1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Selab Kahani, Halloween Party

Selab Kahani, Halloween Party

سیلاب کہانی، ہیلووین پارٹی

"بابا۔۔ ہمیں ہیلووین سیلیبریٹ کرنا ہے۔۔ " علینہ اور شبینہ اپنے بابا کے پاس کھڑی تھیں۔

عاصم نے بڑے دکھ سے اپنی چودہ سالہ جڑواں بیٹیوں کو دیکھا۔۔ دونوں اسکول کے ڈریس میں ملبوس کھڑی تھیں۔

"بیٹا ہیلووین ہمارا تہوار نہیں ہے۔۔ ہم عید مناتے ہیں۔۔ بقر عید مناتے ہیں۔۔ آپ نے کس کو ہیلو وین مناتے دیکھا؟"

علینہ نے جواب دیا "بابا ہمارے اسکول میں منایا گیا تھا۔۔ "

دونوں بچیاں شہر کے سب سے اچھے اسکول میں زیر تعلیم تھیں۔ وہ ایک انٹر نیشنل اسکول تھا۔ معاشرے میں اسٹیٹس سمبل تھا۔ مگر اس اسکول میں ہیلووین منایا گیا تھا۔۔ یہ اطلاع عاصم کے لئے حیرت کا سبب تھی۔

شبینہ بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتی تھی اس لئے بولی "بابا۔۔ میری دوست کے گھر بھی ہیلووین پارٹی ہوئی تھی۔۔ بہت مزہ آیا تھا۔۔ "، عاصم نے اپنی بیوی مہوش کی طرف دیکھا۔ مگر وہ اپنے موبائل میں مصروف رہی۔ جیسے یہ اس کے لئے کوئی خاص بات نہ ہو۔

عاصم اس شہر کا کمشنر تھا۔ سیلاب کی وجہ سے اس کی مصروفیات بے حد بڑھ چکی تھیں۔ صبح سے رات گئے تک سیلاب زدگان کی ریلیف کا کام وہ اپنی نگرانی میں کرواتا تھا کیوں کہ جانتا تھا کہ اگر وہ اسٹاف کے سر سے ہٹا تو ان میں سے کوئی بھی کام نہیں کرے گا۔ عاصم ایک ایماندار آفسر تھا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ وہ کہیں بھی ٹک نہیں پاتا تھا۔۔ آئے دن اس کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا مگر وہ اپنی روش بدلنے کے لئے تیار نہ تھا۔

اس کے انڈر کام کرنے والا عملہ ہمیشہ اس نے ناخوش ہی رہتا تھا۔ کیوں نہ وہ خود غلط کام کرتا تھا نہ کرنے دیتا تھا۔ سیلاب کی وجہ سے آنے والی تباہی نے عاصم کا کام بڑھا دیا تھا۔ وہ سیلاب زدگان کی حالت دیکھ کر دکھی تھا۔ اس سے بھی زیادہ دکھ اس کو یہ دیکھ کر ہوتا تھا کہ سرکاری مشینری اس مشکل وقت میں عوام کا ریلیف دینے کے بجائے اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہے۔ مگر عاصم کی موجودگی میں اس کا عملہ اس سعادت سے محروم ہی تھا۔ عاصم بذات خود ہر وقت ڈیوٹی پر موجود رہتا تھا۔

اسی سلسلے میں کچھ دن کے لئے اطراف میں موجود دیہاتی علاقوں کے دورے پر گیا ہوا تھا اور آج صبح ہی واپس آیا تھا۔

"اچھا۔۔ ابھی آپ لوگ اسکول جائیں۔۔ واپسی پر بات ہوگی۔۔ " عاصم نے دونوں کو اسکول کے لئے روانہ کیا۔

"مہوش۔۔ یہ میں کیا سن رہا ہوں؟" بچیوں کے جانے کے بعد عاصم نے اپنی بیوی کو مخاطب کر کے کہا۔

"کیا؟" مہوش نے چونک کر پوچھا

"ان کے اسکول میں ہیلووین منایا گیا تھا؟ اور بچیاں کسی ہیلووین پارٹی میں بھی گئی تھیں؟"

مہوش مسکرا کر بولی

"اچھا۔۔ ہیلو وین۔۔ ہاں۔۔ ان کے اسکول میں منایا گیا تھا۔۔ بچیوں نے کافی انجوائے کیا۔۔ "

"مہوش۔۔ یہ ایک غیر اسلامی اور غیر اخلاقی تہوار ہے۔۔ ہمیں اس کو پروموٹ نہیں کرنا چاہئے۔۔ تم نے اسکول پرنسپل سے بات کیوں نہیں کی؟"

عاصم اب بھی خفا تھا "عاصم۔۔ دنیا بدل گئی ہے۔۔ اگر ہم ایسی دقیانوسی سوچ کا اظہار کریں گے تو لوگ ہمیں جاہل سمجھیں گے۔۔ اور اب تو ہیلووین تو بس ایک ڈے ہے۔۔ جیسے فاردز ڈے۔۔ ٹیچرز ڈے ہوتا ہے۔۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔ اس میں اسلامی غیر اسلامی کا کوئی چکر نہیں ہے۔۔ "

مہوش نے کندھے اچکا کر وضاحت کی۔

"تم نے کبھی ہیلووین کی تاریخ جاننے کی کوشش کی؟"۔ عاصم نے پوچھا

مہوش سٹپٹا سی گئی "نہیں۔۔ مگر تاریخ کا کیا ہے۔۔ بہت سی باتیں وقت کے ساتھ بدل کر کچھ اور ہو جاتی ہیں۔۔ تم اس بات کو اتنا سیریس کیوں لے رہے ہو۔۔ پورے شہر میں ہیلووین منایا جا رہا ہے۔۔ اب خدا کے لئے پابندی مت لگا دینا۔۔ سارا شہر ہمارا مخالف ہو جائے گا۔۔ "

عاصم نے پر سوچ نظروں سے مہوش کی طرف دیکھا۔

٭٭٭

"ہم ہیلووین پارٹی ارینج کریں گے۔۔ "، دو دن بعد ڈنر پر عاصم نے دھماکہ کر دیا۔

مہوش حیرت سے عاصم کا منہ تکنے لگی۔۔

"کہاں تو اتنے مخالف تھے اور اب پارٹی ارینج کر رہے ہو؟"

علینہ اور شبینہ خوشی سے اچھل پڑیں۔

"بابا ہم گھر میں پارٹی کریں گے؟"

"نہیں۔۔ پارٹی تھوڑی مختلف ہونی چاہئے۔۔ بھئی گھر تو سب نے دیکھا ہوتا ہے۔۔ اور گھر اتنا خوفناک بھی نہیں ہوتا۔۔ اب ہیلووین کی پارٹی تو کسی خوفناک جگہ ہی ہونے چاہئے نا۔۔ اسی لئے میں نے سوچا ہے کہ کہیں اور ارینجمنٹ کیا جائے۔۔ کیا خیال ہے؟"

"پھر تو بہت مزہ آئے گا۔۔ میں اپنی دوستوں کو بھی انوائٹ کروں گی۔۔ "، علینہ اور شبینہ کی خوشی دیدنی تھی۔

"جس کو چاہو بلا لو۔۔ اور ہاں سب کو کہہ دینا کہ کنوینس اور پارٹی تھیم کے مطابق گیٹ اپ ہماری طرف سے ہے۔۔ سب یہاں ہمارے گھرآ جائیں۔۔ پھر ہم یہاں سے آگے پارٹی کے وینیو تک لے جائیں گے۔۔ وہاں تیار ہوں گے اور ساری رات خوب ڈرنا ڈرانا ہوگا۔۔ "

عاصم سب انتظامات کر چکا تھا۔

بچیاں اتنی پر جوش تھیں کہ کھانا چھوڑ کر اپنی دوستوں کو بتانے بھاگیں۔ مہوش بھی خاصی خوش تھی۔ اس کا خیال تھا کہ ہائی سوسائٹی میں موو کرنے کے لئے یہ سب کچھ کرنا ضروری ہے۔۔ ورنہ لوگ ہمیں بیک ورڈ سمجھیں گے۔۔

"مسز جاوید کو ضرور بلاؤں گی۔۔ بڑ اترا رہی تھیں اپنی ہیلووین پارٹی میں۔۔ "، اس نے دل ہی دل میں سوچا۔

دن مقرر ہوا اور پارٹی میں شرکت کے لئے لوگ سر شام سے ہی آنا شروع ہو گئے۔ عاصم نے پارٹی کے وینیو تک جانے کے لئے گاڑیوں کا انتظام کر دیا تھا۔ لوگ خوشی خوشی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ مگر منزل پر پہنچ کرسب حیران سے رہ گئے۔

یہ کیسی پارٹی ہے؟ یہاں تو کوئی ارینجمنٹ نظر نہیں آ رہی۔

گاڑیوں سے اتر کر لوگوں کے چاروں طرف دیکھا۔

یہ تو کوئی پرانی ٹوٹی پھوٹی عمارت ہے۔۔ اس میں تو لوگوں نے خیمے لگائے ہوئے ہیں۔۔ یہ تو سیلاب زدگان کے خیمے ہیں، سب عاصم کی طرف دیکھنے لگے۔

"یار میں نے سوچا جھوٹ موٹ کی ہانٹڈ جگہ جانے سے بہتر ہے کسی رئیل ہانٹڈ جگہ جایا جائے۔۔ اسی لئے میں یہاں رات گزارنے کا بندو بست کیا ہے۔۔ "، لوگوں میں سرا سیمگی سی پھیلنے لگی۔۔ مگر اب تو گاڑیاں بھی جا چکیں اور وہ یہاں پھنس گئے تھے۔ عاصم ہنسنے لگا۔

"کیا ہوا؟ ابھی سے ڈر لگنے لگا۔۔ ابھی تو پارٹی شروع بھی نہیں ہوئی۔۔ چلو اب تھوڑا گھوم پھر لیتے ہیں۔۔ پھر رات ہو جائے گی تو پارٹی شروع کریں گے۔۔ "، ماحول کا تناؤ تھوڑا کم ہوا اور لوگ رات کی پارٹی کا سوچ کر خوش ہو گئے۔ مگر وہاں کی گندگی بدبو سے ان کی نازک طبعیتوں پر بڑی ناگوار گزر رہی تھی۔ یہاں گھوم پھر کر دیکھنے کے لئے بھلا کیا تھا!

خیموں میں موجود لوگ انہیں زومبیز لگ رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ بھی کسی ہیلووین پارٹی کا گیٹ اپ بنا کر بیٹھے ہیں۔ پھٹے پرانے گندے داغ دار کپڑے۔۔ اکثر نیم برہنہ تھے، دھوپ سی جلی ہوئی رنگت۔۔ مردہ جلد۔۔ گندے بڑھے ہوئے ناخن۔

فاقہ سے زرد چہرے۔۔ جیسے گندہ زرد رنگ چہرے پر مل لیا ہو، بدبو کے بھپکے ہر جگہ سے اٹھ رہے تھے۔

ہیلووین پارٹی میں لوگ ایک دوسرے کے گیٹ اپ سے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہیں مگر اب وہ سب یہاں موجود موٹے موٹے مچھر، ادھر ادھر رینگتے کیڑوں سے ڈر رہےتھا۔

غریب سیلاب زدگان بھی ان لوگوں کو حیرت سے دیکھنے لگے۔ ان بے چاروں نے بھی ایسی مخلوق کم ہی دیکھی تھی۔۔ اب تک وہ اپنے جیسے غریب، لاچار، بیمار اور گندے لوگ ہی دیکھتے آئے تھے، یا اس سیلاب کے بعدا نھوں نے کچھ مددگار لوگ دیکھے تھے۔

مگر ایسے لوگ وہ پہلی بار دیکھ رہے تھے۔۔ سجے بنے، خوبصورت لباس میں ملبوس۔۔ گوری چٹی عورتیں اور لڑکیاں۔۔ صحت مند چہرے جن کی گوری رنگت میں گلابی پن چھلک رہا تھا۔

ورنہ ان کے ہاں تو عورتیں مدقوق اور زرد ہوتی ہیں۔۔ کچھ اور بچے بھی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کے پاس آنے لگے۔۔ ان کے گندے لباس۔۔ ناک تھوک سے لتھڑے چہرے۔۔ غلاظت سے بھرے ہاتھ دیکھ کر سب خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگے۔

علینہ اور شبینہ وہاں موجود لوگوں کی توجہ کا مرکز تھیں۔ دونوں ہم شکل تھیں اور ایک جیسے لباس میں تھیں۔

ایک بچی نے ان کے قریب آنے کی کوشش کی۔۔ مگر دونوں ڈر کر پیچھے ہٹ گئیں۔ علینہ نے تو رونا شروع کر دیا "بابا۔۔ گھر چلیں۔۔ "

عاصم نے کہا "بیٹا آپ تو سچ مچ میں ڈرنے لگیں۔۔ ہیلووین کے ڈر کو تو سب انجوئے کرتے ہیں۔۔ "

مہوش بھی قریب آ کر آہستگی سے بولی "عاصم۔۔ یہ کیا مذاق ہے۔۔ یہاں کیوں لائے ہو سب کو۔۔ لوگ ڈر رہے ہیں۔۔ "

عاصم ہنس پڑا "یہ تو اچھی بات ہے مہوش۔۔ کامیاب ہیلووین پارٹی تو وہ ہی ہوتی ہے جس میں لوگ ڈر جائیں۔۔ "، مہوش ٹھیک کہہ رہی تھی۔ لوگ ناراض نظروں سے انھیں دیکھ رہے تھے۔

"عاصم بھائی۔۔ واپس چلیں۔۔ پلیز۔۔ "

"ہاں۔۔ ہاں۔۔ پلیز۔۔ پلیز۔۔ "

کئی آوازیں ایک ساتھ آئی تھیں۔

"ابھی تو گاڑیاں واپس چلی گئیں ہیں۔۔ ویسے ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔۔ یہ سب انسان ہی ہیں۔۔ کوئی بھوت یا چڑیلیں نہیں ہیں۔۔ آپ سب نے تو ان سے بھی زیادہ خوف ناک گیٹ اپ دیکھے ہوں گے۔۔ "

مگر لوگوں کو وہ بھوت چڑیلیں ہی لگ رہے تھے۔

"اچھا۔۔ چلیں اندر ایک روم آپ لوگوں کے لئے سیٹ ہے وہاں چل کر ریسٹ کریں۔۔ "

عاصم انھیں لے کر ٹوٹی پھوٹی عمارت کے اندر ایک کمرے میں لے آیا۔۔ وہ کمرہ بھی کم آسیب زدہ نہیں لگ رہا تھا مگر باہر موجود لوگوں سے بچنے کایہ ہی ایک آسرا تھا۔

کمرے میں کافی ساری کرسیاں موجود تھیں لوگ ان پر بیٹھ گئے۔۔

مہوش نے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی اور عاصم کی طرف دیکھ کر بولی۔

"اچھا تو اب آگے کا کیا پروگرام ہے؟ کیا ہم اسی روم میں ہیلووین پارٹی کریں گے؟"

عاصم نے جواب دیا "بالکل۔۔ ایسا ہی ہے۔۔ یہ پورا سیٹ اپ ہی ہیلووین پارٹی کا ہے۔۔ اور آپ سب نے دیکھا۔۔ کتنا اچھا سیٹ اپ ہے۔۔ آپ سب ڈر گئے۔۔ یہ ہی تو ہیلو وین کا مقصد ہے۔۔ ڈر کو انجوئے کرنا۔۔ اور ابھی تو رات باقی ہے۔۔ ڈنر باقی ہے۔۔ میں نے سنا ہے لوگ ہیلووین کے لئے عجیب و غریب کھانا بناتے ہیں۔۔ کھانے کو ایسا ڈیکوریٹ کرتے ہیں کہ اس کو دیکھ کر لوگ ڈر جائیں۔۔ تو میں نے بھی آپ سب کے لئے ایسا ہی کھانا ارینج کیا ہے۔۔ "

لوگ مشکوک نظروں سے عاصم کو دیکھنے لگے۔ کچھ لوگ اندر داخل ہوئے۔۔ ان کہ ہاتھوں میں گندے غلیظ برتن موجود تھے۔۔ ان برتنوں میں کھانے کا سامان تھا۔ جس کو دیکھ کر وہاں موجود خواتین کی طبیعت متلانے لگی۔

کالے غلیظ برتنوں میں چاول تھے۔۔ سوکھی روٹی تھی۔۔ گلی سڑی پیاز اور ہری مرچ تھی۔ وہاں پانی کے جگ اور گلاس بھی لا کر رکھے گئے تھے۔۔ جگوں میں موجود پانی مٹیلا بلکہ کالا ہی ہو رہا تھا۔ پانی میں گندگی واضح نظرآرہی تھی۔۔ بدبو دور ہی سے محسوس کی جاسکتی تھی۔۔

"آپ میں سے کوئی پانی پینا پسند کرے گا؟"، عاصم نے گلاسوں میں پانی انڈیل کر وہاں موجود لوگوں کو پیش کش کی۔

"یہ کیا بدتمیزی ہے!" مسز جاوید کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہو گئیں۔

باقی لوگوں کی برداشت بھی اب ختم ہو چکی تھی۔۔

"مہوش۔۔ آپ نے ہماری انسلٹ کرنے کے لئے یہ پارٹی رکھی تھی۔۔ "

" ایسی ہوتی ہے ہیلووین پارٹی؟"

کمرہ آوازوں سے بھر گیا۔

مہوش علینہ اور شبینہ پتھر کے بتوں کی طرح کھڑی تھیں۔

عاصم نے تیز آواز میں کہا "یہ مذاق نہیں ہے۔۔ یہ ان لوگوں کی زندگی ہے جن سے آپ ڈر رہے ہیں۔۔ آپ چند گھنٹے اس ماحول میں نہیں گزار پارہے اور یہ زندگی گزار رہے ہیں۔۔ یہ کھانا جس کو آپ دیکھنا پسند نہیں کر رہے۔۔ یہ کھانا۔۔ ان غریبوں کی خوراک ہے۔۔ اور یہ بھی۔۔ یہ بھی۔۔ انھیں روز نہیں مل پاتی۔۔ "

کمرے میں سناٹا چھا گیا۔

"اس ملک میں جہاں لوگ سچ مچ کی موت کے ڈر سے لڑ رہے ہیں وہاں آپ لوگ صرف اپنی انجوائمنٹ کے لئے جھوٹ موٹ کے ڈر پیدا کر رہے ہیں۔۔ کیا ہمیں زیب دیتا ہے کہ ہم لاکھوں روپے ان خرافات پر لٹا دیں۔۔ "، مسز جاویدکا سر جھک گیا۔

"کیا بطور مسلمان آخرت میں جواب دہی کا خوف کبھی آپ کے دل میں پیدا نہیں ہوا؟ قبر کی رات کا خوف کم ہے جو آپ نئے خوف ایجاد کرنا چاہتے ہیں؟ اللہ نے تو ڈرنے والوں کو پسند فرمایا ہے۔۔ یہ کیسا ڈر ہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہی نہیں؟

اس ملک پر سیلاب کی آفت آ ئی ہوئی ہے۔۔ لاکھوں لوگ بھوک پیاس بیماری سے مر رہے ہیں۔۔ سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں۔۔ مگر ہم۔۔ جو صاحب حیثیت ہیں۔۔ اپنا پیسہ ان لوگوں پر خرچ نہیں کرنا چاہتے۔۔ "

کمرے میں پن ڈراپ سائلنس تھا۔

"ڈرنا ہے تو اس دن سے ڈریں۔۔ جب سب اللہ کے حضور جمع ہوں گے۔۔ اور یہ نادار لوگ آپ کے دامن پکڑے کھڑے ہوں گے۔۔ اللہ سے آپ کےشکایت لگا رہے ہوں گے۔۔ اس مالک کے آگے رو رو کر کہہ رہے ہوں گے کہ اے مالک۔۔ ہم دنیا میں بھوکے پیاسے بے آسرا مر گئے۔۔ اور تیرے یہ بندے ہیلووین پارٹی مناتے رہے۔۔ ڈرنا ہے تو اللہ کے غضب سے ڈریں۔۔ اس آگ سےڈریں۔۔ جو اللہ ہمارے جیسے لوگوں کے لئے دہکائے گا۔۔ "

مہوش کی سسکی گونج اٹھی۔۔ کمرے کی فضا آنسوؤں سے نم ہو گئی۔

"باہر آ جائیں۔۔ گاڑیاں آ گئی ہیں۔۔ آپ کی شاندار۔۔ پر آسائش زندگی آپ کی منتظر ہے۔۔ جہاں ان غلیظ لوگوں کے آنے کا کوئی ڈر نہیں۔۔ "

٭٭٭

Check Also

The Shah Andy

By Rauf Klasra