Selab Kahani, Kaar e Khair
سیلاب کہانی: کارِ خیر
"موم!آپ ایسا نہیں کر سکتیں۔۔ " فارس نے غصہ اور بے یقینی سے کہا۔
"بیٹا۔۔ Try to understand۔۔ مجبوری ہے۔۔ "نازنین نے اپنے بیٹے سے کہا
"no mom،۔ please، dont do this۔۔ " فارس نے روہانسو سا ہو گیا۔
نازنین بے بسی سے بولیں"میں خود بھی پروگرام کینسل نہیں کرنا چاہتی۔۔ وہاں ڈرمو ٹولوجسٹ سے میری اپوئنٹمنٹ ہے۔۔ مگر سیلاب کی وجہ سے سب گڑ بڑ ہوگئی ہے۔۔ راستے بند ہے مال آگے جا ہی نہیں پا رہا۔۔ کیا کروں؟"
فارش ساتویں کلاس کا طالب علم تھا۔ نازنین کا اکلوتا بیٹا، اس کی تمناؤں کا مرکز۔
وہ اکثر کہتی تھی "ایک دن میرا بیٹا بہت بڑا بزنس مین بنے گا۔۔ میرے گارمنٹس کے بزنس کو پوری دنیا میں پھیلا دے گا"۔
وہ شہر کے بہترین اسکول میں پڑھتا تھا جہاں زیر تعلیم بچے چھٹیاں گزارنے نانی کے گھر نہیں جاتے تھے۔ اس بار نازنین نے بھی چھٹیوں میں ترکی جانے کا پروگرام بنایا تھا مگر سیلاب کی وجہ سے سارا پلان چوپٹ ہو گیا۔
نازنین کی گار منٹس کی ایک فیکٹری تھی۔ اس کی فیکٹری میں خواتین ورکرز کام کرتی تھیں۔ اس کا بزنس کافی اچھا چل نکلا تھا۔
گھر میں فراوانی تھی مگر سیلاب کی وجہ سے وقتی پریشانی کا سامنا تھا۔ مال تیار پڑا تھا مگر راستے بند تھے۔ اس کے کافی سارے منصوبے متاثر ہوئے تھےاور اب اسی وجہ سے فارس اداس بیٹھا تھا اور نازنین سے اس کی اداسی دیکھی نہیں جا رہی تھی۔
٭٭٭
"حریم۔۔ چپ ہو جاؤ۔۔ پلیز۔۔ نہ رو۔۔ میں سب سنبھال لوں گی۔۔ " مناہل نے ہلکی ہلکی سسکیاں لیتی حریم کو گلے لگا لیا۔
"اگر امی کی حالت اتنی خراب نہ ہوتی تو میں کبھی چھٹی نہ کرتی۔۔ میڈم نازنین چھٹی نہیں دیں گی۔۔ میری نوکری چلی گئی تو۔۔ "
حریم اور شدت سے رونے لگی۔
مناہل نے کہا "بے فکر ہو کر جاؤ۔۔ اور اپنی امی کا بہت خیال رکھو۔۔ میں سب سنبھال لوں گی"۔
اس کے بعد حریم چار دن تک نہ آسکی اور مناہل اس کی جگہ فیکڑی کی لڑکیوں کو بٹھاتی رہی اور کبھی تو خود بھی بیٹھ جاتی۔ مناہل نازنین کی فیکڑی میں ہیڈ سپر وائزر تھی۔
نازنین کو اس پر بہت اعتماد تھا۔ مناہل نے بھی اس کے اعتماد کو برقرار رکھا مگر کبھی کبھی وہ ڈنڈی مار جاتی تھی۔
اصل میں نازنین ایک خود غرض عورت تھی۔ اسے اپنے کام سے مطلب تھا اور وہ فیکٹری ملازمین پر سختی کی قائل تھی تاکہ ان سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جا سکے۔ جب کہ مگر مناہل نرم دل اور ہمدرد مزاج رکھتی تھی۔ ورکرز کے مسائل کو سنتی اور سمجھتی تھی اس لئے وہ اکثر نازنین کے سخت رویہ سے ورکرز کو بچاتی رہتی تھی۔ فیکٹری کی ہر ورکر کسی نہ کسی حوالے سے مناہل کی احسان مند تھی۔
٭٭٭
سوشل میڈیا پر سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر لوگوں کی حالت زار دکھائی جا رہی تھی۔ امدادی تنظیمیں بڑھ چڑھ کر کام کر رہی تھیں۔ نازنین اپنے بیڈ پر لیٹی وہ ایک ایسی ہی ایک ویڈیو دیکھ رہی تھی۔
اچانک نازنین کے ذہن میں یہ خیال آ یا تھا۔ اس نے موبائل سائیڈ میں رکھا ذہنی طور پر اپنے منصوبے کی نوک پلک سنوارنے لگی۔
٭٭٭
"ہیلو۔۔ فارس۔۔ اسکول سے ٹائم پر واپس آگئے تھے نا۔۔ کھانا کھا لیا؟"نازنین نے حسب معمول گھر فون کر کے فارس سے بات کی۔
"اچھا بات سنو۔۔ اب ناراضگی چھوڑ دو۔۔ اور خوش خبری سنو!میں نے ایک منسوبہ بنایا ہے۔۔ اب ہم ترکی جا سکیں گے۔ "
نازنین نے ہنستے ہوئے کہا دوسری طرف فارس کی خوشی نے اسے سرشار کر دیا۔
"بس بیٹا جی۔۔ آپ کے لئے آپ کی ما ما سب کچھ کر سکتی ہیں۔۔ دوسری طرف سے فارس نے کچھ کہا تو نازنین نے جواباً بتانا شروع کیا۔
بھئی میں نے سوچا ہے کہ میں ایک سیلاب فنڈ قائم کروں گی۔۔ اور فیکٹری کی سب ورکرز کی ایک دن کی تنخواہ بھی اس فنڈ میں جائے گی۔۔ اور لوگوں سے بھی امدا کی اپیل کی جائے گی۔۔
بس پھر کیا!پیسہ ہی پیسہ ہوگا۔۔ ایک ویک نہیں پورے پندرہ دن کا ٹرپ ہو گا۔۔ "
نازنین ہنسنے لگی اور دروازے پر کھڑی مناہل کا ہاتھ ساکت رہ گیا۔
وہ تو خوشی خوشی نازنین کو یہ بتانے آئی تھی کہ اس کو دبئی کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں جاب مل گئی ہے۔ مگر نازین کی باتیں سن کر اس کا خون ابلنے لگا۔ پہلے بھی نازنین پیسوں کے لئے ورکرز کا استحصال کرتی رہی تھی مگر اب کی بار تو حد ہی ہو گئی تھی۔
"یہ عورت پیسے کے لئے اس حد تک گر سکتی ہے؟ میں جانے سے پہلے اس کو سبق سکھا کر ہی جاؤں گی۔۔ " اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا لیٹر واپس پرس میں رکھااور دروازے پر دستک دی۔
"یس۔۔ نازنین نے فون بند کر کے اس اندر آنے کی اجازت دی۔ مناہل اندر داخل ہوئی اور حسب معمول فیکٹری کے معاملات سے نازنین کو آگاہ کرنے لگی۔
"مناہل! مجھے آپ سے ایک اور بات بھی کرنی تھی۔۔ "نازین نے تمہید باندھی اور مناہل سمجھ گئی کہ اب وہ کیا کہنے والی ہے۔
"جی میڈم۔۔ پلیز بتائیں۔۔ "
نازنین نے دکھی سا منہ بنا کر بات شروع کی۔ "مناہل آپ کو پتہ ہے کہ سیلاب کی وجہ سے لوگ کس قدر پریشان ہیں۔۔ میں ان لوگوں کی مدد کر نا چاہتی ہوں۔۔ "
"سبحان اللہ۔۔ کتنی اچھی سوچ ہے آپ کی۔۔ آپ جیسے لوگ ہی ہیں جو دوسروں کے بارے میں سوچتے ہیں"۔ مناہل نے جھوم جھوم کر نازنین کی تعریف کی۔ نازنین خوش ہو گئی۔
"میں سوچ رہی ہوں مناہل کہ ہم ایک سیلاب فنڈقائم کریں گے اور سب اپنی ایک دن کی انکم اس میں جمع کروائیں گے۔۔ ہماری فیکٹری میں ہزاروں ورکرز ہیں۔۔ اگر سب ایک دن کی تنخواہ فنڈ میں دیں تو لاکھوں روپے جمع ہوجائیں گے۔۔ میں خود بھی فیکٹری کی ایک دن کی انکم فنڈ میں دوں گی۔۔ " مناہل کا جھومنا جاری رہا۔
"بہت زبر دست آئیڈیا ہے میڈم۔۔ ہم اپنی فیکٹری کے نام سے ہی فنڈ قائم کریں گے تاکہ فیکٹری کانام مشہور ہو جائے۔۔ سوشل میڈیا پر بھی لوگوں کو بتائیں گی تاکہ وہ بھی اس کار خیر میں حصہ لیں۔۔ اس طرح کافی رقم جمع ہو جائے گی۔۔ " نازنین خود پرست عورت تھی۔ دولت کے ساتھ ساتھ شہرت کا سوچ کر جھوم اٹھی۔
بس مناہل نے زور و شور سے اس فنڈ پر کام شروع کر دیا۔ فیکٹری ورکرز کو مناہل پر بہت بھروسہ تھا۔ سب نے اس کی بات پر آمنا صادقنا کہہ دیا۔ مناہل وقتاً فوقتاً نازنین کو اپ ڈیٹ کرتی رہتی تھی۔ ساری انتظامات نازنین کے زیر نگرانی چل رہے تھے
مگر اس سب میں ایک خفیہ معاملہ بھی چل رہاتھا جو صرف مناہل جانتی تھی۔
٭٭٭
تنخواہ کا دن آ گیا۔ مناہل پورا انتظام کر چکی تھی۔ فیکٹری کی خواتین ٹینٹ میں جمع ہو چکی تھیں۔
چھوٹا سا اسٹیج سجایا گیا۔ مقامی اخبار کے رپورٹر بلائے گئے۔ چند معززین شہر بھی سوٹ بوٹ پہنے موجود تھے۔ سوشل میڈیا پر کا م کرنے والی ایک انفلوینسر بھی اپنے کیمرہ مین کے ساتھ موجود تھی۔
نازنین اتنی تشہیر و پذیرائی کا سوچ کر خوش تھی۔ آج کے دن کے لئے اس نے خاص طور پر برانڈڈ سوٹ لیا تھا، شہر کے بہترین پارلر سے تیار ہو کر آئی تھی اور اب میک اپ کو گرمی سے بچانے کے لئے اپنے آفس کے اے سی میں بیٹھی تھی۔ جبکہ باہر کا سارا انتظام مناہل نے سنبھال رکھا تھا۔
تقریب کا آ غاز ہوا۔ نازنین نے اسٹیج پر قدم رکھا۔ ٹینٹ میں موجود ورکرز کو دیکھ کر نازنین ایک لمحے کو اچھنبے میں پڑ گئی۔
"ان کے لئے کرسیاں لگوانے کی کیا ضرورت تھی؟"اس نے خفگی سے سوچا مگر چہرے پر مسکراہٹ قائم رکھی۔
تقریب کا آغازہوا۔ مناہل نے نازنین کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع کر دیئے۔ نازنین کو حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا جب اس نے دیکھا کہ ورکرز کو کولڈ ڈرنکز پیش کئے جا رہے ہیں۔
مناہل کے بعددیگر لوگوں نے بھی نازنین کے اس اقدام کی تعریف میں تقریریں کیں۔
پھر ایک بڑا سا شیشے کا باکس اسٹیج پر لا کر رکھا گیا۔ نازنین نے حیرت سے باکس کو دیکھا۔
"یہ تو طے نہیں ہوا تھا۔۔ رقم تو میرے پاس جمع ہونی تھی۔۔ چلو خیر ہے۔۔ یہ بکس بھی تو میرے آفس میں ہی جائے گا۔۔ "
نازنین نے خود کو مطمئن کیا۔ مگر اگلے ہی لمحہ حیرت کا ایک اور جھٹکا اس کے لئے تیار تھا۔۔ جب اس نے دیکھا کہ ہر ورکر باری باری آ کر شیشے کے باکس میں اپنی ایک دن کی تنخواہ ڈال رہی ہے اور کپڑے کا ایک جوڑا میز پر رکھتی جا رہی ہے۔
"ہماری ورکرز نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ نہ صرف اپنی ایک دن کی تنخواہ دیں گی بلکہ فیکٹری کے مال میں سے ایک جوڑا مفت سی کر اپنے سیلاب زدہ بھائی بہنوں کی مدد کریں گی۔۔ اور یہ سب ممکن ہوا ہے میڈم نازنین کی وجہ سے۔۔ "پنڈال میں تالیاں گونج اٹھیں۔
نازنین کے دل کی دھڑکن رکنے لگی۔ باری باری سب نے اپنی ایک دن کی تنخواہ باکس میں ڈال دی۔ اسٹیج پر موجود معززین نے بھی کافی خطیر رقوم باکس میں ڈالیں۔
اتنے سارے پیسے دیکھ کر نازنین کا دل تھوڑا سنبھلا تھا۔
"اب میں دعوت دیتی ہوں فیکٹری کی مالک اور اس پورے کارِ خیر کی روحِ رواں میڈم نازنین کو کہ وہ آئیں اور یہ باکس اپنے ہاتھوں سے جناب وسیم خان کے حوالے کریں۔ "
نازنین کو کرنٹ سا لگ گیا۔ تالیاں زور و شور سے بج رہی تھیں۔
"وسیم خان صاحب کو کون نہیں جانتا۔۔ آپ اس شہر کے مشہور سوشل ورکر ہیں۔۔ ہم سب ان پر اعتماد کرتے ہیں"۔ مناہل کی تقریر جاری تھی مگر نازنین کے کانوں میں تو سناٹے گونج رہے تھے۔
"میڈم نازنین سے درخواست ہے کہ اسٹیج پر تشریف لائیں اور اس کار خیر کو اپنے مبارک ہاتھوں سے انجام تک پہنچائیں۔ "
ہر نظر نازنین پر ٹکی ہوئی تھی۔ کوئی راہ فرار نہ تھی۔
نازنین مردہ قدموں سے اٹھی۔ کانپتی ٹانگوں سے اسٹیج پر چڑھی اور اپنے ہاتھوں سے رقم سے بھرا بکس وسیم خان کے حوالے کر دیا۔
اس نے کھا جانے والی نظروں سے مناہل کو گھورا مگر وہ نازنین کی طرف دیکھے بغیر مائک پر بولے جا رہی تھی۔
"اسے تو میں کل بتاؤں گی۔۔ "
نازنین کی دانت پیس کر دل ہی دل میں کہا مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ حیرت کا ایک اور سامان نازنین کی آفس کی ٹیبل پر پڑا تھا۔
مناہل کا استعفیٰ۔۔ "
٭٭٭