Main Kis Ke Haath Pe Apna Lahoo Talash Karoon
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
"تمہارے ہاتھ!بہت خوبصورت ہیں"وہ بڑے انہماک سے اپنی نئی نویلی دلہن کے مہندی سے سجے سُرخ ہاتھ دیکھ رہا تھا۔ دلہن بھی اس کا انہماک دیکھ کر مسکرا دی۔"ایک وعدہ کرو، " وہ بولاکیا؟ پوچھا گیا"کبھی اس مہندی کو پھیکا مت پڑنے دینا۔"تمہیں پتہ ہے؟ مجھے مہندی لگے ہاتھ بہت اچھے لگتے ہیں۔ اس مہندی کی خوشبو"اس نے دلہن کے ہاتھ ناک قریب کئے اور گہرا سانس لیا تھا، لیکن نجانے کیا ہوا، یک دم ہی منظر بدل گیا۔
اسے ہر طرف سرخ رنگ دکھائی دیا، مگر یہ رنگ اس کی دلہن کے حنائی ہاتھوں کا نہیں تھا، یہ رنگ توخوداس کے اپنے ہی لہو کا رنگ تھا، "مہندی، مہندی والے ہاتھ کہاں ہیں، میری دلہن کے سرخ حنا آلود ہاتھ؟ "وہ گھر کے گیٹ کے آگے سرد زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا، خون کا تالاب بڑھتا جا رہا تھا۔ یہ کراچی کا شاہ رخ ہے۔ اس کا قصور کیا ہے؟ اس نے اپنی ماں کو لٹتے دیکھ کر ان کی مدد کی؟ یا اس کا قصور یہ ہے کہ کراچی میں رہتا تھا، کراچی، جہاں کوئی بھی کہیں بھی کسی کو بھی اس کے مال یا جان سے محروم کر سکتا ہے۔
***
"سرخ رنگ مجھے بہت پسند ہے، اور میری بیٹی پر جچتا بھی بہت ہے۔"امی نے کہاتھا"بھئی دلہن کا جوڑا تو سرخ ہی ہونا چاہئے، کسی اور رنگ کے جوڑے میں تو دلہن، دلہن ہی نہیں لگتی، "یہ خالہ کی آواز تھی۔"ہاں ماشااللہ دیکھو کیسی پیاری لگ رہی ہے، سرخ رنگ کے عروسی لباس میں "پھوپھو بھی کیوں پیچھے رہتیں۔ دلہن نے آنکھیں کھول کر اپنی سرخ لباس کو دیکھنا چاہا۔
مگر یہ کیا، ہر طرف سفیدی چھائی ہے، پر شے سفید ہو چکی ہے، کفن کے جیسی سفید، یہ مقتول شاہ رخ کی دلہن ہے، کل کی دلہن، آج کی بیوہ، بس یہ چند دن کا سہاگ کا سکھ تھا؟ لوٹنے والے صرف ایک جان نہیں لی، دوسری جان کو بھی زندہ درگور کردیا۔
"کیا اس لئے میرے ماں باپ نے مجھے اس گھر میں سہاگن بنا کر بھیجا تھا کہ محض چند دن بعد کوئی لٹیرا صرف چند پیسوں کی خا طر میرا سہاگ لوٹ لے؟
***
"بال دیکھو!کیسے نرم و ملائم ہیں، "ماں نے اپنی نوزائیدہ بچے کے ننھے سے سر پربڑی محبت سے ہاتھ پھیرا۔ وہ ساری تکلیفیں بھول چکی تھی، ان تکلیفوں کے طفیل ہی تو اللہ نے اسے فرزند سے نوازا تھا۔ اس بچے کو چہرے کے قریب کر کے ایک گہرا سانس لیا۔"نوزائیدہ بچے سے ایک خوشبو آتی ہے، ہے نا"ماں اپنے بچے کی خوشبو محسوس کر کے بے خود سی تھی۔ مگر یہ کیا ہوا؟ خون کی بو سے اس کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔
خون کی بو اس کے نوزائیدہ بچے کی رگوں سے نہیں، بلکہ جوان بیٹے کے جسم سے بہتے خون سے آ رہی تھی، وہ خون جسے ماں دن رات اپنے لہو سے سینچتی ہے، بہہ بہہ کر سرد زمین میں جذب ہو رہا ہے، بے بسی سے دوڑتی ماں کبھی مدد کوادھر ادھر بھاگتی تو کبھی جان دیتے بیٹے کے پاس بے قرار سی بیٹھ جاتی، قیامت کے اس لمحے کو اس عورت کے سوا کون محسوس کر سکتا ہے جس کی عمر بھرکی کمائی اس کی آنکھوں کے سامنے خاک و خون میں آلودہ پڑی ہو، نہیں کوئی نہیں۔۔
***
"ارے موبائل ہی تو چھین رہاتھا، تو دے دینا تھا، بڑی بے وقوفی کی "شاہ رخ کی بہن کے کان عجیب عجیب باتیں سننے پر مجبور تھے۔
مگر اس کی آنکھوں میں دولہا بنے اپنے بھائی کی شکل ثبت ہو چکی تھی۔"نہیں نہیں یہ سچ نہیں ہے، یہ خواب ہے، ایک بھانک خواب، " وہ بار بار خود کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتی، بیدار ہونے کی خواہش کرتی، مگر بیداری سے کیا حاصل؟ کیا یہ بیداری اس کا بھائی واپس لے آئے گی؟ کب تک؟ آخر کب؟ مائیں اپنے بیٹوں کو مرتا ہوا دیکھتی رہیں گی۔ بیہاتاؤں کی مانگیں ویران ہوتی رہیں گی۔
بہنیں اپنے جوان بھائیوں کی لاشوں پر بین کرتی رہیں گی۔ قانون انصاف کے دعویدار شہر کو پر امن بنانے کے دعویٰ کرتے رہیں گے۔ مرحوم کے لئے ایصال ثواب اور لواحقین سے ہمدردی کی ایک تصویر اخبار میں شائع ہو گی اور بس، نہ جانے کب تک شاہ رخ بجھتے رہیں گے، کب تک؟ آخر کب تک؟