Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Makafat

Makafat

مکافات

"آ۔۔ آ۔۔ آپ۔۔"

مہوش کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ گھر کے اندر موجود تھا اور امی کے کمرے کے دروازے پر کھڑا تھا۔

ہمایوں اس حالت دیکھ کر ہنس پڑا۔

"کیا ہوا مہوش۔۔ ڈر گئیں؟ شکل دیکھو اپنی۔۔ لگتا ہے بھوت دیکھ لیا ہے۔۔"

مہوش سچ میں ڈر گئی تھی۔ اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ خوش ہو یا پریشان۔

"نہیں نہیں۔۔ میں بس حیران ہوگئی۔۔ آپ ایسے اچانک ہی آ گئے۔۔ بغیر اطلاع دیئے۔۔"

وہ بے ساختہ ہمایوں کے شانے سے جا لگی۔

ہمایوں مسکرا دیا۔

"ہاں۔۔ سوچا سر پرائز دوں گا۔۔ دیکھوں گا مجھے اچانک دیکھ کر تمہاری کیا حالت ہوتی ہے۔۔ امی کیسا ری ایکٹ کریں گی۔۔"

"امم۔۔ امی۔۔" مہوش کے چہر ے پر ہوائیاں سے اڑ گئی۔ اس نے اپنا چہرہ اور نیچے کر لیا تاکہ ہمایوں اس کے تاثرات نہ دیکھ سکے۔

ہمایوں اپنی ماں کے کمرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

"امی کہاں ہیں؟ ان کا کمرہ تو خالی ہے۔۔"

مہوش جال میں پھنسی ہرنی کی طرح سراسیما سی ہوگئی مگر اس نے اپنی حواس قابو میں رکھے۔

"وہ۔۔ گئی ہوئی ہیں۔۔ آ جائیں گی۔۔ ابھی۔۔ چھوڑیں نا یہ باتیں۔۔ اتنے سال بعد گھر آ ئے ہیں۔۔ میں۔۔ میں بتا نہیں سکتی کہ مجھے کتنی خوشی ہے۔۔ مجھے پتہ ہوتا تو میں آپ کے لئے ڈھیروں تیاری کرتی۔۔ لیکن خیر۔۔ شکر ہے آپ آئے تو۔۔"

مہوش کے دماغ اب کہیں جا کر ہمایوں کے سر پرائز سے نبٹ سکا تھا وہ تیزی سے سوچ رہی تھی۔

***

ہمایوں ایک سنگل مدر کا اکلوتا بیٹا تھا۔ باپ کیا ہوتا ہے وہ نہیں جانتا۔۔ اس کے لئے ماں ہی سب کچھ تھی۔ ثمینہ نے تن تنہا یہ ذمہ داری اٹھائی۔ گھر والوں نے بڑا زور لگایا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔

"اس کو اپنے بیٹے سے ایسی ہی محبت ہوتی تو وہ ہمیں گھر سے کیوں نکالتا؟ آپ لوگ سمجھتے کیوں نہیں۔۔ آج نہیں تو کل۔۔ وہ دوسری شادی کر لے گا۔۔ میں اپنے بچے کو سوتیلی ماں کے مظالم سہنے کے لئے کیسے چھوڑ دوں؟"

بات تو ٹھیک کہی تھی مگر جوان عورت کے لئے اتنا بڑا فیصلہ لینا آسان نہیں تھا جب کہ میکے میں غر بت کا عفریت بیٹھا تھا۔

"ہاں تو پالنا خود ہی۔۔"

بھابھی نے بے رخی سے کہا

"ہمارے تو اپنے خرچے پورے نہیں ہوتے۔۔ بچے ذرا ذرا سی چیز کو ترستے ہیں۔۔ ہم ایک اور بچے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔۔"

ثمینہ نے پر سوز نظروں سے بھابھی کی طرف دیکھا۔

"آپ فکر نہ کریں بھابھی۔۔ آپ پر بوجھ نہیں بنوں گی۔۔ اپنا اور اپنے بچے کو خرچ خود ہی اٹھا لوں گی۔۔ اس پر نہ سوتیلی ماں کا سایہ پڑے گا نہ سوتیلے با پ کا۔۔"

اور پھر ایسا ہی ہوا۔ ثمینہ نے خود کو بھلا دیا۔ وہ ہمایوں کی ماں بھی بن گئی اور باپ بھی۔ اس نے ہمایوں کی پرورش میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ رکھا۔ اس نے لوگوں کے کپڑے بھی سئیے۔ محلے کے بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھایا اور روٹیاں پکانے کا کام تک کیا مگر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔

***

"آخر امی کہاں چلی گئی ہیں؟ کچھ بتا کر تو گئی ہوں گی۔۔"

ہمایوں کو اب پریشانی لاحق ہونے لگی تھی۔ وہ بڑی دیر سے انھیں کال ملانے کی کوشش کر رہا تھا۔

مگر نمبر بند جا رہا تھا۔

مہوش بھی خود پر قابو پا چکی تھی۔ مگر صورت حال اب قابو سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔

"بھئی آپ تو جانتے ہیں۔۔ وہ اپنی مرضی کرتی ہیں۔۔ آج صبح کہنے لگیں کہ میں اپنی سہیلی حمیدہ کی طرف جا رہی ہوں۔۔ میں نے پوچھا واپس کب آئیں گی تو بولیں جب میرا دل چاہے گا۔۔ اب آپ بتائیں میں کیا کرتی؟"

مہوش کی بات سن کر ہمایوں سوچ میں پڑ گیا۔

"حمیدہ؟ اس نام کی کسی دوست کو میں نہیں جانتا۔۔ کہاں رہتی ہیں وہ؟"

مہوش پھر پھنس گئی مگر وہ کافی مضبوط اعصاب کی مالک تھی۔ خود کو کمپوز رکھتے ہوئے بولی"ارے یہ حمیدہ آنٹی۔۔ یہ ان کی نئی دوست ہیں۔۔ کچھ ٹائم پہلے ہی ایک شادی میں ملی تھیں۔۔ اچھی خاتون ہیں۔۔ وہ بھی اکثر آ تی ہیں۔۔ شائد ملیر سائیڈ پر رہتی ہیں۔۔"

ہمایوں حیران سا رہ گیا۔

"ملیر؟ وہ تو یہاں سے بہت دور ہے۔۔ امی اکیلی کیسے جاتی ہیں؟"

مہوش نے ہنسی کے پیچھے اپنی گھبراہٹ چھپائی۔

"کیا ہوگیا ہے ہمایوں؟ یہ وہ پرانا دور نہیں ہے جب لوگ پیدل سفر کرتے تھے۔۔ اِن ڈرائیو سے ایک کال پر گاڑی گھر آجاتی ہے۔۔ میں کار بلوا دی اور وہ آرام سے بیٹھ کر چلی گئیں۔۔ اب ہمیں آپ کے آنے کا تو معلوم نہیں تھاناں۔۔ ورنہ وہ نہ جاتیں۔۔"

ہمایوں ایک بار پھر نمبر ملانے لگا۔

"تمہارے پاس حمیدہ آنٹی کو نمبر نہیں ہے؟"

مہوش کی پیشانی پر پسینے کے قطرے جمع ہونے لگے۔

"لو بھلا میرے پاس کیوں ہوگا۔۔ وہ مجھ سے کب شئیر کرتی ہیں۔۔"

***

ننھا سا ہمایوں اب ماں کو دن رات مشین چلاتے دیکھتا تو اس کے ذہن میں ایک ہی خیال ابھرتا تھا۔

"آپ نئے نئے کپڑے سی کر لوگوں کو دے دیتی ہیں اور خود وہ ہی پرانے کپڑے پہنتی ہیں۔۔"

ثمینہ کو اس کو معصومیت پر ہنسی آ گئی۔

"بیٹا۔۔ یہ کپڑا تو لوگ اپنے لئے خرید کر لاتے ہیں۔۔ اورمجھے اس کو سینے کے پیسے دیتے ہیں۔۔ یہ کپڑے ہمارے نہیں ہیں اور نہ ہی میں انہیں پہن سکتی ہوں۔۔"

"امی۔۔ جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو بہت سارے پیسے کما کر لاؤں گا۔۔ پھر آپ کو لوگوں کے کپڑے نہیں سینے دوں گا۔۔ بس آپ اپنے خود کے لئے کپڑے سیا کریں گی۔۔"

ایک چھ سال کا بچہ اس سے بہتر انداز میں اپنی درد مندی ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔ ثمینہ نے بے ساختہ اس کو گلے لگا لیا۔ ایسے ہی کئی سپنے اس کی آنکھوں میں بھی بسے تھے۔

"جب میرا بیٹا بڑا ہو جائے گا تو زندگی کتنی آسان ہو جائے گی۔۔ پھر میں خوب آرام کروں گی۔۔ دل کھول کر ہنسوں گی۔۔ پیر پھیلا کر سوؤں گی۔۔"

اس کی ہر ادھوری تشنہ خواہش تعبیر کا لبادہ تھامے سامنے کھڑی ہو جاتی تھی۔

"بس۔۔ کچھ دن کے بات ہے۔۔ پھر میرا بیٹا بھی جوان ہو جائے گا۔۔"

***

"واہ بھئی واہ۔۔ مہوش تمہارا بھی جواب نہیں۔۔"

فون سے ابھرتی آواز کے طنز کو محسوس کرکے مہوش کے تب بدن میں آگ لگ گئی۔

"ہاں تو اور کیا کروں۔۔ وہ ایسے اچانک آ گئے کہ میں کچھ کر ہی نہیں پائی۔۔ اب تم کچھ کرو ناں۔۔ جلدی جاؤ۔۔ انھیں لے کر آؤ اور اچھی طرح سمجھا کر لانا۔۔"

"ارے آپ کو کچھ خبر بھی ہے مہوش بی بی؟"

فون موجود دوسرا شخص پھٹ پڑا

"میرا سارا علاقہ بند پڑا ہے۔۔ وزیر با تدبیر کی سواری جا رہی ہے۔۔ جگہ جگہ ناکے لگے ہیں۔۔ گلی سے باہر مین روڈ پر قدم نہیں رکھ سکتے۔۔"

مہوش کے پیرو ں تلے زمین نکل گئی۔

"اب۔۔ اب کیا ہوگا۔۔ ہمایوں تو مجھے جان سے مار دے گا۔۔ رفیق۔۔ کچھ کرو۔۔ پلیز۔۔"

مہوش کی حالت ایسے شخص کی سی ہو چکی تھی جسے دار پر لٹکائے جانے والے قیدیوں کی لائن میں کھڑا کر دیا گیا ہو اور وہ نہ جانتا ہو کہ اگلی باری اس کی ہے یا نہیں۔ اسے ہر آنے والا لمحہ موت کا لمحہ لگ رہا تھا۔

"ہمایوں کو مصروف کر دو۔۔ بچوں کواسکول سے بلوا لو۔۔ اس کے دوستوں کو اطلاع کردو۔۔ میں دیکھتا ہوں۔۔ شائد کہیں سے باہر جانے کا کوئی راستہ ملے۔۔"

مہوش کو رفیق کا آئیڈیا کافی اچھا لگا۔ اس نے فوراً ادھر ادھر فون گھمانے شروع کر دئیے۔

***

"دیکھئے گا۔۔ ایک دن میرا یہ چھوٹا سا فوڈ اسٹال ایک بہت بڑی فاسٹ فوڈ چین بن جائے گا۔۔ ایک برانڈ بنا جائے گا۔۔"

ہمایوں کی آنکھوں میں سپنے ہی سپنے تھے وہ محنتی ماں کا محنتی بیٹا تھا۔ جانتا تھا کہ منزل دور ہے مگر محنت اور لگن سے ایک نہ ایک دن مل ہی جائے گی۔

"انشااللہ۔۔ ایسا ہی ہوگا۔۔"

ثمینہ کی ساری دعائیں اس کے ساتھ تھیں۔ ہمایوں نے کچھ ماہ پہلے ہی اپنے فوڈ اسٹال کا افتتاح کیا تھا۔ کام اچھا چل رہا تھا اور دونوں ماں بیٹے کو پورا یقین تھا کے اچھے دن آئیں گے۔ ثمینہ کے لئے تو اچھا دن وہ بھی ہوگا جب اس کا لال گھوڑی چڑھے گا۔

"ہمایوں۔۔ اب تیرا کام سیٹ ہو چکا ہے۔۔ بس اب میں اور انتظار نہیں کروں گی۔۔ اسی سال تیری شادی کر دوں گی۔۔"

ثمینہ کے پر عزم لہجے میں کہا اور ہمایوں ہنس پڑا۔

"میں تو بڑے دن سے انتظار کر رہا تھا کہ آپ یہ بات کریں۔۔"

ثمینہ حیرت سے اس کا منہ دیکھنے لگی۔

"کیوں۔۔ کیا کوئی لڑکی پسند آ گئی ہے؟"

"جی۔۔"

ہمایوں نے بالکل لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیا۔ ثمینہ کے دل میں گرہ سی پڑ گئی وہ سوچنے لگی۔

"کل تک ہر کام مجھ سے پوچھ کر کرنے والا میرا فرما بردار بیٹا۔۔ اتنی بڑی بات دل میں چھپائے بیٹھا رہا۔۔ نجانے کون ہے وہ جس نے ابھی سے اتنا برین واش کردیا۔۔"

اور وہ لڑکی مہوش تھی۔ ہمایوں کی دوسری محبت۔۔ پہلی محبت تو اس کی ماں ہی تھی جس کی قربانیوں کی داستان ہمایوں مہوش کو سناتاہی رہتا تھا۔ مہوش کا دل اس کی ماں کی طرف سے برا سا ہوگیا وہ اکثر سوچتی تھی۔

"ایسا بھی کیا ہے۔۔ سب ہی مائیں اپنے بچوں کے لئے قربانیاں دیتی ہیں۔۔ انھوں نے غلام سا بنا لیا ہے۔۔"

***

بچے بھی باپ کو اچانک گھر پا کر خوشی سے نہال ہو گئے۔

"پاپا۔۔ آپ۔۔"

وہ دوڑ کر ہمایوں کے گلے لگ گئے۔ ہمایوں کا کلیجہ ٹھنڈا سا ہوگیا۔ اولاد کی محبت اس کے رگوں میں خوشی کے ہارمون بڑھانے لگی۔ دل جیسے کئی گنا بڑا کر کرسیروں خون بنانے لگا۔

"پاپا۔۔ میں نے کچھ دن پہلے خواب میں دیکھا تھا کہ آپ آ گئے ہیں۔۔ اور۔۔ دیکھیں۔۔ آپ سچ مچ میں آ گئے۔۔"

چھوٹی بیٹی نے گلے میں ہاتھ ڈال کر لاڈ سے کہا تو بڑا بیٹا جل کر بولا

"ہاں ہاں تم تو بڑی کوئی چیز ہو۔۔ اونہہ۔۔"

ہمایوں نے ہنستے ہوئے دونوں کو پھر سے گلے لگالیا۔

اسی لمحے گھر کی بیل بج اٹھی۔

دروازے پر انس کھڑا تھا۔ ہمایوں کا بچپن کا دوست۔۔

"ہاں بھئی۔۔ اب تو چپکے چپکے آیا کروں گے۔۔ بتاؤ گے بھی نہیں۔۔"

ہمایوں ہنستا ہوا اس کے گلے لگ گیا۔

"ارے ایسی بات نہیں ہے یار۔۔ بس اچانک ہی چھٹی مل گئی تو سوچا سب کو سر پرائز دوں۔۔"

انس نے بھی اس کو بانہوں میں جکڑ لیا۔

"وہ تو بھابھی نے حنا کو کال کرکے بتایا۔۔ ورنہ تُو تو گھر میں چھپا بیٹھا تھا۔۔"

ہمایوں ہنستے ہوئے انس کو ڈرائنگ روم میں لے آیا۔

***

مہوش نے پھر رفیق کا نمبر گھمایا۔

"کچھ ہوا؟ راستہ ملا؟"

رفیق بھی جھنجھلایا ہوا تھا۔

"کہیں کوئی راستہ نہیں ہے۔۔ سب اپنے اپنے گھروں میں قیدی بنے بیٹھے ہیں۔۔ بڑی سخت ناکہ بندی ہے۔۔"

مہوش سر پکڑ کر رہ گئی۔

"خدایا۔۔ میں صبح سے اس بدبخت انچارج رشیدہ کو بھی کال کر رہی ہوں۔۔ مگر اس کا نمبر بھی بند جا رہا ہے۔۔ ویسے تو ہر پندرہ دن بعد کال کر دیتی ہے کہ پیسے دو اور اب نہ جانے کہاں مر گئی ہے۔۔ اب کیا ہوگا رفیق۔۔ اب کیا ہوگا۔۔"

رفیق مہوش کا سب سے چھوٹا بھائی تھا اور اس کی صورت حال سمجھ رہا تھا مگر کچھ کرنے سے قاصر تھا۔

"میں پھر کوشش کرتا ہوں۔۔ اللہ کرے کوئی راستہ مل جائے۔۔"

***

ثمینہ مہوش کو بیاہ لائی۔ اس نے کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا مگر اس کا دل بجھ سا گیا تھا۔ وہ ہمیشہ سے اپنی بھانجی کو دلہن بنا کر لانا چاہتی تھی مگر ہمایوں نے ایک بار بھی نہیں پوچھا۔ ایک بار بھی اس کی پسند نا پسند جاننے کی کوشش نہیں کی۔ مہوش اس کے گھر میں آ گئی مگر ثمینہ کے دل پر کبھی نہ چڑھ سکی۔ خود مہوش کو اس کی زیادہ پرواہ بھی نہ تھی وہ پہلے ہی سوچ بیٹھی تھی کہ بڑی بی کو زیادہ اہمیت نہیں دینی۔

"ہمایوں تو میرے کنٹرول میں ہے۔۔ باقی ان بڑی بی کو زیادہ سر نہیں چڑھاؤں گی۔۔"

مگر شادی کے بعد پے در پے واقعات نے مہوش کا یقین متزلزل کر دیا۔ شادی کے بعد ہمایوں کے کاروبار میں مندی آنے لگی۔ آس پاس کئی فوڈ اسٹال لگ گئے اور ہمایوں کے گاہک ٹوٹ کر وہاں جانے لگے۔ اسی دوران اللہ نے ہمایوں کو بیٹے سے بھی نوازا مگر آمدنی دن بدن کم سے کم ہونے لگی۔ رہی سہی کسر یوں پوری ہوئی کہ ایک دن ہمایوں کی موٹر سائیکل ڈاکوؤں نے چھین لی اور اس کو زخمی بھی کر دیا۔ ثمینہ اپنے بیٹے کو پریشان دیکھتی تو خود بھی پریشان ہو اٹھتی۔

"دلہن کا قدم بھاری پڑا۔۔ ہمایوں پر مشکلات آ رہی ہیں۔۔"

ثمینہ کو محلے کی عورتوں کی باتیں بالکل ٹھیک لگتی تھی۔ وہ اکثر ہمایوں کے سامنے کہنے لگی

"خوشحالی عورت کے نصیب سے ہوتی ہے اور اولاد مرد کے نصیب سے۔۔ میرے بیٹے کی نصیب سے اللہ نے سال کے اندر اندر ہی اولاد سے نواز دیا۔۔ مگر اس کی زندگی سے خوشحالی چلی گئی۔۔"

مہوش خوب جانتی تھی کہ ان باتوں کا اصل ہدف کون تھا وہ دل ہی دل میں تلملا کر رہ جاتی۔

پھر ایک دن معاملہ سنگینی کی انتہا کو پہنچ گیا۔ ہمایوں کا فوڈ اسٹال انکروچمنٹ کی زد میں آگیا۔ محکمہ جاتی کاروائی اتنی سرعت سے انجام پائی کہ وہ اپنا سامان بھی اٹھا نہیں پایا۔ آدھے سے زیادہ کراکری، فرنیچر اور دیگر سامان ٹوٹ پھوٹ گیا۔ لاکھوں کا نقصان ہوا اور ہمایوں وہیں پہنچ گیا جہاں سے چلا تھا۔ ثمینہ کے دل کو تو پنکھے سے لگ گئے۔

"ہائے میرے بیٹے کی سالوں کی محنت۔۔ شادی کے ان چند سالوں میں سب خاک میں مل گئی۔۔ میں تو صدقہ خیرات بھی کرتی ہوں تاکہ بد نصیبی ٹلے۔۔ مگر اس کی عورت کے نصیب میں ہی تنگی لکھی ہو۔۔ تو کیسے ٹلے گی۔۔"

مہوش کے دل میں کدورت بڑھتی گئی۔

"امی۔۔ بات نصیب کی نہیں، کرپشن کی ہے۔۔ جن لوگوں نے رشوت دی تھی وہ بچ گئے۔۔ یہاں کوئی ترقی نہیں کر سکتا۔۔"

ہمایوں سخت مایوس تھا۔

"صحیح کہہ رہے ہیں آپ۔۔" مہوش کو سہارا مل گیا

"باہر کے ممالک میں اگر کوئی چھوٹا بزنس اسٹارٹ کرتا ہے تو گورنمنٹ اس کو سپورٹ کرتی ہے۔۔ ٹیکس معاف کر دیتی ہے تاکہ وہ ترقی کرے اور یہاں۔۔ یہاں سب سے پہلے چھوٹے بزنس کو ختم کیا جاتا ہے۔۔"

"میں بھی اب یہاں نہیں رہوں گا۔۔ باہر کہیں جاؤں گا۔۔ یہاں تو جرم اور کرپشن کے سوا کچھ نہیں۔۔"

اور پھر ہمایوں نے اپنا کہا سچ کر دکھایا ایک سال کے اندر اندر وہ مڈل ایسٹ سائیڈ پر کام تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ گھر میں پھر سے خوش حالی لوٹ آئی اور مہوش ڈنکے کی چوٹ پر اپنے خوش نصیب ہونے کا اعلان کرنے لگی۔

***

"اور سنا۔۔ کیا حال چال ہے۔۔ کاروبار کیسا چل رہا ہے؟"

ہمایوں نے پوچھا تو انس ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔

"بہت برا حال ہے۔۔ ملک دن بدن نیچے سے نیچے جا رہا ہے۔۔ چھوٹے کاروباری تو تباہ ہوگئے۔۔ لوگ بھوکوں مر رہے ہیں۔"

ہمایوں مایوسی سر ہلا کر رہ گیا۔

"مہنگائی اتنی ہے کہ خرچہ پورا ہی ہوتا۔۔ لوگ اتنے پریشان ہیں کہ اپنے ماں باپ تک کو سپورٹ نہیں کر پا رہے۔۔"

ہمایوں دکھی ہوگیا۔

"کیا کر سکتے ہیں۔۔ پورا نظام ہی بگڑا ہوا ہے۔۔"

انس نے کہا

"یار میں نے اپنا کردار ادا کرنے کا سوچ لیا ہے۔۔ اب میں ہر ماہ کسی ایک یتیم خانے یا اولڈ ہوم جاتا ہوں اور جتنی گنجائش ہوتی ہے ان کی مدد کر دیتا ہوں۔۔ پھل، بسکٹ، کپڑے کھانا وغیرہ لے جاتا ہوں۔۔"

ہمایوں پر جوش سا ہوگیا

"واہ یار۔۔ یہ تو بڑا اچھا کام شروع کیا ہے۔۔ اسی طرح مستحق لوگوں کی مدد ہو سکتی ہے۔۔ مجھے بھی اس کام میں شامل کر لو۔۔ جتنا ہو سکا میں بھی کر لوں گا۔۔"

انس خوش ہوگیا۔

"آج مجھے ایک ایسی ہی جگہ جانا ہے۔۔ تو بھی میرے ساتھ چل۔۔"

ہمایوں تھکا ہوا تھا مگر مقصد اتنا اعلیٰ تھا کہ وہ انکار نہ کر سکا۔

***

"ہیلو رفیق۔۔ کیا اطلاع ہے؟"

مہوش نے پھر فون گھما دیا۔

"ہاں ہاں۔۔ جا رہا ہوں۔۔ ایک راستہ مل گیا ہے۔۔ لمبا چکر پڑے گا۔۔"

رفیق نے کہا تو مہوش بولی

"ہمایوں اپنے دوست کے ساتھ کہیں گیا ہے۔۔ تھوڑی مہلت مل گئی ہے۔۔ مگر اس کے واپس آنے سے پہلے پہلے بڑی بی کو گھر لے آؤ۔۔"

مہوش کو حالات قابو میں آتے محسوس ہوئے ورنہ تو اس کی جان پر بنی ہوئی تھی۔

***

"آئیے آئیے۔۔ آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی یہ ادارے چل رہے ہیں۔۔ ورنہ گورنمنٹ کی طرف سے تو کوئی سپورٹ نہیں ہے۔۔"

ادارے کا منتظم خوشامدی انداز میں ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔ وہ ایک خستہ حال اور گندی سی عمارت تھی۔ بدبو اور گرد سے بھری ہوئی۔ ہمایوں کا دل دکھی ہوگیا۔

"آئیے۔۔ سر۔۔

یہ ہماری بے سہارا خواتین کا ہال روم ہے۔۔

یہ ساری وہ خواتین ہیں جن کا اس دنیا میں کوئی نہیں۔۔ مگر دیکھیے اللہ نے آپ کو ان کے لئے بیٹا بنا کر بھیج دیا۔۔"

***

ہال میں گندے صوفے اور ٹوٹی ہوئی کرسیوں پر کئی ضعیف خواتین بیٹھی تھیں۔

ملگجے کپڑے۔ پژ مردہ چہرے۔ منتظر آنکھیں

منتظم نے ان کی توجہ خواتین کی حالت زار سے ہٹانے کے لئے انچارج کو زور دار آواز لگائی۔

"رشیدہ۔۔ صاحب لوگوں کو ان سب سے ملواؤں۔۔ تاکہ یہ بتائیں کہ انھیں کس کس چیز کی ضرورت ہے۔۔"

رشیدہ گڑ بڑا سی گئی اس نے دیوار کی طرف منہ کئے بیٹھی ایک ضعیف عورت کو ان کے سامنے کھڑا کر دیا۔

"بتاؤ بی بی۔۔ تمہیں یہاں کیسے رکھا جاتا ہے اور کس کس چیز کی ضرورت ہے؟"مگر وہ عورت تو پتھر کا بت بنی رہی۔ رشیدہ نے جھنجھلا کر اسے ہلایا۔"بولو۔۔ ثمینہ بی بی۔۔ بتاؤ۔۔"

مگر ثمینہ بی بی تو پتھر کا بت بن چکی تھی

اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا بیٹا کھڑا تھا

اور پتھر تو ہمایوں بھی بن گیا تھا۔۔

اپنی ماں کو اس حال میں دیکھ کر۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari