Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Selab Kahani, Aapa

Selab Kahani, Aapa

سیلاب کہانی، آپا

"آپا۔۔ گھر جب جائیں گے؟"

"آپا۔۔ امی کب آئیں گی؟

"آپا۔۔ بھوک لگی ہے؟

"آپا۔۔ پانی پینا ہے؟

" آپا۔۔ امی پاس جانا ہے؟

راحیلہ ہر بار ننھے ننھے بہن بھائیوں کو گلے لگا کر رو پڑتی۔ کچھ منظر ایسے ہوتے ہیں جو آنکھوں میں جم جاتے ہیں۔ کچھ منظر آنکھوں سے چسپاں ہو جاتے ہیں اور باہر کی دنیا کا کوئی منظر نظر نہیں آتا۔

ایسا ہی منظر راحیلہ کی آنکھوں سے چسپاں ہو چکا تھا۔

٭٭٭

انیس راحیلہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔

ماں کی ہم دم۔۔ دست راست، ہر کام میں معاون۔

راحیلہ کی ماں کہا کرتی تھی "یہ ان بچوں کے حق میں ایسی ہی ہے جیسے میں ہوں۔۔ "

اور یہ سچ بھی تھا۔ راحیلہ کے دل میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لئے ایسی ہی الفت تھی جیسی ایک ماں کے دل میں اپنے بچوں کے لئے ممتا ہوتی ہے۔

ہر بچے کی پیدائش پر راحیلہ نے گھر سنبھالا تھا۔ کم عمری میں ہی ماں کے ساتھ مل کر نوزائیدہ کی دیکھ بھال میں ہاتھ بٹایا تھا۔

وہ پیدائشی ماں تھی۔۔ ممتا سے لبریز۔

٭٭٭

"راحیلہ ان کا خیال رکھنا۔۔ دیکھ تو بڑی ہے۔۔ ان کونظروں کے سامنے رکھنا۔۔ مجھے تجھ پر پورا بھروسہ ہے۔۔ بس میں اور تیرے بابا کچھ ہی دن میں آجائیں گے۔۔ "

سیلاب کی وراننگ جاری ہوچکی تھی۔ مگر گھر۔۔ ساز و سامان قدم جکڑے ہوئے تھا۔

راحیلہ کے ماں باپ گھر اور دکان کا زیادہ سے زیادہ سامان محفوظ مقام پر پہنچانا چاہتے تھے۔ لہذا فیصلہ ہوا کہ راحیلہ کے ساتھ تمام بچوں کو سیلاب کیمپ پہنچا دیا جائے۔ ماں باپ یہاں رہ کر سیلاب سے سامان کو بچائیں۔

ماں بڑی دیر تک راحیلہ کو سینے سے لگائے کھڑی رہی۔ پھر باری باری ہر بچے کو چوما۔ باپ نے ہر بچے کو راحیلہ کی بات ماننے کی ہدایت دی۔۔ مل کر رہنے کا سبق دیا۔ سب سے چھوٹا محض تین سال کا تھا۔

ماں کا سب سے لاڈلا بچہ۔۔ اس کو گلے لگا کر ماں رو پڑی۔۔ راحیلہ نے آگے بڑھ کر تسلی دی تو ماں بولی "مجھے پتہ ہے راحیلہ۔۔ تو میری ہی طرح ا ن کا ایسے ہی خیال رکھے گی۔۔ "

باپ نے راحیلہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا "اللہ تجھے خوش رکھے۔۔ "

راحیلہ نے ماں باپ کی طرف دیکھا۔۔ دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔ دونوں بڑی امید سے راحیلہ کو تک رہے تھے۔۔ ان آنکھوں میں جلتے امید کے دئیے راحیلہ کے ذہن پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہو گئے۔

اس لمس۔۔ اس بوسے اوراس دعا کے بعد راحیلہ نے ماں باپ کو کبھی نہ دیکھا۔۔ گھر مکان۔۔ سازو سامان کو بچاتے بچاتے راحیلہ کی جنت ڈوب گئی۔ روزگار کی حفاظت کرتے کرتے راحیلہ کا سائبان تند ریلوں میں بہہ گیا۔

راحیلہ محض انیس سال کی عمر میں چار بچوں کی ماں بن گئی۔

٭٭٭

"یہ کون ہے؟"

راحیلہ نے تیسرے نمبر والی بہن سے پوچھا

"آپا۔۔ یہ وہاں کھڑارو رہاتھا۔۔ میں ساتھ لے آئی۔۔ "

راحیلہ نے اس پانچ چھ سالہ بچے کا ہاتھ پکڑ کر اس کو خود سے قریب کیا اور پوچھا

"کیوں رو رہے ہو؟ امی کہاں ہیں تمہاری؟"

بچہ اور شدت سے رونے لگا اور بمشکل بولا "امی بہہ گئی۔۔ "

الفاظ نہیں خنجر تھے۔۔ راحیلہ کا کلیجہ چر گیا۔ اس نے بے ساختہ بچے کو گلے لگا لیا۔ اب راحیلہ کے پاس چھ بچے تھے۔

٭٭٭

"آ پا۔۔ مجھے بچا لو۔۔ " رات کا نجانے کون سا پہر تھا۔ کسی نے راحیلہ کی چادر میں گھس کر کہا۔

راحیلہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی۔ "کون۔۔ کون ہے؟"

کوئی چھوٹی سی بچی تھی۔۔ ڈری سہمی۔۔ خوف سے کانپتی ہوئی۔۔

"آپا۔۔ آپا وہ گندے لوگ۔۔ گندے لوگ۔۔ وہ میری شلوار اتار۔۔ آپا آپا۔۔ " بچی خوف سے بول نہیں پا رہی تھی۔

راحیلہ نے اسے چادر کے اندر چھپا کر خود سے لپٹا لیا۔ خوف سے راحیلہ کو رواں رواں کانپ رہا تھا۔ خیمے کے باہر بھاگ دوڑ سی تھی۔۔ تیزی سے سمت بدلتی موبائل ٹارچ کی روشنی تھی۔۔ راحیلہ اس بچی کو خود سے لپٹائے دم سادھے لیٹی رہی۔

ڈھونڈنےوالے کسی اور سمت میں مڑ گئے۔ اب را حیلہ کے پاس سات بچے تھے۔

٭٭٭

"ارے بہن ہمارے اپنے بچے بھوکے ہیں۔۔ ان کا دودھ پورا نہیں پڑتا۔۔ کسی اور کے بچے کو کیا دودھ پلائیں گے۔۔ "

کیمپ میں کسی عورت کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی۔ ولادت کے دوران ماں کا انتقال ہو گیا۔ اللہ کی قدرت بچہ ان نامساعد حالات میں بھی صحیح سلامت دنیا میں آن موجود ہوا۔ اللہ کا بھیجا ہوا اب بندوں کے رحم و کرم پر تھا۔

کیمپ میں ڈھیروں مائیں تھیں۔۔ مگر وہ محض اپنے جنے ہوئے بچوں کی ماں تھیں۔۔ ان کے لئے اپنا بچہ سب سے اہم تھا۔۔ ایک اور بچے کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے کوئی تیار نہ تھا۔

راحیلہ کے کانوں میں جب اس بچے کے رونے کی آواز گئی تو وہ خود کو روک نہ پائی۔ اس نے لپک کر بچے کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔

"ارے۔۔ کنواری لڑکی۔۔ اس بچے کو کیسے رکھے گی؟" کچھ دیر پہلے جو عورتیں بچے کو ہاتھ لگانے کی روا دار نہ تھیں۔ یک دم راحیلہ کی ٹھیکیدار بن بیٹھیں۔

"میں کنواری ہوں۔۔ تم سب تو ماں ہو۔۔ پھر بھی اس کا رونا تمہیں کیوں نہیں سنائی دیا۔۔ اس کو میں نہیں۔۔ اس کا رب پالے گا۔۔ میں تو محض دیکھ بھال کروں گی۔۔ "، اب راحیلہ کے پاس آٹھ بچے تھے۔

٭٭٭

راحیلہ کو ہر بچہ اپنا بچہ لگنے لگا۔

سیلاب میں لوگوں کے مال مویشی بہے، ساز و سامان تہہ آب گئے، کھیت کھلیان گھر مکان ڈوب گئے۔ مگر سب سے بڑا نقصان ان بچوں کا ہوا جن کے ماں یا باپ اس سیلاب کی نذ ہوئے۔

غربت کے مارے لوگ یتیم بچوں کی کیا پرورش کرتے۔۔ ان کے اپنے بچے ننگے بھوکے تھے۔ مگر راحیلہ کی ممتا وسیع سے وسیع تر ہوتی جا رہی تھی۔ رفتہ رفتہ وہ کیمپ میں بچوں والی آپا کے نام سے مشہور ہونے لگی۔

ہر بھٹکا ہوا۔۔ تنہا بچہ راحیلہ کے کیمپ کا حصہ بننے لگا۔ یہ ڈرے سہمے بچے راحیلہ کے گرد یوں بیٹھے رہتے گویا وہ ان کا آخری سہارا ہے۔۔

٭٭٭

"یہ سارے بچے اس کے ہیں؟"

کاشف نے حیرت سے خیمے کے اندر دیکھا جہاں ایک اٹھارہ انیس سالہ لڑکی ایک نوزائیدہ بچے کو گود میں لئے بیٹھی اور اس کے اردگرد مزید چھ آٹھ بچے حلقہ بنائے بیٹھے تھے۔

کاشف اور اس کے چند دوستوں ہے نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک چھوٹی سی تنظیم بنائی تھی جس کا مقصد سیلاب زدگان کی مدد کرنا تھا۔ کم وسائل کے باجود ان کی ہمیتیں جواں تھیں۔ وہ امدادجمع کرنے سے مستحقین تک پہنچانے کا تمام کام بخوشی کر رہے تھے۔

کاشف نے تنہا زندگی گزاری تھی۔ ماں کا چہرہ تو کبھی دیکھا ہی نہیں۔ باپ بھی چند سال پہلے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ مالی آسودگی تو حاصل تھی مگر تنہائی سوہان روح تھی۔ اور اسی تنہائی کو کار آمد بنانے کے لئے اس نے اس تنظیم کی بنیاد ڈالی تھی۔

آج وہ جس کیمپ میں امداد دینے آئے تھے اس کے ایک خیمے کے اندر کا منظر دیکھ کر اس کو حیرت ہو رہی تھی۔

"اتنی سی لڑکی کے اتنے سارے بچے!" مگر جلد ہی اس کو بچوں والی آپا کی کہانی معلوم ہوگئی۔

"تم اتنے سارے بچوں کی خوراک دیکھ بھال کیسے کر لیتی ہو؟ یہ چھوٹا تو کچھ کھا پی بھی نہیں سکتا۔۔ یہاں اس کے لئے دودھ وغیرہ کہاں سے لاتی ہو؟"

راحیلہ کے چہرے پر الوہی نور تھا وہ مسکرا کر بولی "جس رب کے یہ بندے ہیں۔۔ ان کی بھوک پیاس بھی وہ ہی مٹاتا ہے۔۔ آپ جیسے لوگ ان کے کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ دے ہی جاتے ہیں۔۔ پیچھے خیمے میں ایک آدمی کے پاس بکری ہے۔۔ اس بچے کے لئے دودھ وہاں سے آتا ہے۔۔ انسان بھوک سے ڈرتا ہے۔۔ جب کہ رزق کا وعدہ تو خدا کرچکا ہے۔۔ "

وہ اس لڑکی کے جذبے سے بہت متاثر ہوا۔ ہمت و جوان مردی میں وہ مردوں سے آگے نکل گئی تھی۔

محض انیس سال کی عمر میں اس نے اتنے سارے بچوں کی ذمہ دار بخوشی اٹھالی۔ گھر واپس آ کر بھی کاشف اسی کے بارے میں سوچتا رہا۔

٭٭٭

"میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔ "، کاشف نے براہ راست راحیلہ سے بات کی۔

" کیا؟" راحیلہ حیرا ن رہ گئی۔۔

"ہاں۔۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔ اس لئے نہیں کہ مجھے تم سے محبت ہے۔۔ میں کسی بھی خوبصورت پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کر سکتا ہوں۔۔ مگر مجھے ایک درد مند دل رکھنے والی ساتھی کی ضرورت ہے۔۔ میں ان بے سہار بچوں کو سہارا دینا چاہتا ہوں۔۔ ماں باپ کو کھونے کا دکھ کیا ہوتا ہے۔۔ جانتا ہوں۔۔ میں ایک ایسا دارہ بنانا چاہتا ہوں جہاں بن ماں باپ کے بچوں کو رکھا جائے۔۔ "

٭٭٭

متاثرین کے کسی کیمپ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ ایسے کیمپوں میں تو دکھ ہی دکھ ہوتے ہیں۔۔ مگر اس کیمپ میں آج خوشی اتری تھی۔۔

کل تک جو بچے آپا کی ممتا تلے زندگی گزار رہے تھے آج انھیں بھیا کا سائبان مل گیا تھا۔

٭٭٭

Check Also

Quwat e Iradi Mazboot Banaiye

By Rao Manzar Hayat