Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Selab Kahani, Bara Afsos Hua

Selab Kahani, Bara Afsos Hua

سیلاب کہانی، بڑا افسوس ہوا

"یار بڑا برا حال ہے۔۔ "

ایک نےکہا

"دیکھو بے چارے کیسے کھانے کے لئے لڑ رہے ہیں۔۔ "

دوسرا بولا

"تچ تچ۔۔ اتنا برا وقت ہے۔۔ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔۔ "

دوستوں کا وہ گروپ سیلاب زدگان کی ویڈیو دیکھ رہے تھا۔ جس میں بھوکے پیاسے لوگ کھانے اور پانی کے لئے ایک دوسرے کے بال نوچ رہے تھے۔۔ کپڑے پھاڑ رہے تھے۔۔ اور ویڈیو دیکھنے والے افسوس کر رہے تھے۔

"بڑا افسوس ہوتا ہے۔۔ ہاں بڑے افسوس کی بات ہے۔۔ "

اسی وقت ویٹر نے آ کر مینو ان کی طرف بڑھایا۔ موبائل چھوڑ کر سب مینو کی طرف لپکے، بھوکے پیاسے سیلاب زدگان کو بھول کر کھانا آرڈر کرنے میں مگن ہو گئے۔ سب نے اپنی اپنی پسند کا کھانا آڈر کیا۔۔ خوب پیٹ بھر کر کھایا۔۔ چھیڑ چھاڑ اور دلی لگی نے ان کو شاد کر دیااورایک دوسرے کے ساتھ اچھا ٹائم گزار کر سب ہنسی خوشی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔

سیلاب زدگان کے سامنے ان کی دلی افسوس کے ڈھیر میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مگر وہ یہ افسوس نہ ان کی بھوک مٹا پایا نہ ان کی پیاس مٹا سکا۔

٭٭٭

"یار۔۔ بہت دل دکھتا ہے۔۔ "

ایک بولی

"ہاں نا۔۔ دیکھو۔۔ کیسے کھلے آسمان کے نیچے بے سرو سامان پڑے ہیں۔۔ "

دوسری بولی

"تچ تچ۔۔ عورتوں کے کپڑوں کا حال دیکھو۔۔ کس قدر پھٹے پرانے ہو رہے ہیں۔۔ "

ساری سہیلیاں بہت دن بعد ایک جگہ جمع ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک نے سیلاب زدگان کی ویڈیو موبائل پر دکھانا شروع کر دی۔

افسوس کی وجہ سے سب کے دل اداس ہو گئے۔ عورتوں کی بد تر حالت زار دیکھ کر ان کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔

"بڑا افسوس ہو تا ہے۔۔ جب سیلاب زدگا ن کا یہ حال دیکھتی ہوں تو میرا دل رونے لگتا ہے۔۔ پریگنینٹ عورتیں ہیں۔۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔۔ نہ کپڑے ہیں۔۔ نہ پوری خوراک۔۔ بڑا افسوس ہوتا ہے۔۔ "

"ہاں بہت زیادہ افسوس ہوتا ہے۔۔ " باقی سب نے بھی تائید کی

اچانک کسی کے مو بائل کی نوٹیفیکیشن بیل بجی۔

"چلو۔۔ چلو۔۔ سیل آن ہو گئی ہے۔۔ "

ان میں سے ایک جلدی سے کھڑی ہوئی تو باقی بھی جھٹ پٹ کھڑی ہو گئیں۔ موبائل پرس میں چلا گیا وہ بولیں

"ہاں۔۔ ہاں جلدی چلو۔۔ ورنہ اچھے اچھے سوٹ ختم ہو جائیں گے۔۔ "

سب سہیلیاں ہنستی بولتی برانڈڈ کپڑوں کے بڑے سے آؤٹ لیٹ میں داخل ہوئیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک جدید اور خوبصورت ملبوسات تھے۔ سیل میں بھی ان کی قیمتیں ہزاروں روپے تھی۔ سب نے دل کھول کر شاپنگ کی۔ کئی کئی ہزار کے سوٹ خرید ڈالے۔ اپنی پسند کی ڈھیر ساری شاپنگ نے ان کی طبعیتوں پر بڑا اچھا اثر ڈالا۔ سب کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ وہ سب شاپنگ بیگس تھامے ہنسی خوشی اپنے اپنے گھر لوٹ گئیں۔

سیلاب زدگان نے ان کے دلی افسوس کو اوڑھنے کی کوشش کی مگر یہ دلی افسوس نہ ان کے تن ڈھک سکا نہ زخم بھر سکا۔

٭٭٭

"یار۔۔ یہ دیکھو۔۔ کیا حال ہوا ہے بے چاروں کا۔۔ "

ایک نے سیلاب زدہ بچوں کی تصویریں اپنے بچوں کے سامنے کرتے ہوئے کہا

"تچ تچ تچ۔۔ دیکھو تو بچے کیسے رو رہے ہیں۔۔ بے چارے بھوکے ہیں۔ پیاسے ہیں۔۔ "

"بابا۔۔ کوئی ان کی مدد کیوں نہیں کرتا ہے؟"

بابا بولے "بس بیٹے۔۔ حکومت نااہل ہے۔۔ عوام مر رہی ہے مگر ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ بڑا افسوس ہوتا ہے یہ سب دیکھ کر۔۔ "

"بابا نیکسٹ منتھ میری برتھ ڈے ہے۔۔ اس بار ہم فائیو اسٹار ہوٹل میں برتھ ڈے سیلی بریٹ کریں گے۔۔ "، اچانک بچے کو اپنی سالگرہ یاد آ گئی۔

"اور ہم بڑے سنگرز کو بھی بلائیں گے۔۔ بہت مزہ آئے گا۔۔ "

بابا نے موبائل ایک طرف رکھا اور بولے "ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔ اس سال ہم شہر کے بہترین ہوٹل میں ارینجمنٹ کریں گے۔۔ "

پھر ممی بابا اور بیٹا سالگرہ کے ارینجمنٹ کے بارے میں دیر گئے تک بات چیت کرتے رہے۔ اخراجات کا تخمینہ کئی لاکھ لگایا گیا مگر کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ اکلوتا بیٹا ہے۔ سال میں ایک بار ہی تو سالگرہ آتی ہے۔ ماحول ہلکا پھلکا ہوگیا۔ ہنسی مذاق اور خوشی سے کمرے کی یخ فضا مزید خوشگوار ہو گئی۔

سیلاب زدگان دلی افسوس کے بڑھتے ہوئے ڈھیر کو بے بسی سے تکتے رہے۔ اس دلی افسوس نے نہ ان کے بچوں کے دکھ کم کئے نہ ان کے آنسو پونچھے۔

٭٭٭

"دیکھو تو یار۔۔ کیا حال ہو رہا ہے ان کا۔۔ "

ایک نے سیلاب زدگان کی ویڈیو باقی دوستوں کے سامنے کردی۔

سب دکھ بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔۔

"تچ تچ تچ۔۔ بڑا افسوس ہوتا ہے یار۔۔ "

ایک نے کہا

"لوگوں کی لاشیں کیسے کیچڑ میں پھنسی ہوئی ہیں۔۔ "

بڑا افسوس ہوتا ہے۔۔ "

دوسرے نے کہا

"ہاں یار ایک بچے کی لاش کی تصویر دیکھی تھی۔۔ وہ کیچڑ میں پھنسا ہوا تھا۔۔ ہاتھ ایسے اوپر اٹھائے ہوئے تھے جیسے بچہ گود میں آنے کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہے۔۔ "

سب کو دلی افسوس ہوا۔

اچانک ان میں سے کسی کو ایک خیال آیا۔

"یار۔۔ پاکستان کے شمالی علاقےتو ابھی بند ہیں۔۔ اس مرتبہ ٹور پر پاکستان سے باہر کہیں چلتے ہیں۔۔ "، سب اس کی طرف توجہ ہو گئے۔

"ترکی چلتے ہیں۔۔ وہاں کافی اچھے پوائنٹس ہیں۔۔ "

ماحول جوش اور جذبے سے بھر گیا۔ سب اپنی اپنی رائے دینے لگے۔ پچھلے سال کے ٹور کی باتیں کر تے ہوئے وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئے جا رہے تھے۔

"بس ڈن ہو گیا۔۔ اس سال ہم ٹرکی جائیں گے۔۔ "

سب نے تائید کی سامان سے لے کر سفر تک اور قیام سے لے کر خوبصورت مقامات تک ہر چیز پر سیر حاصل بات چیت ہونے لگی۔

سیلاب زدگان کے لاشیں ان کے دلی افسوس کو دلی افسوس کے ساتھ دیکھنے لگیں۔ ان خوش باش دوستوں کا دلی افسوس سیلاب میں مرنے والوں کے لئے نہ کفن بن پایا نہ گور۔

٭٭٭

"آٹھ ہزار تین سو بیس روپے۔۔ "

مکینک کے چھوٹے نے اپنی مہینے بھر کی آمدنی اور بچت گنی۔

"اس میں سے پانچ ہزار امی کو دوں گا۔۔ تین سو بیس روپے خود رکھوں گا اور تین ہزار سیلاب کی امدادی فنڈ میں دے دوں گا۔۔ "

"تین سو بیس روپے میں پورا مہینہ گزار لو گے؟"دوسرے چھوٹے نے پوچھا

"میرے سیلاب زدہ بھائی بہن بالکل خالی ہاتھ اپنا مہینہ گزار رہے ہیں۔۔ میرے پاس تو پھر بھی تین سو بیس روپے ہوں گے۔ "

صرف زبانی افسوس کرنے کے بجائے چھوٹے نے عملی قدم اٹھایا۔۔ جانتا تھا کہ یہ بہت معمولی رقم ہے مگر جتنا وہ کر سکتا تھا۔۔ اتنا تو اس نے کر ہی دیا۔ اس نے اپنے گریس سے کالے ہو چکے ہاتھوں سے امدادی باکس میں تین ہزار روپے ڈال دئے۔

سیلاب زدگان کے لئے اس کے تین ہزار اتنے خیر و برکت والے ثابت ہوئے کہ ان میں سے کئی کی بھوک مٹ گئی کئی کی پیاس بج گئی۔

٭٭٭

"جی جی آپ کے کپڑے بالکل تیار ہیں۔۔ "

زبیدہ درزن نے کپڑوں کے دو شاپر اٹھا کر اپنی کسٹمر کے سامنے رکھے۔

"اس میں آپ کے سلے ہوئے کپڑے ہیں اور اس میں بچے ہوئےکپڑے کے ٹکڑے ہیں۔۔ "

کسٹمر کو اپنے سلے ہوئے کپڑے دیکھنے کی جلدی تھی۔ مگر زبیدہ درزن کا دھیان بچے ہوئے کپڑے کے ٹکڑوں پر تھا۔

"آپ سے ایک ریکوئسٹ ہے۔۔ یہ بچے ہوئے کپڑے کے ٹکڑے آپ مجھے دے دیں۔۔ "

کسٹمر حیرت سے بولی "آپ ان کا کیا کریں گی۔۔ آپ کے بچے تو ماشااللہ بڑے ہو گئے ہیں۔۔ ان سے تو چھوٹے بچوں کے کپڑے بنتے ہیں۔۔ "

زبیدہ درزن بولی "جی۔۔ میرے بچے بڑے ہو گئے ہیں۔۔ مگر میری سیلاب زدہ بہنوں کے بچے چھوٹے ہیں۔۔ میں ان بچوں کے کپڑے سی دوں گی۔۔ "

کسٹمر اس کا جذبہ دیکھ کر متاثر ہوئی اور بچے ہوئے کپڑے اس کو دے دیئے۔ زبیدہ غریب بیوہ عورت تھی۔ جانتی تھی کہ اس کے یہ چند کپڑے سیلاب زدگان کے لئے ناکافی ہیں۔۔ مگر صرف افسوس کرنے کے بجائے اس کی عملی قدم اٹھا۔۔ چھوٹا سا ہی سہی۔

زبیدہ نے اپنے پاس رکھے سارے بچے ہوئے کپڑے کے ٹکڑوں سے ڈھیر ساری چھوٹے بڑے سوٹ اور فراکیں سی دیں۔ خوب صورت ڈائزننگ کی اور کئی خوش رنگ لباس بنا ڈالے۔ پھر بڑی محبت سے ان کو تہہ کیا۔ ایک کارٹن میں جما جما کر رکھا اور سیلاب زدگان کے لئے امداد جمع کرنے والے ایک گروپ تک وہ کارٹن پہنچا کر آئی۔

اس کے چھوٹے سے کارٹن میں رکھے چند کپڑے کئی بچوں کے تن کی زینت بنے۔ امدادی کیمپ میں مقیم درماندہ ماؤں کے چہرے پر مسکراہٹ پیدا کرنے میں کام یاب ہو گئے۔

٭٭٭

"آج کی پھیری آخری پھیری تھی۔۔ کل سے میں نہیں آؤں گا۔۔ "

گل خان اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ سب کئی کئی کلو وزن کاندھوں پر اٹھائے سارا دن گلیوں میں پھیری لگا کر سامان بیچتے تھے۔

"کیوں۔۔ کل سے تم کیوں نہیں آؤ گے؟"

"کل میں سیلاب زدہ علاقوں میں چلا جاؤں گا۔۔ وہاں جو لوگ پانی میں پھنسے ہیں ان کی مدد کروں گا۔۔ "

گل خان نے بڑے جذبے سے کہا

"اور یہ پھیری کا کام۔۔ اس کا کیا ہوگا؟"

کسی نے پوچھا

"کام تو ہوتا ہی رہتا ہے یار۔۔ ابھی میرے بھائی بہنوں کو میری ضرورت ہے۔۔ ابھی ان لوگوں کا سوچو جو پانی میں پھنسے ہیں۔۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔۔ ان کو میری ضرورت ہے۔۔ "

باقی پھیری والوں میں سے تین اور لوگ اس کے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوگئے۔

وہ جانتے تھے کہ تباہی بہت بڑی ہے۔۔ اور ان کی کوشش بہت چھوٹی۔۔ مگر محض افسوس سے اس تباہی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔۔ اس وقت عمل کی ضرورت ہے۔۔ لہذا اگلے ہی دن وہ سب سیلاب زدہ علاقوں کی طرف چل پڑے۔

چند دوستوں کے اس گروہ نے کئی لوگوں کی جانیں بچالیں۔۔ کئی کئی دن سے پھنسے لوگوں کو نکال کر کیمپ تک پہنچایا۔۔ کئی زندگیاں ان کی وجہ سے بے بسی کی موت سے بچ گئیں۔

٭٭٭

Check Also

Qomon Ke Shanakhti Nishan

By Ali Raza Ahmed