔ یہ میری طرف سے ہے۔۔ "
ظہور نے پھر بات اچک لی "آیئے ناظرین اب ہم آپ کو کھانا دکھاتے ہیں جو رضوان اپنے سیلاب زدہ بھائی بہنوں کے لئے لائے ہیں۔۔ " کیمرہ اب لوڈر پک اپ کا اندرونی منظر دکھا رہا تھا۔
لائن سے کئی دیگیں تھیں۔۔ ظہورنے سب سے پہلی دیگ کھولی۔
گرم گرم چکن بریانی کا مہک ساری فضا میں پھیل گئی۔ سیلاب زدگان کے پیٹ میں بھوک کے پنجے اور تیزی سے چلنے لگے۔
"بھئی واہ۔۔ دیکھا آپ نے ناظرین۔۔ یہ چکن بریانی کی دیگ ہے۔۔ کیا خوشبو ہے۔۔ واہ بھئی۔۔ "، دیگ کا منہ پھر سے کپڑے سے باندھ دیا گیا اور بڑا سا تسلہ واپس ڈھک دیا گیا۔
"اچھا۔۔ رضوان صاحب یہ بتائیں۔۔ ان سب دیگوں میں چکن بریانی ہے؟"
"جی بالکل۔۔ ہماری کوشش ہے کہ اپنے بہن بھائیوں کو اچھا کھانا دیں۔۔ اسی لئے میں ہر روز گوشت ہی کا کھانا پکواتا ہوں۔۔ کل ہم نے بیف قورمہ کی کئی دیگیں پکوائی تھیں اور آج یہ چکن بریانی کی دس دیگیں ہیں۔۔ "، سیلاب زدگان کی آنکھیں احساس محبت سے نم ہونے لگیں۔
"ایسا کھانا تو ہمیں اپنے گھروں میں بھی میسر نہیں تھا۔۔ ہم تو کبھی پیاز اور کبھی ہری مرچ سے کھانا کھاتے تھے۔۔ "
"ناظرین۔۔ ایسے ہی نیک دل لوگوں کی وجہ سے یہ دنیا قائم ہے۔۔ رضوان صاحب جیسے لوگ ہیں۔۔ جو ہمارے لئے مثال ہیں۔۔ "، ظہورنے بات ختم کی اور کیمرہ اسٹینڈ پر سے اتار اور ہائی روف میں جا بیٹھا۔
رضوان بھی گرمی سے پریشان ہو چکا تھا وہ بھی اپنی اے سی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اسلحہ برداروں نے اعلان کیا۔۔ "آپ لوگ اپنے اپنے خیموں میں بیٹھیں آپ کو کھانا وہیں دیا جائے گا۔۔ "۔
لوگ جلدی جلدی بھاگ کر اپنے خیموں میں جا بیٹھے۔ مگر بچوں کو کہاں سکون ہوتا ہے۔ وہ ماؤں کی پکاروں کو نظر انداز کر کے خیموں سے باہر ہی کھڑے رہے۔ اسلحہ بردار بھی ہائی روف میں بیٹھے اور قافلہ تیزی سے یہ جا وہ جا ہوا۔
بچے چیخنے لگے۔ "او کھانا لے جارہے ہیں۔۔ اماں۔۔ کھانا نہیں دیا۔۔ ابا۔۔ وہ کھانا لے جا رہے ہیں۔۔ "
لوگ خیموں سے نکل آئے، مگر گاڑیوں کی رفتار تیز تھی۔ دھول مٹی کا طوفان ان کے آفت زدہ چہروں پر اڑنے لگا۔ بچے رونے لگے۔
"اماں۔۔ بھوک لگی ہے۔۔ کھانا کیوں نہیں دیا؟" اس سوال و جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔
پھر سارا دن یہ ہی ہوتا رہا۔۔ رضوان کا قافلہ ایک کے بعد دوسرے کیمپ کی طرف گامزن رہا۔ ظہور اور رضوان بار بار کیمرے کے سامنے جا جا کر کھڑے ہوتے رہے۔
ویڈیو بنتی رہی۔۔ سب سے آگے رکھی دیگ کا منہ کھلتا رہا۔۔ بند ہوتا رہا۔۔ سیلاب زدگان کو وہ چکن بریانی نہ ناشتے میں ملی نہ دوپہر کے کھانے میں۔۔ بھوکے بچے اسلحہ برداروں کے آگے کھڑے چکن بریانی کا اتنظار کرتے رہے۔۔ مگر چکن بریانی کی دیگیں کبھی نیچے اتری ہی نہیں۔۔ اور اب رات ہوچکی تھی۔۔ گاڑی ایک اور کیمپ کی طرف رواں دواں تھی۔
ظہور کیمرے کی چھوٹی سی اسکرین میں رضوان کو ویڈیوز دکھا رہا تھا۔ "سر۔۔ آج ہم نے دس مختلف لوکیشنز پر ویڈیوز بنا لی ہیں۔۔ یہ ویڈیوز ایک ماہ کے لئے کافی ہوں گی۔۔ "
رجوان نے اچٹتی سی نظر کیمرے پر ڈالی اور کہا "فوٹو ایڈیٹنگ بہت اچھی کروانا۔۔ لوگ بڑے ہوشیار ہو گئے ہیں۔۔ بالکل پتہ نہیں چلنا چاہئے کہ یہ ایک ہی دن کی ویڈیوز ہیں۔۔ "
ظہور بولا "فکر ہی نہ کریں سر۔۔ ایسی ایڈیٹنگ کرؤاں گا کہ کسی کا باپ بھی نہیں پہچان پائے گا۔۔ روز ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوگی۔۔ "
رضوان اب تھک چکا تھا وہ بولا۔ "چلو پھر اب کافی کیمپ کور ہو گئے۔۔ اب یہ لاسٹ کیمپ پر رات کے کھانے کی ویڈیو بنا لینا اور کھانا بانٹ کر ختم کرنا۔۔ کھانا کھاتے ہوئے لوگوں کی ویڈیو بھی تو ہونی چاہئے۔۔ "
کیمپ کے سامنے گاڑی رکی۔ رضوان صبح سے یہ منظر اتنی بار دیکھ چکا تھا کہ اب اسے سیلاب زدگان کی شکلیں دیکھ کر کوفت ہو رہی تھی۔ ایک بار پھر وہ ہی سب کچھ دہرایا گیا۔ مگر اس بار کچھ مختلف ہوا۔
جب ظہور نے دیگ کھول کر ناطرین کو دکھائی تو اس دیگ میں سے اشتہا انگیز خوشبو کی بجائے خراب چالوں کا بھبکا نکل رہا تھا۔ مگر ظاہر کے ویڈیو میں خوشبو یا بد بو کو تو فلم بند نہیں کیا جا سکتا لہذا ظہور سانس روک کردیگ کے قریب ہوا اور بریانی کی"لذیذ خوشبو" اپنے دیکھنے والوں تک پہنچا دی۔
پہلی بارچکن بریانی کی دیگ گاڑی سے اتاری گئی۔ سیلاب زدگان کھانے کے لئے بھاگے۔ بد بو دار بریانی تھوڑی تھوڑی مقدار میں ان سب میں بانٹی گئی۔۔ ظہور نے ہر ہر موقعہ سے فائدہ اٹھایا۔۔ مختلف زاویوں سے ہزاروں تصویر بنا ڈالیں۔
رضوان نے چند ایک سیلاب زدگان کو گلے بھی لگایا۔ مگر گاڑی میں بیٹھتے ہی خود پر اینٹی بیکٹیریکل اسپرے کرنا نہیں بھولا۔
بھوک سے بے حال لوگ وہ بھبکا دیتی بریانی بھی کھا گئے۔ مزید کی بھوک نے انھیں پک اپ لوڈر میں رکھی دیگوں کی طرف متوجہ کر دیا مگر اسلحہ برداروں نے ان کی غلط فہمی دور کر دی۔
"بس ابھی ایک ہی دیگ بچی تھی۔۔ وہ سب دیگیں خالی ہیں"۔
آدھے ادھورے پیٹ بھرنا تو غریبوں کی پرانی عادت ہے۔ سو تھوڑی سے بدبو دار بریانی کھا کر بھی لوگ رضوان کو دعائیں دینے لگے۔
٭٭٭