Selab Kahani, Dard
سیلاب کہانی: درد
درد اتنا شدید تھا کہ طیبہ کو لگا اس کا جسم کسی کولہو میں پیل دیا گیا ہے۔ بدن پر پڑا کپڑا بھی تکلیف دے رہا تھا۔ وہ بخار کی ہذیانی کیفیت میں تھی "امی۔۔ گھر چلو۔۔ امی۔۔ گھر جانا ہے۔۔ "
دس سالہ طیبہ کو اس کیمپ میں آئے ایک مہینہ ہونے والا تھا۔ شروع شروع میں تو اسے سب کھیل لگ رہا تھا۔ کیمپوں کے درمیان بھاگنا دوڑنا، پتھروں سے کھیلنا، پانی میں کھڑے ہو کر پاؤں سے چھینٹیں اڑانا اور کھانا ملنے پر دیوانوں کی طرح چھین جھپٹ کر نا۔
کیمپ کے سارے بچوں کے لئے یہ جگہ ایک کھیل کا میدان تھی۔ مگر کچھ ہی دن میں وہ بور ہو گئے۔۔ انھیں اپنے گھر یاد آنے لگے۔ بھوک اور گندگی بڑھتی گئی۔ کیمپ میں رہنے والوں کا کچرا ہر طرف بکھرا تھا۔
پھر ایک رات طیبہ کو بخار ہو گیا۔ خالدہ نے خوب ڈانٹا "منع بھی کیا تھا۔۔ مت کھیل پانی میں۔۔ مگر نہیں۔۔ کھیلنے وہیں جائے گی۔۔ اب ہو گیا بخار تو پڑی ہے۔۔ میری جان کا عذاب بن کر۔۔ "
کیمپ کے آس پاس جمع پانی نہایت آ لودہ ہو چکا تھا۔ کائی اور کیچڑ کی وجہ سےپانی کی رنگت سبزی مائل سیاہ ہو گئی تھی۔ سچی بات تو یہ تھی کہ اب طیبہ کو بھی اس پانی سے گھن آنے لگی تھی۔
پانی میں انسانوں اور جانوروں کی گندگی بڑھتی جا رہی تھی۔ کیمپ میں رہنے والے حوائج ضروریہ کے لئے پانی کے کنارے ہی بیٹھ جاتے تھے۔ پانی میں شدید بد بو، عجیب عجیب کیڑے، مکھیاں اور مچھر پیدا ہو چکے تھے۔ کیمپ کسی ڈراؤنی فلم کا منظر پیش کر رہا تھا۔
ایسا لگتا تھا کہ کرہ زمین پر بس یہ ہی چند لوگ زندہ بچے ہیں، باقی ساری دنیا فنا ہو چکی ہے۔ وہ لیٹی سوچتی رہی "امی ٹھیک کہتی ہیں۔۔ اسی پانی کی وجہ سے میں بیمار ہوئی ہوں۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ ڈینگی ہو گیا ہے۔۔ نجانے کیا بلا تھی یہ۔۔ "
کیمپ میں کئی اور لوگ بھی بیمار تھے۔ بلکہ اب تو روز ایک نیا مریض سامنے آ رہا تھا۔ جگہ جگہ لوگ چادریں اوڑھے کراہ رہے تھے۔ بچے الٹی اور موشن کر رہے تھے، گندگی بڑھتی جا رہی تھی۔
بے سرو سامانی کا عالم تھا۔ حکومت نے کیمپس تو لگا دیئے مگر وہ بنیادی سہولیات سے خالی تھے۔ سیلاب کب کا گزر چکا تھا مگر چاروں طرف کھڑے پانی نے نئی مشکلات پیدا کر دی تھیں۔
ہر صبح ایک ڈاکٹر وین میں آتا تھا۔ مریضوں کی تعداد اور گندگی اس ڈاکٹر کی برداشت سے بھی باہر ہوتی جا رہی تھی۔ بدبو سے بھرے لوگ اس پر گرے جا رہے تھے۔ دو کمپوڈر لوگوں کو ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے مگر مریض بہت تھے۔
"ڈاکٹر صاب۔۔ میرا بچہ کل سے الٹی موشن کر رہا ہے۔۔ " ایک عورت اپنے گندے غلیظ بچے کو لے کر اس کے سر پر کھڑی تھی۔ مکھیاں اس بچے کے منہ ناک اور آنکھوں میں بے تکلفانہ انداز میں آ نا جانا کر رہی تھیں۔
"او بی بی۔۔ کالرا ہو گیا ہے اس کو۔۔ ان مکھیوں سے بچاؤ۔۔ صاف ستھرا رکھو اسے۔۔ ابلا ہوا پانی دو۔۔ یہ گندہ پانی مت دو۔۔ " ڈاکٹر نے چڑ کر اسے ہدایت دی اور عورت سوچ میں گم کھڑی رہ گئی "ابلا پانی کہاں سے لاؤں؟ یہاں تو بس یہ کالا گندہ پانی ہی ہے"۔
ایک درخت کے گردکچھ چار پائیوں پر لوگوں کو ڈرپس لگا دی گئیں۔ ڈرپس درخت کی شاخوں سے بندھی تھیں۔
آج اتنے مریض دیکھ کر ڈاکٹر کا پارہ چڑھ گیا۔ وہ چلا کر بولا "سیلاب گزر گیا ہے۔۔ مگر تم لوگ اب تک یہیں پڑے ہو۔۔ ارے بابا اپنے اپنے گاؤں جاؤ۔۔ اپنے گھر مکان ٹھیک کرو۔۔ مگر تم لوگ تو یہاں پکنک منا رہے ہو۔۔ نہ کام نہ دھندہ۔۔ بیٹھے بیٹھے کھانے کو مل رہا ہے۔۔ کپڑے مل رہے ہیں۔۔ دوا دارو مل رہی ہے۔۔ تم کیوں جاؤ گے واپس۔۔ "
خدا بخش ہمت کر کے آگے آیا اور بولا "ڈاکٹر صیب۔۔ گھر جا کر کیا کرے؟ سب تباہ ہو گیا ہے۔۔ ہمارے پاس پیسے بھی نہیں ہیں۔۔ کیسے ٹھیک کرے؟ یہاں اس لئے پڑا ہے کہ حکومت کچھ مدد امداد کر دے گی۔۔ گھر چلا گیا تو بھوکا مر جائے گا۔۔ کوئی آ کر نہیں دیکھے گا۔۔ "
ڈاکٹر کو کھا جانے والی نظروں سے خدا بخش کو دیکھا اور بولا "ہاں تو پڑے رہو یہاں۔۔ کیمپ میں گندگی کی وجہ سے بیماریاں پھوٹ رہی ہیں۔۔ پانی میں مچھر اور جراثیم پیدا ہو رہے ہیں۔۔ آہستہ آہستہ سب بیمار ہو جاوگے۔۔ امداد کے چکر میں جان دے دو۔۔ حکومت دوا بھی پوری نہیں دے رہی۔۔ تمہیں امداد کیا دے گی۔۔ مرو یہاں۔۔ مجھے کیا!"
وہ تن فن کرتا وین میں بیٹھا اورچلا گیا۔
مریض اپنی اپنی جگہ جا کر لیٹ گئے۔ ان میں طیبہ بھی شامل تھی، شدید بخار سے اس کی روح تک جھلسی جا رہی تھی۔ اس حالت میں اسے پانچ دن ہو چکے تھے۔۔ جسم کی ساری توانائی ختم ہو چکی تھی۔ نقاہت ایسی کہ پلکیں نہ کھولی جائیں۔
آنکھوں کے پیچھے تو ایسا درد تھا کہ دل کرتا ان آنکھوں کو ہی نکال پھینکے۔ جسم کا پٹھا ہرجوڑاپنے جگہ چھوڑ رہا تھا۔ سانس یوں کھنچ کر آتی گویا کوئی سینے پر چڑھ کر بیٹھ گیا ہے، اس تو پتہ نہ چلا پر کل خالدہ نے دیکھ لیا کے ساری جسم پر لال دھبے بن رہے ہیں۔
ڈاکٹر کہتے خون کے سفید ذرے کم ہو گئے ہیں۔۔ بھلا خون میں سفید ذرے کہاں سے آئے، خون تو لال ہوتا ہے۔۔ " وہ نیم بے ہوشی میں سوچتی۔
کبھی ایسی سردی چڑھتی کہ وہ ٹھٹھرنے لگتی۔ خالدہ روتے ہوئے لوگوں سے چادریں مانگ کر اس پر ڈالتی۔ وقت ہی ایسا تھا، سب بے سرو سامان تھے، سیلاب نے سب کچھ چھین لیا تھا۔
ڈاکٹر کی ناراضگی طیبہ کو کافی بھاری پڑ رہی تھی۔ بخار کی شدت آج حد سے سوا تھی۔ طیبہ کی بڑی بہن نے اس کو ماتھا چھوا اور بولی "امی اس کا بخار تو بڑھتا جا رہا ہے۔۔ پانی کی پٹیاں رکھ دوں؟"
خالدہ سر پکڑے بیٹھی تھی۔ ایک نظر اٹھا کر دونوں بیٹیوں کو دیکھا اور بولی "رکھ دو۔۔ اب اور کیا کریں؟"
ٹھنڈے پانی کی پٹی ماتھے پر پڑی تو طیبہ کو جھر جھری سی آ گئی۔ "امی گھر چلو۔۔ امی گھر۔۔ " وہ ایک ہی بات بولے جا رہی تھی۔ رات تک طیبہ کی حالت تشویش ناک ہو چکی تھی۔ خالدہ کا دل سینے سے نکلا جا رہا تھا۔
"کچھ کرو جمال! لڑکی بہت بیمار ہے۔۔ بہت تکلیف میں ہے۔۔ " وہ ہاتھ مل مل کر اپنی شوہر سے کہہ رہی تھی۔
"کیا کروں؟" جمال خود بھی اس کا حال دیکھ کر پریشان تھا۔
بے بسی سی بے بسی تھی! یوں لگتا تھا کسی نے ہاتھ پاؤں باندھ کر اندھے کنویں میں پھینک دیا ہے۔
"آج تو ڈاکٹر بھی ناراض ہو کر چلا گیا۔۔ اب دیکھو کل آتا بھی ہے کہ نہیں۔۔ "
خالدہ بولی "وہ آئے بھی تو کیا؟ اس کے پاس کوئی دوا نہیں ہوتی۔۔ سب کو ایک جیسی گولیاں دے جاتا ہے۔۔ "اس کو شہر لے چلو جمال۔۔ یہاں یہ مر جائے گی۔۔ "
"کل دیکھتا ہوں کوئی گاڑی مل جائے۔۔ تو۔۔ لے چلیں گےشہر بھی۔۔ " جمال نے خالدہ کی تسلی کے لئے کہہ تو دیا مگر وہ ابھی سے مایوس نظر آ رہا تھا۔ سوچوں میں گم تھا۔
"شہر میں علاج مفت نہیں ہے۔۔ سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر نہیں ملتا۔۔ جان بچانے والی کوئی دوا نہیں ملتی۔۔ پرائیویٹ اسپتال میں انسانیت نہیں ملتی۔۔ شہر لے جا کر بھی کیا ہو گا؟" احساس جرم اس کو مارے دے رہا تھا۔
"کیسا باپ ہوں میں؟ درد سے تڑپتی بیٹی کو ایک گولی نہیں لا کر دے سکتا۔۔ "
"امی گھر۔۔ گھر۔۔ " طیبہ کی زبان سوکھ کر لکڑی ہو چکی تھی۔
گرم سانسوں نے اس کے ہونٹ تک جلا ڈالے تھے۔ خالدہ نے چمچ سے پانی اس کے منہ میں ڈالا اور اس کے تپتے رخساروں کو چوم کر بولی "بس میری بیٹی۔۔ آج کی بات ہے۔۔ کل میں اپنے بیٹی کوشہر لے کر جاؤں گی۔۔ اچھے سے ڈاکٹر کو دکھاؤں گی۔۔ "
طیبہ کے جلتے کانوں کو ممتا بھری ٹھنڈی سر گوشیاں اچھی لگ رہی تھیں۔۔ ڈوبتے ذہن میں ماں کے الفاظ کہیں چسپاں ہوتے جا رہے تھے۔
"اپنی بیٹی کو ایک گڑیا بھی دلاؤں گی۔۔ بس آج ہمت کر لے۔۔ کل سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ " مگر وہ کل کبھی آ نہ سکی۔
طیبہ کا ننھا سا وجود بخار کے عفریت کو مزید نہ جھیل پایا۔ درد حد سے گزرا تو قدرت نے اس کو اپنی پناہ میں لے لیا۔
خالدہ کی چیخیں کیمپ میں گونجنے لگیں۔
" جاؤ۔۔ سب چلے جاؤ۔۔ اپنے اپنے گھر جاؤ۔۔ یہ کیمپ نہیں قبرستان ہے۔۔ سب مر جائیں گے یہاں۔۔ میری بچی کی طرح گھر کو پکارو گے۔۔ مگر کبھی پہنچ نہیں پاؤ گے۔۔ "
ہر آنکھ نم تھی، خوف و ہراس کا عالم تھا۔
خالدہ اپنی بیٹی طیبہ کا مردہ جسم اٹھائے چلی جا رہی تھی۔
"چل طیبہ۔۔ گھر چلیں۔۔ اپنے گھر۔۔ "
٭٭٭