Kirdar
کردار

"تو یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے؟"
وجدانی نے دروازے کے پاس کھڑے کھڑے ہی پوچھا
صبا سامنے صوفے پر کشن گود میں لئے بیٹھی تھی۔ اس نے نظر گھما کر دیکھے بغیر ہی کہا
"جی پاپا۔۔"
وجدانی کے چہرے پر شدید غصے کے آثار نمایاں ہوئے۔
"صبا میں تمہیں۔۔ اپنی سب سے سمجھدار اولاد کہتا تھا۔۔ میرے اتنا سمجھانے پر بھی تم اپنی ضد پر اڑی ہو۔۔ زمان کی غلطی ناقابلِ معانی نہیں ہے۔۔ مگر لگتا ہے لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔۔ تمہیں صرف اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کی فکر ہے۔۔ افسوس ہے تم پر۔۔"
وہ اس کی طرف دیکھے بنا ہی دروازہ دھڑ سے بند کرکے جا چکے تھے۔
صبا نے گود میں رکھے کشن پر اپنا منہ رکھ کر جتنی شدت سے دبا سکتی تھی دبایا مگر اس کی چیخیں اور سسکیاں آج اس کے ضبط کو آزمانے ہی آئیں تھیں۔
***
وجدانی ایک مثالی باپ تھے۔ جنہوں نے کبھی بیٹیوں کو اپنے بیٹیوں سے کم نہیں سمجھا۔
"میری بیٹیاں ہیں۔۔ کسی سے کم نہیں ہو سکتیں۔۔ ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ ہوں گی۔۔ یہ اپنی حفاطت کرنا جانتی ہیں اور مجھے ان پر پورا بھروسہ ہے۔۔"
وہ بچپن سے ہی اپنی بیٹیوں کی ایسی ذہنی تربیت کرتے رہے تھے کہ ان کی بیٹیاں قابل اور با کردار بنیں۔ بیٹیوں نے بھی باپ کا مان رکھا۔ اسکول یا کالج یونی ورسٹی ہو یا آفس ہر جگہ ان کی قابلیت اور کردار کی مضبوطی مثال تھی۔
وجدانی کو اپنی بیٹیوں پر فخر تھا اور صبا ان کی سب سے عزیز بیٹی تھی۔۔
اُس واقعہ سے قبل تک۔۔
***
"تم۔۔ آخر تم چاہتی کیا ہو؟"
ندرت آپا بھی آج اس کے رو برو ہوگئیں۔
"زمان تم سے معافیاں مانگ رہا ہے۔۔ گڑ گڑا رہا ہے۔۔ تمہاری ہر شرط ماننے کو تیار ہے۔۔ مگر تم۔۔ تم ایسی تو نہ تھیں۔۔"
صبا چپ بیٹھی رہی۔ ندرت آپا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ صبا کو کس طرح جھنجھوڑیں جو اس کی خاموشی ٹوٹ جائے۔
"صبا۔۔ ٹھنڈے دل سے سوچو۔۔ تمہارے بچے ٹین ایج میں ہیں۔۔ اس عمر میں تم اپنے شوہر سے علیحدگی لو گی؟ لوگ کیا کہیں گے؟"
وہ منتظر نظروں سے صبا کو دیکھتی رہیں مگر صبا کی وہ ہی ایک چپ۔۔
"دیکھو۔۔ صبا۔۔" وہ پھر سے اپنی ہمت مجمع کرکے بولیں
"میں زمان کی بڑی بہن ہوں۔۔ اس کی ماں کی جگہ ہوں۔۔ میں مانتی ہوں کہ اس نے غلطی کی۔۔ مگر اس وقت اسے سب سے زیادہ تمہاری ضرورت ہے۔۔ مان جاؤ۔۔ یہ ضد چھوڑ دو۔۔"
صبا نے صرف پتھرائی ہوئی نظر سے ندرت آپا کی طرف دیکھا۔
"سوری۔۔ یہ ممکن نہیں ہے۔۔"
اس نے ٹھنڈے لہجے میں کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ ندرت آپا سر پکڑ کر رہ گئیں۔
***
زمان اور صبا۔۔ صبا اور زمان۔۔ گویا کائنات کی دو لازم و ملزوم ہستیاں۔۔ سورج چاند۔۔ قدرت نے انھیں ایک دوسرے سے ایسے باندھا کہ الگ ہونے کا کوئی تصور ہی نہ ہو۔ دونوں پندرہ سال سے ایک ساتھ تھے اور اٹھارہ سال سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ زمان نے تین سال تک صبا کو آبزرو کیا تھا۔ وہ یونی ورسٹی میں کلاس فیلو تھے۔
یونی ورسٹی کا ماحول کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ زمان اور صبا کی کلاس میں بھی نوجوان لڑکے لڑکیاں جلد ہی جوڑوں میں بٹ گئے۔ سال کے آخر تک کئی جوڑیاں ٹوٹیں اور بنیں مگر زمان اور صبا کسی سے بھی نتھی نہ ہوئے۔
صبا کے لئے اس قسم کی کسی سرگرمی میں حصہ لینا بعید از قیاس تھا۔ اس کے پاپا نے بچپن سے ایک ہی بات سمجھائی تھی:
"بیٹا انسان کا کردار ہی اس کی اصل قیمت ہے۔۔ کبھی بھی اپنی قیمت خود کم نہ کرنا۔۔ خود کو اتنا سستا نہ کرنا کہ کوئی آئے اور اپنی مرضی کے مول میں لے جائے۔۔ تم انمول ہو۔۔ ہر آیا گیا تمہارے قابل نہیں ہو سکتا۔۔"
وجدانی نے اپنے بچوں کو بلا تخصیص جنس ایک ہی سبق گھٹی میں پلایا تھا ان کے بچے بھلا راستے سے کیسے بھٹک سکتے تھے یہ ہی وجہ تھی صبا اپنی کلاس کی دیگر لڑکیوں کے بالکل برعکس اپنی عصمت و کردار کو بخوبی سنبھالے رہی اور اس کی یہ ہی خوبی زمان کے دل کو بھا گئی۔ وہ تقریباً ایک سال تک اس کو آبزرو کرتا رہا مگر اس کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی۔
زمان ندرت آپا سے بہت قریب تھا سب سے پہلے اس نے یہ بات ان ہی سے شئیر کی۔
"ارے واہ۔۔ پھر تو واقعی وہ قابل تعریف لڑکی ہے۔۔ فوراً اس کو پرپوز کردو۔۔"
آپا پر جوش ہوگئیں۔
"آپا۔۔"
زمان نے ان کو سرزنش بھرے انداز میں پکارا
"میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ وہ عام لڑکیوں سے بہت مختلف ہے اور مجھے عام لڑکوں کی طرح اس کی طرف پیش قدمی کے لئے کہہ رہی ہیں۔۔ تاکہ وہ مجھے پہلی فرصت میں ریجیکٹ کر دے۔۔"
"اللہ نہ کرے۔۔"
ندرت آپا بنا دیکھے ہی صبا کی گرویدہ ہوچکی تھیں۔
"آپا میں تعلیم مکمل ہونے کا انتظار کروں گا اور پھر ڈائریکٹ اس کے گھر رشتہ بھیجوں گا۔۔"
زمان سب سوچ چکا تھا۔
"اور اگر تب تک اس کی کہیں اور بات طے ہوگئی تو۔۔"
اب کی بار زمان کو کہنا پڑا
"اللہ نہ کرے۔۔"
ندرت آپا ہنس دیں
"ہاں۔۔ ہاں اللہ نہ کرے۔۔ مگر بندہ بھی تو کچھ کرے۔۔ سنو۔۔ تم اس کے ایڈریس کی کھوج لگاؤ۔۔ باقی مجھ پر چھوڑ دو۔۔ میرا وعدہ ہے اس کو تمہاری دلہن بنا کر دم لوں گی۔۔"
اور پھر ندرت نے ایسا ہی کیا۔ نہ جانے کیا کیا چکر چلائے اور صبا کے گھر تک رسائی حاصل کر ہی لی۔۔ ندرت نے زمان کی پرانی کلین شیو تصویر دی تاکہ صبا نہ پہچان سکے یوں بھی صبا نے کبھی کلاس میں زمان کی طرف نظر بھر کر بھی نہیں دیکھا تھا پرانی تصویر سے کیا خاک پہچانتی۔ یوں شادی طے ہو جانے تک کسی کو ہوا بھی نہ لگنے کی دی کہ دونوں کلاس فیلوز ہیں۔
شادی کے بعد جب صبا پر یہ سارے راز کھلے تو ہنس ہنس کر بے حال ہوگئی۔
"بھئی آپ دونوں بہن بھائیوں نے یہ سب گھن چکر چلایا کیوں؟"
ندرت آپا نے اس کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا"تاکہ تمہارے کردار پر کوئی بات آئے نہ زمان کے۔۔ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ دونوں کے درمیان یونی ورسٹی میں کوئی چکر تھا۔۔ اب سب جانتے ہیں کہ تم نے صرف اپنے ماں باپ کی پسند پر بھروسہ کیا۔۔ خوش نصیب ہے زمان۔۔ جو آج کے دور میں اس کو ایسی با کردار لڑکی ملی۔۔"
"آپا۔۔ کردار تو میرا بھی کچا نہیں۔۔ آج تک کبھی کسی کی طرف ایسی ویسی نگاہ نہیں کی۔۔ بس ایک لڑکی کو پسند کیا اور اسی سے شادی کی۔۔"
شائد زمان کو صبا سے جیلسی ہو رہی تھی ندرت بھی ہنس پڑی۔
"ہاں یہ تو ہے۔۔ ویسے بھی بزرگ کہتے ہیں اللہ ایک جیسے لوگوں کی جوڑیاں بناتا ہے۔۔ نیک عورتوں کے لئے نیک مرد اور نیک مردوں کے لئے نیک عورتیں۔۔"
صبا کو اپنی تربیت اور خوشی نصیبی پر فخر ہوتا تھا۔
زمان کا ایک خواب اور بھی تھا۔۔ امریکہ جانا اور وہ اپنی دھن کا پکا تھا۔ اس کا تعلیمی ریکارڈ بھی شاندار تھا لہذا جلد ہی اس کو یہ خواب بھی پورا ہوا۔ صبا ہر قدم پر اس کے ساتھ تھی۔
"آپ یہاں کی کوئی فکر نہ کریں۔۔ میں سب سنبھال لوں گی۔۔ بچے ابھی چھوٹے ہیں۔۔ آسانی سے ہینڈل ہو جائیں گے۔۔ آپ وہاں اچھا سا سیٹ آپ بنائیں۔۔ پھر ہمیں بلائیں۔۔"
زمان کا بھی یہی ارادہ تھا مگر بڑھتی ہوئی مہنگائی، ٹیکسز اور اخراجات سب اس کی راہ کی رکاوٹ تھے۔ ان ہی کوششوں میں پتہ ہی نہ چلا اور کئی سال گزر چکے تھے۔ صبا نے اپنا کہا پورا کر دکھایا۔ زمان کو پاکستان کی فکروں سے آزاد کر دیا اور سسرال اور بچوں کی ذمہ داری خوب اچھی طرح نبھائی۔ مگر زمان کے لئے صبا کے بغیر رہنا بھی ایک امتحان ہی تھا۔ وہ بمشکل چند ماہ ہی گزار پاتا اور بار بار پاکستان کے چکر لگاتا۔
"زمان۔۔ ایسے تو سیونگ نہیں ہو پائے گی۔۔ آنے جانے میں ساری بچت ختم ہو جائے گی۔۔"
صبا اس کو روکنے کی کوشش کرتی مگر زمان صبا سے دور نہیں رہ پاتا تھا۔
"بس صبا۔۔ اتنے دن ہی رہ سکتا تھا۔۔ شدت سے تمہاری یاد آتی۔۔ رہا نہیں جاتا مجھ سے۔۔"
صبا اس کی بے تابی پر محجوب ہو کر کہتی۔
"آپ کے جو دوست دس دس سال سے وہاں ہیں وہ کیا کرتے ہیں؟"
"وہ بے وفائی کرتے ہیں۔۔ جو میں نہیں کر سکتا۔۔ میری زندگی میں تمہارے سوا کسی کا گزر نہیں ہے۔۔"
صبا کو زمان کے کردار پر مان تھا۔
***
"کیا ہوا؟"
زمان جاب سے واپس آیا تو اس کو روم میٹ علی رضا سر پکڑے بیٹھا تھا اور اس کا موبائل سامنے میز پر پڑا تھا۔
زمان نے موبائل کی طرف ایک نظر دیکھا اور فوراً ہی نگاہ پھیرنی چاہی مگر اس کی نگاہ فریز سی ہوگئی تھی۔
موبائل فون پر علی رضا کی بیوی کسی لڑکے کے ساتھ بوس و کنار کرتی نظر آ رہی تھی۔
"امی بار بار کہتی تھیں۔۔ واپس آ جا۔۔ ورنہ تیری بیوی سر میں خاک ڈال دے گی۔۔ وہ ٹھیک کہتی تھیں۔۔"
علی رضا ٹوٹا ہوا سا تھا۔
زمان نے اس کو تسلی دینا چاہی مگر اسی وقت راشد وہاں آ گیا
وہ سب سن چکا تھا اسی لئے ہنستے ہوئے بولا"یہ تو عام سی بات ہے پیارے۔۔ اتنا جذباتی کیوں ہو رہا ہے۔۔ ہم پردیسیوں کی بیویاں بے وفا ہو ہی جاتی ہیں۔۔ یہاں آئے لوگوں سے مل کر دیکھ۔۔ سب کے ساتھ یہ سب ہوتا ہے۔۔ ہم یہاں۔۔ وہ وہاں۔۔ چور راستے اپنا ہی لیتے ہیں۔۔ بس کچھ کے بھانڈے پھوٹ جاتے ہیں اور کچھ کے بچ جاتے ہیں۔۔"
راشد کی بات پر زمان کو نجانے کیوں غصہ آگیا۔
"پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔۔ بہت سے با کردار مرد ہیں۔۔ جن کی ثابت قدم بیویاں پاکستان میں اپنی عزت کی حفاظت کر رہی ہیں۔۔"
راشد پر ہنسی کو دورہ سا پڑ گیا۔
"عزت کی حفاظت نہیں پیارے۔۔ راز کی حفاظت کر رہی ہیں۔۔"
زمان سخت غصے کے عالم میں اس کو دیکھتا رہ گیا
***
زمان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
"یہ۔۔ یہ۔۔ خدایا۔۔"
دنیا اس کے نظروں کے سامنے زمین بوس ہو رہی تھی۔
"کیا ہوا زمان۔۔ کیا لکھا ہے رپورٹ میں۔۔"
صبا اور کو سر پکڑ کر بیٹھتے دیکھ کر گھبرا گئی۔ اس نے رپورٹ اٹھائی اور پڑھنے لگی۔ پیروں کے نیچے سے زمین کیسے سرکتی ہے صبا کو اس دن پتہ چلا۔
"یہ۔۔ یہ۔۔ کیسے۔۔ ہو سکتا ہے رپورٹ غلط ہو۔۔ تم۔۔ تم پریشان مت ہو۔۔ میں۔۔ میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔۔ میں۔۔ میں ہر حال میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔"
صبا جلدی سے زمان کے شانے پر بانہیں پھیلاتے ہوئے بولی مگر نجانے کیا ہوا۔۔ زمان نے نہایت سختی سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
"ہاں۔۔ تم۔۔ تم ہو ناں میرے ساتھ۔۔ اسی لئے یہ سب ہوا ہے اور یہ رپورٹ غلط نہیں ہے۔۔ میرا دل کہہ رہا ہے۔۔ تم۔۔ تم غلط ہو۔۔"
صبا نے کبھی زمان کو اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔
"میں۔۔ میں نے کیا کیا ہے؟"
زمان کا زناٹے دار تھپٹر صبا کو گال لہو لہان کر گیا۔
"کیا کیا ہے۔۔ تم نے بے وفائی کی ہے۔۔ یہ ایڈز کا روگ مجھے تم سے لگا ہے۔۔"
صبا کو لگا اس کے دل کی دھڑکن تھم جائے گی۔
"میں۔۔ میں نے بے وفائی کی ہے؟ میں نے۔۔"
"ہاں۔۔ ہاں تم نے۔۔ ورنہ بتاؤ مجھے یہ مرض کس طرح ہوا؟ میں کبھی کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔۔ ایسے بے راہ رو معاشرے میں رہ کر بھی کبھی کسی موقع کا فائدہ نہیں اٹھایا۔۔ میں جانتا ہوں کہ میں پاک ہوں۔۔ یہ تم ہو صبا۔۔ یہ تم ہو۔۔"
صبا کے کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔
زمان کارپٹ پر بیٹھا آنسو بہا رہا تھا۔
"تم نے میری زندگی تباہ کر دی۔۔ میں نے تمہاری خاطر کیا کیا نہ کیا اور تم نے مجھے کیا دیا۔۔"
"تم۔۔ تم مجھ پر شک کر رہے ہو۔۔ میرے کردار پر انگلی اٹھا رہے ہو۔۔"
صبا کو خود اپنے ہونے پر یقین سا نہیں ہو رہا تھا۔
***
"صبا اور زمان میں علیحدگی ہوگئی۔۔"
"کب۔۔"،"کیسے؟"،"کیوں؟"،"زمان کو ایڈز ہوگیا ہے۔۔ اسی لئے صبا نے اس کو چھوڑ دیا۔۔ ہاں بھئی۔۔ زندگی تو سب کو پیاری ہوتی ہے۔۔"
"ایڈز زدہ شوہر کے ساتھ رہنا تو محرومی کے ساتھ رہنا ہے۔۔"
"اتنا حوصلہ ہر کسی میں کہاں؟"
"شوہر کے ہوتے ہوئے بیوہ بن کر جینا پڑے گا۔۔"
غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔۔ مگر صبا کی ایک چپ۔۔
اس دن صبا نے صرف اتنا کہا تھا۔
"زمان۔۔ کل لیباٹری چلیں۔۔ مجھے اپنا ٹیسٹ کروانا ہے۔۔"
اور صبا کی رپورٹ کلیئر تھی۔ اس کو ایڈز نہیں تھا۔
زمان کے سر پر آسمان گر پڑا۔"پھر۔۔ پھر مجھے کیسے؟"
وہ حیرت سے ڈاکٹر کو تکنے لگا
"زمان صاحب۔۔ آپ تو پڑھے لکھے انسان ہیں۔۔ جانتے ہیں ایڈز کے پھیلنے کے اور بھی طریقے ہیں۔۔ سب سے زیادہ تو یہ انجکشن سے پھیلتا ہے۔۔"
انجکشن کے نام پر زمان کے دماغ میں جھماکا سا ہوا۔
چند ماہ قبل وہ ایک بزنس ٹرپ پر بینکاک گیا تھا۔۔ جسم فروشی کے اس گڑھ میں بھی زمان کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی مگر وہاں جاتے ہی وہ بخار اور کھانسی کے وائرس کی پکڑ میں آگیا۔ مقامی گائیڈ اس کو ہوٹل کے پیچھے ایک چھوٹے اور گندے سے کلینک لے گیا جہاں ڈ اکٹر نے اس کو انجکشن لگایا تھا۔
"سب جانتے ہیں کہ بنکاک۔۔ منیلا۔۔ تھائی لینڈ جسم فروشی کے اڈے ہیں اور وہاں ایسے کیسز عام ہیں۔۔ آپ تو پڑھے لکھے آدمی ہیں۔۔ آپ نے ایسی جگہ اتنی بے احتیاطی کا مظاہرہ کیوں کیا؟"
ڈاکٹر زمان سے پوچھ رہا تھا مگر زمان کے حواس گم ہو چکے تھے۔ صبا نجانے کب کی جا چکی تھی۔ زمان صبا کے پیچھے بھاگا۔
"صبا۔۔ صبا۔۔ مجھے معاف کرود۔۔"
وہ روتا ہوا اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔"مجھے اس حال میں چھوڑ کر نہ جاؤ۔۔"
وہ گڑ گڑا رہا تھا۔ مگر صبا کے کان پتھرا گئے تھے جس دن زمان نے اس کے کردار پر شک کیا تھا۔
زمان کے لئے صبا کے دل کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو چکا تھا۔

