Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Salman Ki Dulhan

Salman Ki Dulhan

سلمان کی دلہن

اسلام آباد میں واقع ایک حسین پارک جو کہ قدرتی نظاروں سے مالا مال ہے اور یہ نظارے دل موہ لیتے ہیں۔ آج کل یہاں کچھ اور ہی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ نظارے دل موہ لینے کے بجائے دل کو کبیدہ خاطر کر دیتے ہیں۔ یہ نظارے ہیں دلہنوں کے، نظارے میک اپ سے آراستہ سجی سنوری دلہنیں، کبھی تنہا تو کبھی دلہا میاں کے ہمراہ، ایک عدد فوٹو گرافر کے اشاروں پر بیٹھ، لیٹ، کھڑی ہو رہی ہوتی ہیں۔ دل عجیب سا ہو جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں دلہن کا عجیب ہی سحر ہوا کرتا تھا۔

شرمائی لجائی چھوئی موئی کوئی بیلےکی نازک کلیوں جیسی، جب دلہن آتی تو اس پر گلاب کی پتیاں و کلیاں برسائی جاتیں، پھر اسی عزت و احترام کے جلو میں جب گھر میں داخل ہوتی تو گھر کی بزرگ خاتون اس کا گھونگٹ بڑے ہی اکرام و پروٹوکول کے ساتھ اٹھاتی تھیں۔ ہم آگے گھس گھس کر قریب سے دیکھنے کی کوشش کرتے۔ اور مجھے یاد ہے کہ گھنٹوں دیکھ دیکھ کر دل نہیں بھرا کرتا تھا۔ پھر کئی کئی دن تک اس کا یہ احترام برقرار رکھا جاتا۔ اس کم گو اور نازک پری کی شرمیلی نگاہوں کے اشاروں پر گھر بھر واری ہوتا رہتا۔ میرے دل میں آج بھی دلہن کا وہی احترام ہے۔

یہاں اسلام آباد میں، پارک میں بیٹھے مجھے ماضی کے پردوں میں چھپی وہ دلہنیں بہت یاد آ رہی ہیں۔ کہ یہاں ہر تھوڑی دیر بعد گھاس، جھاڑیوں کے درمیان سے اپنا لہنگا خود اٹھائے، سولہ سنگھار کئے زیورات سے لدی پھندی ایک عجیب سی مخلوق گزرتی ہے۔ دونوں ہاتھوں سے کپڑے، پرس و زیورات سنبھالنے کی کوشش میں ہلکان چھمک چھمک چلتی ہوئی، ہوئی اس دلہن کو میں دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کیا کسی مشرقی گھرانے کی دلہن ایسا کر سکتی ہے؟ سر عام دس دس مرتبہ بوس و کنار کے مناظر دہرائے جاتے ہیں۔

یہ کیمرہ و سیاہ چھتری اُٹھائے آدمی، یہ دلہن پر حکم چلا رہے ہیں؟ اسے کندھوں سے چھو کر دائیں بائیں موڑ رہے ہیں؟ میرے کان سنسنانے لگے۔ میں حیرت سے پاس موجود اس کے دلہا کو دیکھ رہی ہوں۔ وہ بت کی طرح ایستادہ بس پوز دے رہا ہے۔ جن آنکھوں، جس چہرے، جس وجود کو اللہ نے قیمتی موتی کی مانند اسے دیا تھا، عام نگاہوں کی گرد سے بچا رکھنے کی ذمہ داری لگائی تھی، سر ِبازار مطمئن کھڑا ہے؟ دلہن کی ماں کو تو کم از کم یہاں ہونا چاہیے مگر وہ تو خود پارلر میں بیٹھی ہو ں گی۔

نکاح ضرور پہلے ہو چکا ہو گا لیکن کچھ معاشرتی تقاضے بھی ہوتے ہیں، پہلے دلہا کن انکھیوں سے دلہن کی طرف دیکھا کرتے تھے، آ نے والے فسوں خیز لمحوں کی چاپ آنکھوں میں دیئے جلاتی تھیں۔ دونوں کے دل ایک لے پر دھڑکتے تھے، منہ دکھائی حقیقت میں منہ دکھائی ہوتی تھی، پہلے آنکھیں کھلیں، پھر گھونگھٹ ہٹا، گھر اور پھر شادی ہالوں میں تصویریں بنائی جانے لگیں اور اب اوپن ایئر فوٹو شوٹ، پتہ نہیں کیا کیا اوپن ایئر ہونا باقی ہے؟

Check Also

Markhor, Vego Aur Jahaz

By Saleem Zaman