Jadeed Razia Sultan
جدید رضیہ سلطان
دشمن کی سپاہ اس کے میدان میں آنے سے پہلے ہی موجود تھی۔
سیاہ برقعہ میں ملبوس رضیہ سلطان، اپنی اسکوٹی سے اترنے سے پہلے ہی دشمن کی فوج کو دیکھ چکی تھی جو گویا اس کے صف آرا تھے۔ اسکوٹی سے پارک کرنے سے لے کر پیدل چلنے تک، کہیں بھی اس کی چال یا انداز میں کوئی خوف یا جھجھک نہیں تھی۔ اس کی آنکھوں میں غصے سے زیادہ عزم چھلک رہا تھا۔ ڈٹ جانے کا عزم، اپنے فخر اور مان سمان کی حفاظت کا عزم، بزدل دشمن رضیہ سلطان کو اکیلا پا کر مزید شیر ہوگیا۔ نہتی لڑکی سے لڑنا انھیں بہت آسان لگا ہوگا، وہ سب مل کر اس کے خلاف نعرے بازی کرنے لگےہر طرف سے زعفرانی تلواریں اس کی طرف بڑھنے لگیں۔
مگر وہ اپنے سیاہ برقعہ میں بے خوف دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی رہی۔ دشمن کے نعرے بڑھنے لگے، مضبوط قدموں سے چلتی رضیہ سلطان شیرنی کی طرح ان گیڈروں پر لپکی۔ ایک کھلبلی سی مچ گئی۔"اللہ اکبر"اس نے فضا میں ہاتھ بلند کر کے نعرہ تکبیر سے جواب دیا۔ اس کے اللہ اکبر کے نعرے نے دلوں میں ہیبت سی بٹھا دی۔ مردوں کے اس ہجوم میں وہ اکیلی تھی مگر ثابت قدم تھی۔ یہ جدید رضیہ، سلطان ِہند مسکان ہےایک نرم و نازک لڑکی کرناٹک کے کالج میں بی کام سیکنڈ ایئر کی طالبہ، با پردہ اور پر اعتماد!
جو نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے جیسی اور بہت خواتین کے لئے ڈھال بن گئی ہے۔ وہ ان نعروں اور نفرت کی سیاست سے ڈری نہیں بلکہ ڈٹ کر کھڑی ہو گئی۔ اسے حجاب اور تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے مگر وہ دونوں کے لئے لڑ رہی ہے، میرا جسم میری مرضی کہنے والیاں دم بخود ہیں اور وہ میرا برقعہ میری مرضی کا نعرہ ببانگ دہل لگاتی ہے۔ کہاں گیا وہ خواتین کے حقوق کاعلمبردار ٹولہ؟ جی ہاں وہی ٹولہ جو سڑکوں پر ناچ گا کر اپنے آزادی مانگتا تھا۔ مسکان بھی تو آزادی ہی مانگ رہی ہے۔ وہ بھی اپنی مرضی کا لباس پہنا چاہتی ہے۔
جینز پہنے کی آزادی مانگنے والیاں، برقعہ پہنے کی آزادی مانگنے والی کا ساتھ کیوں نہیں دے رہیں؟ دوپٹہ اتار پھینکنے کو اپنا بنیادی حق قرار دینے والیاں، دوپٹہ پہنے کی آزادی مانگنے والی کے حق میں کیوں نہیں بول رہیں؟ خواتین کی تعلیم کی علمبردار تنظیموں کو مسکان کی تعلیم کی فکر کیوں نہیں ہے؟ کم لباس پر ہراساں ہونے والیوں کو، پناہ دینے والے مکمل لباس پر ہراساں ہونے والی کے ساتھ کیوں نہیں کھڑے؟ بے پردہ رہنے والیوں کا ساتھ دینے کےلئے ہزاروں لوگ نکل آئے، پردے میں رہنے والی کا ساتھ کون دے گا؟
نہ مسکان نے جلسہ نکالا نہ جلوس، نہ ہاتھ میں واہیات بینر اٹھائےمگر اپنے حق کے لئے آواز بلند کردی، وہ اپنے حجاب پر فخر کرتی ہے اور اس کا پردہ اس کا مان ہے۔ مگر چند انتہا پسندوں کے لئے یہ برقعہ نسل پرستی کا نشان بن گیا ہے۔ سیاست کی بساط بچھائی جا رہی ہے۔ نئی چالیں چلی جا رہی ہیں۔ برقعہ کو سیاست میں استعمال کرنے کی ترکیبیں سو چی جا رہی ہیں۔ مگر مسکان جیسی با ہمت خواتین اس سب سے لاپروا ہو کر محض اپنے حق کے لئے لڑتی رہیں گی اور ان کا ساتھ دینے والے قوم و مذہب سے بالاتر ہو کر ان کا ساتھ دیتے رہیں گے۔
عزم و ہمت کے یہ نشان ایسے راستے ہموار کر جائیں گی، جس پر آنے والی نسل بے خوف و خطر چل سکے گی۔