Sab Khairiyat Hai
سب خیریت ہے

"اس برف کے ساتھ ساتھ رہ رہ کر اب تو جہنم کی آگ کا ذکر بھی اچھا لگنے لگا ہے۔۔"
نجمہ نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا
خلیل اس کی بات سن کر ہنس پڑا۔
"نہ سلام نہ دعا۔۔ بلکہ کفریہ کلمہ۔۔ خیر تو ہے؟"
"اس برف نے ساری توانائی چوس لی ہے۔۔ ایسا لگتا ہے بدن صرف ایک برف کا ٹکڑا ہے۔۔ بے جان اور سرد۔۔"
تھکاوٹ سے نجمہ کا روُم روُم دُکھ رہا تھا۔
"قصور اس برف کا نہیں وقت کا ہے۔۔ عمر کے اس حصے میں ہر چیز بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔۔ یاد کرو۔۔ جس وقت ہم نئے نئے یہاں آئے تھے اس وقت کتنے پر جوش تھے۔۔ جب جوانی تھی۔۔ خواب تھے۔۔ توانائیاں تھیں۔۔ امریکہ اپرچونیٹیز کا سمندر لگتاتھا۔۔ اب تو کشتیاں کناروں سے لگنے والی ہیں۔۔"
[کشتیوں کو آخر کار کناروں پر آنا ہی ہوتا ہے]
خلیل نے بھاپ اڑاتی کافی کا مگ نجمہ کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔
"خلیل۔۔ اگر ہم پاکستان میں ہوتے تو ہمارے سب بچے اس وقت ہمارےآس پاس ہوتے۔۔ چاروں طرف کبھی دادا۔۔ دادی۔۔ کبھی نانا نانی کی صدائیں ہوتیں۔۔ یہ سناٹا تو نہ ہوتا۔۔"
نجمہ آزردہ ہوگئی۔
"یہ ہی زندگی ہے۔۔ پاکستان میں تھے تو لگتا تھا جوانی برباد ہو رہی ہے۔۔ جوائن فیملی سسٹم ہمیں ذہنی مریض بنا رہا ہے۔۔ اب امریکہ میں ہیں تو لگتا ہے بڑھاپا ادھوارہ رہ گیا۔۔"
[سوچ کایہ ادھورا پن ہی تو انسان کو دکھوں سے آزاد نہیں ہونے دیتا]
خلیل بھی بچوں اور ان کے بچوں کو مس کرتا تھا مگر یہ پاکستان نہیں تھا جہاں بچے ماں باپ کی ایک کال پر سب کام چھوڑ چھاڑ آن موجود ہوتے ہیں۔۔ یہ امریکہ ہے یہاں اتنی فرصت کس کے پاس ہے۔
***
نجمہ اور خلیل دونوں ہی ڈاکٹر ہیں۔ اوائل عمری میں پاکستان سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لینے کے بعد دونوں نے یہ ہی فیصلہ کیا۔
"اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے امریکہ چلے جائیں گے۔۔ اسپشلائز کرنے کے بعد وہیں جاب کریں گے۔۔ یہاں سوائے کرپشن اور نا انصافی کے کچھ نہیں۔۔"
اس وقت ان کا بڑا بیٹا سیف ایک سال کا تھا۔ نئی جگہ۔۔ نئے ماحول میں ایک ننھے سے بچے کے ساتھ رہنا۔۔ پڑھنا۔۔ جاب کرنا۔۔ چیلنجز ہی چیلنجز تھے اور ہر دونوں ہر چیلنج کے لئے تیار تھے۔ امریکہ آنے کے بعد وہ ترقی کی اس دوڑ میں ایسے شامل ہوئے کہ پتہ ہی نا چلا کہ کلینڈر پر تاریخیں کب بدلتی چلی گئیں۔ امریکہ آنے کے بعد ان کے ہاں پہلے زرمینہ اور پھر کیف کی پیدائش ہوئی۔ بچے پہلے ڈے کئیر اور پھر اسکول جانے لگے وقت گزرتا چلا گیا اور بچے کالج یونی ورسٹیوں تک پہنچ گئے۔ جس دن سیف نے انھیں رانیہ سے ملوایا اس دن انھیں پتہ چلا کہ بچے جوان ہو چکے ہیں۔ سیف اور رانیہ کی شادی ان کی زندگی کی بہت بڑی خوشی تھی۔ مگر یہ خوشی جلد ہی اداسی میں بدل گئی۔
"ہم نیو یارک شفٹ ہو رہے ہیں۔۔ وہاں اپرچیونیٹیز بہت ہیں"۔
سیف اپنے"بہتر مستقبل"کے لئے بہت پر جوش تھا خلیل کو لگا وہ اپنی ہی آواز کی بازگشت سن رہا ہے۔
ان کا گھر آہستہ آہستہ خالی ہوتا گیا۔ سیف کے بعد زرمینہ بھی حامد سے شادی کرکے بعد کیلیفورنیا شفٹ ہوگئی۔ کیف ہمیشہ سے آرٹ کا متوالا تھا وہ ہولی وڈ کا بڑا اداکار بننا چاہتا تھا اس لئے وہ بھی اپنی منزل کی تلاش میں لاس اینجلس چلا گیا۔ ہفتے میں ایک آدھ بار فون پر بات ہو جاتی تھی۔ سب اپنی اپنی زندگیوں میں خوش اور کامیاب تھے۔ سیف نے اپنا بزنس اسٹارٹ کر دیا تھا۔ وہ اکثر انہیں اپنے بزنس کی کامیابی کے قصے سنایا کرتا تھا۔ زرمینہ بھی اپنے گھر میں خوش تھی اس کے بھی دو بچے تھے زرمینہ اور اس کا شوہر ہائی اسکول ٹیچرز تھے جب کہ کیف ابھی تک شادی کی قید سے آزاد گھوم رہا تھا وہ تھیٹر سے وابستہ تھا جہاں لیڈنگ رولز کرکے اپنی اداکاری کو چمکا رہا تھا اس کی منزل ہالی وڈ تھا اور بقول اس کے منزل بس قریب ہی تھی۔
جب خلیل ریٹائر ہوا تو اس کو لگا جیسے زندگی رک گئی ہے۔ نجمہ کی ریٹائرمنٹ میں ابھی چند سال باقی ہیں۔ خلیل سارا دن گھر میں تنہا نجمہ کی واپسی کا انتظار کرتا رہتا۔
"تم کوئی ایکٹویٹی تلاش کرلو۔۔ گھر میں تنہا رہ کر تو بور ہو جاتے ہو گے۔۔"
نجمہ نے مشورہ دیا۔
"ساری زندگی کام کیا ہے نجمہ۔۔ اب نہیں۔۔"
خلیل تھک چکا تھا سکون چاہتا تھا۔
"ہاں ہاں آرام بھی کرو۔۔ کون روک رہا ہے۔۔ مگر گھر میں سارا دن تنہا رہنا تمہاری ذہنی صحت کے لئے ٹھیک نہیں ہے اور ہاں۔۔ اگلے ہفتے مجھے پندرہ دن کے لئے ایک سیمنار کے ساتھ دوسرے شہر جانا ہے۔۔ اب میں تمہیں بالکل اکیلا چھوڑ کر کیسے جاؤں۔۔"
نجمہ نے فکر مندی سے کہا۔
"نجمہ میں کافی دن سے سوچ رہا ہوں کہ کیوں نہ میں کچھ دن بچوں کے ساتھ گزار آؤں۔۔ مگر تمہاری تنہائی کے خیال سے نہیں کہا۔۔ اب جب کہ تم خود سیمنار کے ساتھ جا رہی ہو تو میں بھی بچوں کی طرف چلا جاتا ہوں۔۔ کیا خیال ہے؟"
نجمہ کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔
اگلے ہفتے دونوں اپنے اپنے سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔ نجمہ کے لئے یہ سفر تھکا دینے والا تھا جب کہ خلیل پوتا پوتی اور نواسا نواسی کے ساتھ وقت گزارنے کا خیال ہی اتنا فرحت بخش تھا کہ خلیل کو پتہ ہی نہ چلا اور وہ نیویارک پہنچ گیا۔ شام کی تین بج رہے تھے ہلکی ہلکی برف باری ہو رہی تھی مگر خلیل کا جوش اس کو گرم رکھے ہوئے تھا۔
"ہیلو۔۔ سیف کیا حال ہے بیٹا؟"
خلیل نے ایر پورٹ سے سیف کو کال کی۔
"جی پاپا۔۔ میں ٹھیک ٹھاک آپ سنائیں۔۔"
سیف نے معمول کے لہجے میں جواب دیا۔
"میں ٹھیک ہوں اور تمہارے شہر آ یا ہوا ہوں۔۔ تم سب سے ملنے۔۔ اپنے پوتا پوتی سے ملنے۔۔ اب تم ایر پورٹ آ کر مجھے لے جاؤ۔۔"
خلیل نے تو اپنے تئیں سرپرائز دیا مگر دوسری طرف چھائی خاموشی میں عجیب سی کیفیت تھی جو خلیل نے محسوس تو کی مگر اس خاموشی کو کوئی نام نہ دے سکا۔
"ٹھیک ہے پاپا۔۔ آپ لوکیشن سینڈ کریں میں آتا ہوں۔۔"
سیف کی آواز گرم جوشی سے عاری تھی۔ خلیل سمجھ نہ پایا کہ ایسا کیوں ہے؟
جلد ہی سیف ایر پورٹ پہنچ گیا۔ خلیل بانہیں پھیلائے اس کی طرف بڑھا مگر سیف نے ایک بناوٹی سا لمس دے کر اس کا بیگ اٹھا لیا۔ گاڑی سیف کا دوست چلا رہا تھا۔ سارے راستہ خاموشی سے کٹا گھر پہنچتے پہنچتے خلیل تھک چکا تھا۔۔ نجانے سفر سے یا سیف کے روئیے سے۔۔
"آپ اچانک ہی آگئے۔۔ میرا مطلب۔۔ ایک فون ہی کر دیتے۔۔"
گھر میں اس کے دوست کی فیملی موجود تھی۔ سیف نے خلیل کو بیڈ روم میں بٹھا کر کہا
"دراصل۔۔ یہ میرا دوست۔۔ رفیع۔۔ میرا بزنس پارٹنر بھی ہے۔۔ اس کی فیملی بھی یہاں ٹہری ہوئی ہے۔۔ اب آپ بھی۔۔ میرا مطلب ہے گھر میں اتنی جگہ۔۔"
رانیہ کا چہرہ بھی ستا ہوا سا تھا بچے بھی خاموش اور سرد سے تھے۔
"نہیں۔۔ نہیں۔۔ میں رکنے نہیں آیا۔۔"
خلیل نے جلدی سے بات بنائی۔
"اصل میں مجھے تو زرمینہ کے پاس کیلی فورنیا جانا ہے۔۔ تو میں نے سوچا۔۔ تم لوگوں سے بھی ملتا چلوں۔۔ میں تو رات کی ٹرین سے چلا جاؤں گا۔۔"
رانیہ اور سیف کے چہرے پر اطمینان کی لہر سے دوڑ گئی خلیل کو لگا جیسے اس کے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا ہے۔
"آپ تھکے ہوئے ہوں گے۔۔ تھوڑا آرام کریں۔۔ پھر کھانے پر ملتے ہیں۔۔"
سیف اور رانیہ دونوں ہی کمرے سے چلے گئے۔ خلیل کہنا چاہتا تھا کہ بچوں کو میرے پاس بھیج دو مگر رانیہ کا سپاٹ چہرہ دیکھ کر اس کی ہمت جواب دے گئی۔ ابھی وہ لیٹا ہی تھا کہ نجمہ کی کال آ گئی۔ وہ ہر گھنٹے بعد اس کو کال کرتی تھی اور اب تو وہ بہت پر جوش ہوگی حالاں کہ خلیل اس وقت کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا مگر جانتا تھا کہ اگر اس وقت نجمہ کی کال ریسیو نہیں کی وہ پریشان ہو جائے گی۔
"ہیلو۔۔"
خلیل نے بمشکل اپنی آواز میں بشاشت پیدا کی۔
"سیف کے گھر پہنچ گئے؟ کیسے ہیں سب؟ ویڈیو کال کرو ناں پلیز۔۔"
نجمہ نے سوالات کی بوچھاڑ سی کردی۔ خلیل تھکی ہوئی سی ہنسی ہنس دیا۔
"اتنی بے تابی۔۔ ذرا صبر تو کرو۔۔ ابھی ابھی پہنچا ہوں۔۔ کچھ دیر آرام کر لینے دو۔۔ پھر سب سے بات کرواتا ہوں۔۔"
نجمہ نے اس کی ہنسی کی آواز میں نمی کو محسوس کر لیا
"کیا بات ہے خلیل۔۔ سب خیر ہے نا؟"
خلیل کو سیدھا ہو کر بیٹھنا پڑا۔
"ہاں ہاں سب خیریت ہے۔۔ بس ذرا تھک گیا ہوں۔۔"
"چلو تم آرام کرو۔۔ مجھے بھی ایلس کے ساتھ مل کر کل کی تیاری کرنی ہے۔۔ بعد میں بات کریں گے۔۔"
نجمہ نے فون بند کردیا اور خلیل بستر کے کنارے پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا رہا وہ منتظر تھا کہ شائد سیف کے بچے اس کے پاس آجائیں گے، مگر کسی نے آ کر جھانکا بھی نہیں وہ تھک کر لیٹ گیا۔ باہر سے آنے والی آوازیں سنتا رہا اب سیف کے روئیے کی وجہ سمجھ آنے لگی۔۔ نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔
"پاپا۔۔ پاپا۔۔ اٹھ جائیں ڈنر ریڈی ہے۔۔" سیف کی آواز نے اس کو بیدار کر دیا۔
ڈنر ٹیبل پر سیف کے بیوی بچے بھی موجود تھے مگر ایک تکلیف دہ خاموشی خلیل کا دل چیر رہی تھی دوسری طرف اس کو نجمہ کی فکر کھائے جا رہی تھی اگر اس نے ویڈیو کال کر لی تو۔۔
"یار کوئی تصویریں۔۔ کوئی سیلفی تو بناو۔۔ اتنا اچھا کھانا۔۔ اتنی اچھی ٹیبل ارینج منٹ ہے۔۔ یہ میرے پیارے پیارے پوتا پوتی ہیں۔۔ ان سب کے ساتھ تصویر تو ہونی چاہئے نا۔۔"
خلیل نے اپنا موبائل سیف کی طرف بڑھاتے ہوئے اپنے لہجے میں مصنوعی بشاشت پیدا کرتے ہوئے کہا مگر وہاں سب سرد سے چہروں کے ساتھ بیٹھے رہے، سیف نے کسی ربوٹ کی طرح اس کا موبائل لیا اور چند تصویریں کھینچ کر واپس کر دیا۔
خلیل کے لئے اتنا ہی بہت تھا۔
"نجمہ کو بھیجنے کے لئے کافی ہیں۔۔"
اس نے دل میں سوچتے ہوئے موبائل جیب میں رکھ لیا۔
"تمہارا بزنس کیسا چل رہا ہے؟"
خلیل نے کھوجتی نظروں سے سیف کو دیکھا۔
"سب سیٹ ہے پاپا۔۔ سب خیریت ہے۔۔"
سیف نے پلیٹ سے نظر اٹھائے بغیر کہا، خلیل بھی سیف کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا اس کی نگاہوں کا مرکز رانیہ کا چہرہ تھا جس پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ تھی۔
کھانا کھاتے ہی سیف نے اس کا بیگ اٹھا کر خارجی دروازے کے پاس رکھ دیا۔ خلیل کے پاس کوئی جواز نہیں بچا تھا کہ وہ وہاں مزید ٹہرتا۔
سیف اس کو سب وے اسٹیشن کی سرد بینچ پر بیٹھا چھوڑ کر کب کا جا چکا تھا اور اب وہ سر جھکائے بیٹھا تھا۔ خلیل کو زرمینہ کے گھر جانے سے بھی خوف آنے لگا۔ پہلے اس سوچا کال کرکے بتا دے مگر ڈر تھا کہیں آنے سے منع ہی نہ کر دے لہذا اپنے ٹوٹتے وجود کے ساتھ وہ ٹرین میں بیٹھ گیا۔ اب کی بار اس نے زرمینہ کو کال کرکے سرپرائز دینے کی کوشش نہیں کی بلکہ کیب کرکے سیدھا اس کے گھر پہنچ گیا۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ اندر سے آوازیں آ رہی تھیں۔ خلیل کچھ دیر کھڑا سنتا رہا پھر اس نے ڈرتے ڈرتے بیل بجائی۔ اندر سے آنے والی آوازیں یکدم تھم گئیں۔ دروازہ زرمینہ نے ہی کھولا۔ باپ کو یوں اچانک سامنے دیکھ کر حیران سی رہ گئی۔
"پاپا آپ۔۔ موم کہاں ہیں۔۔"
وہ بیٹی تھی اس لئے بے ساختہ سینے سے لگ گئی۔ خلیل کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ زرمینہ بھی رونے لگی۔
"کون ہے زرمینہ؟"
اندر سے اس کے شوہر حامد کی بےزار آواز آئی تو دونوں کو ہوش آیا۔
"آئیں۔۔ اندر آ جائیں۔۔"
وہ ہاتھ تھام کر اندر لے گئی۔ حامد بھی اس کو دیکھ کر حیران رہ گیا اس کی نظریں بے ساختہ گھڑی کی طرف اٹھ گئیں اور پھر وہ زرمینہ کو عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگا۔
"آپ۔۔ اس وقت ایسے تنہا اور اچانک۔۔ سب خیر ہے نا؟"
زرمینہ نے پوچھا
"ہاں ہاں سب خیریت ہے۔۔ تمہاری موم ایک سیمنار میں گئی ہوئی ہیں۔۔ تمہیں دیکھے بہت دن ہو گئے تھے۔۔ تو نے میں نے سوچا تم سے مل آ وں۔۔"
خلیل حامد کی خاموشی اور سرد مہری سے آکورڈ محسوس کر رہا تھا زرمینہ بھی بار بار اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"پاپا۔۔ آپ ایک فون کال ہی کر دیتے۔۔ اصل میں۔۔ کل سے ہم دونوں ہی ٹیچرز ٹریننگ پروگرام میں مصروف ہو جائیں گے۔۔ تو۔۔ پھرآپ۔۔ یہاں۔۔"
زرمینہ نے ایک تکلیف دہ مقام پر لا کر بات کو ادھورا چھوڑ دیا۔
"میں تو بس صبح نکل جاوں گا۔۔"
خلیل سے حامد کی سرد نظریں مزید برداشت نہیں ہو رہی تھیں۔
"مجھے اصل میں کیف کے پاس جانا تھا۔۔ اس کا پلے دیکھنے۔۔ تو بس۔۔ میں تو صرف رات بھر کے لئے ہوں۔۔ تم بے فکر ہو کر اپنی ٹریننگ میں جانا۔۔"
خلیل نے زرمینہ کی مشکل آسان کر دی۔
"بچے تو سو گئے ہوں گے؟"
خلیل نے پوچھا
"جی ہاں۔۔ ہم اپنے گھر میں ڈسپلن کا بہت خیال رکھتے ہیں۔۔ خاص طور پر سونے جاگنے اور کہیں جانے آنے کے اوقات کے بارے میں۔۔"
حامد نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا تھا۔
"پاپا۔۔ آپ بھی آرام کر لیں۔۔ چلیں میں آپ کو بیڈروم تک لے چلوں۔۔"
زرمینہ جلد از جلد وہاں سے ہٹ جانا چاہتی تھی۔ وہ بیڈ روم میں مصنوعی بشاشت سے کچھ دیر باتیں کرتی رہی مگر جلد ہی تھکی تھکی سی لگنے لگی۔
"زرمینہ۔۔ میں تھک گیا ہوں کچھ دیر آرام کروں گا۔۔ تمہیں بھی صبح جانا ہے۔۔ تم بھی آرام کرو۔۔"
خلیل نے اس کی مشکل آسان کر دی مگر خلیل کی مشکل ابھی باقی تھی اسے ابھی نجمہ کو بھی مطمئن کرنا تھا۔
اگلے دن زرمینہ کے گھر میں سب علی الصبح بیدار ہو گئے۔ خلیل بھی جاگ چکا تھا مگر کمرے سے نکلنے کی ہمت نہیں کر پایا۔۔ دم سادھے باہر سے آتی آوازیں سنتا رہا۔
چلتے وقت زرمینہ کمرے میں آئی اس کا چہرہ ستا ہوا تھا اور آواز میں نمی تھی۔
"پا پا۔۔ آپ جاگ گئے۔۔ ناشتے کے لئے آ جائیں پلیز۔۔"
وہ دروازے سے ہی پلٹ گئی تھی۔
ناشتے کی میز پر خاموشی تھی۔ حامد کی چہرے پر برہمی واضح تھی۔ بچے سہمے ہوئے تھے۔ خلیل نے ماحول اچھا کرنے کی کوشش کی۔
"چلو بھئی اب اسمائل کرو۔۔ گرینی کو بھیجنے کے لئے تصویر بناتے ہیں۔۔" حامد اپنا کپ اٹھا کر میز سے اٹھ گیا۔ زرمینہ نے بڑی کوشش کے بعد اپنے لبوں کو مسکراہٹ کے انداز میں کھینچا۔۔ بچے اب بھی سنجیدہ شکلیں بنائے بیٹھے رہے۔
چند کلکس کے بعد خلیل نے موبائل جیب میں رکھ لیا۔ زرمینہ نے جلدی جلدی برتن سمیٹ کر کچن میں رکھے اور سب گھر سے باہر نکل آئے۔ خلیل اپنے لئے کیب منگوا چکا تھا۔
اس نے زرمینہ اور بچوں کو الوداعی بوسے دئیے حامد کار میں بے زار صورت بنائے بیٹھا رہا۔ بچوں کی اسکول بس آ گئی اور پھر باقی سب لوگ بھی اپنی اپنی منزل کی طرف چل پڑے۔
خلیل ایک بار پھر سب وے اسٹیشن کی یخ سیٹ پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔ اس کو فون بج اٹھا۔ نجمہ کی کال تھی۔ خلیل کا دل چاہا کہ کاش اس وقت کوئی اس وقت اس کے ہاتھ سے فون چھین کر ریل کی پٹریوں پر پھینک دے۔
"ہیلو۔۔"
اس نے بادل نخواستہ فون ریسیور کر ہی لیا۔
"ہاں۔۔ سب ٹھیک ہے۔۔ ہاں ٹھنڈ بہت ہے۔۔ ہاں ہاں بچے بھی ٹھیک ہیں۔۔ سب خیریت ہے۔۔"
وہ بار بار نجمہ کو یقین دلاتا رہا۔
اس کی اگلی منزل لاس اینجلس تھی جہاں اس کا سب سے چھوٹا بیٹا کیف رہتا تھا۔ مسلسل سفر نے اس کو تھکا دیا تھا۔
اس نے بیک وقت انگلش اور اردو والا سفر کیا اور اب اس کی جسمانی و ذہنی حالت کسی صدمے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی لہذا اس نے کیف کے پاس جانے کے بجائے ایک ہوٹل میں کمرہ لے کر آرام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک لمبی نیند نے اس کو کافی سکون پہنچایا۔ شام ڈھلے وہ ہوٹل سے نکل کر کیف کے اپارٹمنٹ پر پہنچا۔ کیف کا اپارٹمنٹ مین روڈ سے دور ایک گندی اور بوسیدہ عمارت میں تھا۔ تنگ زینوں پر منشیات کے دھویں کی بو چکرا رہی تھی۔ کیف اپنے فلیٹ پر نہیں تھا۔ اس کے پڑوسی سے تھیٹر کا ایڈریس لے کر وہ وہاں پہنچا۔
کیف اس کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
"پاپا۔۔ آپ۔۔ آپ یہاں۔۔"
خلیل کیف کی حالت دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔ کمزور جسم۔۔ ستا ہوا چہرہ۔۔ بکھرے بال۔۔ زرد آنکھیں۔۔ اس کے کانپتے ہاتھوں کی پوریں سگریٹ نوشی سے سیاہ پڑ چکی تھیں۔
"کیف یہ۔۔ یہ کیا حال بنا لیا ہے؟"
خلیل نے کبھی خواب میں نہیں سوچا تھا کہ اس کا کوئی بچہ اس حال تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ وہ تو خود کو فخر سے کامیاب بچوں کا باپ کہتا تھا۔
"یہ۔۔ پاپا۔۔ یہ تو ایک پلے کا گیٹ آپ ہے۔۔ مجھے اس رول کے لئے اپنا وزن کم کرنا پڑا ہے"۔
خلیل نم آنکھوں سے اس کے جھوٹ سنتا رہا۔"آج میں تھیٹر میں تمہیں پرفارم کرتے ہوئے دیکھوں گا۔۔ سامنے آڈینس میں بیٹھ کر تمہیں دیکھوں گا۔۔"
خلیل کی یہ بات سن کر کیف کے چہرے پر گھبراہٹ میں اضافہ ہوگیا۔
"پاپا۔۔ آج تو میرا کوئی شو نہیں لگے گا۔۔ چلیں کوئی بات نہیں۔۔ آج میں آپ کے ساتھ بیٹھ کر شو دیکھوں گا۔۔"
وہ عجیب سے انداز میں ہاتھ گھما رہا تھا خلیل کو الجھن سی ہونے لگی اس وقت کسی نے اسٹیج پر سے اس کا نام پکارا۔
"HyKaif، come here"
انداز بہت تحکمانہ تھا۔ کیف تیزی سے اسٹیج کی طرف بھاگا۔ خلیل دور سے کھڑا اپنے بیٹے کو دیکھتا رہا۔
پکارنے والا کیف پر برہمی کا اظہار کر رہا تھا بار بار فرش اور اسٹیج پر موجود سامان کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ خلیل کا دم گھٹنے لگا وہاں کھڑا ہونا مشکل لگ رہا تھا۔ وہ خاموشی سے باہر نکل گیا۔
سر جھکائے کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح وہ ایر پورٹ کی طرف چل دیا۔
***
اگلی فلائٹ سے ٹکٹ بک کروانے کے بعد وہ ویٹنگ روم میں بیٹھا تھا۔
وہ اب تک حیران تھا کہ ایسا کیوں ہوا؟
ایک کامیاب ڈاکٹرز کا جوڑا۔۔ پاکستان میں خاندان کے کئی نوجوان ڈاکٹر ان کو اپنی اسپریشن مانتے تھے۔۔ ان جیسا بننا چاہتے تھے۔۔ ان کے بچوں کی خوش نصیبی پر رشک کرتے تھے۔ پھر۔۔ پھر ایسا کیوں ہوا؟
اپنی دانست میں تو اس نے اپنے بچوں کو بہترین زندگی دی تھی۔۔ لینڈ آف اپرچیو نیٹیز میں لے آیا تھا۔ مگر وہ یہ بھول گیا تھا کہ بچوں کو صرف اپرچیو نیٹیز کی نہیں ماں باپ کی محبت، توجہ اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ بچوں کو اچھی زندگی دینے کی دوڑ میں ایسے بھاگے کہ اپنا وقت دینا بھول گئے۔
پاکستان کا مشترکہ خاندانی نظام جو وہاں کے نوجوان جوڑوں کی نظر میں ایک زحمت ہے، بچوں کے لئے رحمت ہے۔۔ جاب کرنے والے ماں باپ کی غیر موجودگی میں بچوں کو کوالٹی ٹائم ملتا ہے بڑوں کی شفقت اور سختی دونوں ہی چاند اور سورج کی طرح ان پر سایہ فگن رہتی ہے۔۔ مگر خلیل اور نجمہ تو یہ سب پیچھے چھوڑ آئے تھے۔۔
اسی وقت نجمہ کی کال آ گئی اس کا دل چاہا کہ وہ کسی ایسی جگہ چلا جائے جہاں اس فون سے نجات مل سکے۔
"ہیلو۔۔ کیا حال ہے۔۔ تم تو وہاں جا کر مجھے بھول ہی گئے۔۔ ویڈیو کال بھی نہیں کی؟
نجمہ نے خفگی کا اظہار کیا۔ خلیل ایک تھکی تھکی سی آزردہ ہنسی ہنس دیا۔
"ہاں۔۔ اپنے گرینڈ کڈز کے ساتھ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔۔"
نجمہ زندگی بھر کی ساتھی تھی آواز کی اداسی پا گئی۔
"کیا بات ہے۔۔ طبعیت ٹھیک ہے؟ سب خیریت سے ہیں نا۔۔"
خلیل نے ہنس کر کہا
"ہاں سب خیر یت ہے۔۔"
وہ نجمہ کو نہیں بتا سکا کہ ان کا بڑا بیٹا سیف جوئے کی لت میں مبتلا ہو کر اپنے کاروبار اور گھر دونوں سے ہاتھ دھو کر چکا ہے۔
وہ نجمہ کو کیسے بتاتا کہ ان کی لاڈلی بیٹی زرمینہ کے شوہر کا کسی عورت سے افیئر ہے اور وہ جلد ہی زرمینہ کو طلاق دینے والا ہے۔
وہ نجمہ کو کبھی نہیں بتائے گا کہ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا کیف نشے کا عادی ہو چکا ہے اور وہ اسٹیج کا اداکار نہیں بلکہ سوئپر ہے۔۔
وہ نجمہ کو یہ سب بتا کر دکھی نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے وہ ہر بار۔۔ بار بار یہ ہی کہتا رہا
سب خیریت ہے۔۔
سب خیریت ہے۔۔

