Hajoom, Soch Se Mehroom
ہجوم ، سوچ سے محروم
ہم قوم نہیں۔۔ ہجوم ہیں۔ جی ہاں ہم خود کو سینہ ٹھونک کر قوم کہتے ہیں مگر درحقیقت ہم محض ایک ہجوم ہیں۔ جوبے ترتیب غول بنائے یہاں سے وہاں بے مقصد چکرا رہے ہیں۔ یقین نہ آئے تو ایک کام کریں، باہر جائیں بیچ روڈ پر کھڑے ہو کر آواز لگائیں، "پاکستانی چور ہیں۔۔ لٹیرے ہیں!"کیا ہوگا؟ کچھ نہیں۔ لوگ آپ کے اردگرد سے گزریں گے۔۔ سر ہلائیں گے۔۔ کچھ تو آپ کی تائید بھی کرتے جائیں گے اور اکثر مسکرائیں گے۔۔ اور لوگ ہی کیوں خود آپ بھی اس وقت مسکرا رہے ہیں۔۔
اب ذرا یہ تو کہیے، سنی چور ہیں!شعیہ چور ہیں!سندھی لٹیرے ہیں!مہاجر سب کے سب ڈاکو ہیں!کر سکتے ہیں؟ ؟ نہیں ناں۔ کیوں سوچ کر ہی پسینہ آ گیا؟ مسکراہٹ ہوا ہو گئی ناں؟ جان خطرے میں نطر آنے لگی؟
ہم اپنے فرقے طبقے قومیت زبان کی بارے میں بہت حساس ہیں۔ مگر ملک و قوم سے ہمیں کوئی لگاؤ نہیں بس شکایتیں ہی شکائیتں ہیں۔ پاکستان ہمارے نزدیک صرف رہنے کی جگہ ہے اور ہم یہاں ایک ہجوم کی طرح رہتے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا اور ہم اس وطن میں ایک قوم ہوتے تو مری کا سانحہ نہ ہوتا۔
محکمہ موسمیات نے تو پانچ جنوری کوہی متنبہ کر دیا تھا کہ شدید برف باری ہوگی راستے سڑکیں بند ہوسکتی ہیں۔۔ لیکن تفریح کو ترسا ہوا ایک ہجوم تھا جو مری کی سمت چل پڑا۔۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ۔۔ زندگی انجوئے کرنے۔۔ کتنی ا نجوائے منٹ چاہئے ہمیں؟
نیا سال۔۔ شرابوں پٹاخوں کی انجوئے منٹ، چودہ اگست۔۔ باجوں کی انجوئے منٹ، رمضان۔۔ منافع خوری کی انجوئے منٹ، عید۔۔ شاپنگ کی انجوئے منٹ، شادی۔۔ دکھاؤے کی اجوئے منٹ، سو "چلو چلو مری چلو" کا نعرہ لگاتا ہجوم نکل کھڑا ہوا۔۔ با لکل ویسے ہی جیسے بحیرہ عرب میں طوفان کی پیش گوئی سن کر ایک ہجوم انتظامیہ کو چکمہ دے کر ساحل پر ضرور جاتا ہے۔ بالکل ویسا ہجوم جو غذائی اشیا کی قلت کے دوران ان اشیا کو پہلے سے بھی زیادہ استعمال کرنے لگتا ہے۔
لہذازندہ دل ہجوم تیس ہزار گاڑیاں لیے مری پہنچ گیا۔ یہ جانے بغیر کہ مری میں کل تین ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ دستیاب ہے۔ یہ جانے بغیر کے وہاں پہنچ کر انھیں کہیں ٹہرنے کے لئے کمرہ میسر ہوگا یا نہیں۔ یہ جانے بغیر کے شدید برف باری میں ہنگامی صورتحال سے کیسے نمٹا جاتا ہے۔ یہ جانے بغیر کہ ان کی گاڑی برف میں چلنے کے لئے مناسب نہیں ہے۔ یہ جانے بغیر کی گاڑی میں بیٹھ کر رات گزارنے کے لئے کون سی احتیاطی تدابیر اپنانی چاہئے۔
تیس ہزار گاڑیوں میں کم از کم ساٹھ ہزار لوگ تو ہوں گے۔ کیا اتنی بڑی افرادی قوت اس صورت حال کا حل نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتی؟ مگر مدد کا منتظر ہجوم ساری رات گاڑیوں میں بیٹھا رہا۔ ہجوم تھا اس لئے۔۔ قوم ہوتی تو یکجا ہو کر حل نکالتی۔۔ زندگیاں بچاتی۔
دوسری طرف انتظامیہ کا ہجوم تھا، جو یہ ساری صورت حال دیکھ رہا تھا مگر ہجوم کی صرف آنکھیں ہوتی ہیں دماغ نہیں ہوتا جو خطرے کو محسوس کر سکے، سو انتظامی ہجوم نے ہزاروں کی گنجائش والے شہر میں لاکھوں افراد کو داخل ہونے دیا، یہ سوچے بغیر کہ برف کے طوفان میں اتنی گاڑیاں کہاں پارک کی جائیں گی۔ یہ اندازہ لگائے بغیر کے اتنی گاڑیوں کی موجودگی میں برف صاف کرنے والی مشینری کیسے متحرک ہو گی، یہ سوچے بغیر کہ اتنے لوگ سرد ترین موسم میں کہاں ٹہریں گے؟ یہ سوچے بغیر کہ اتنے افراد کے لئے شہر میں ایندھن، پانی اور خوراک کہاں سے آئے گی؟ لیکن ہجوم کے پاس دماغ نہیں ہوتا جو سوچ سکے۔
مری میں ایک تیسرا ہجوم بھی تھا، انسانیت سے عاری تاجروں کا ہجوم جن کے نزدیک ایک ابلا ہوا انڈا ایک انسانی زندگی سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ پانی ایک بوتل محض بوتل نہیں بلکہ خزانے کی چابی ہے۔ سو انھوں نے اپنا مال بنایا، یہ نہ سوچا کہ یہ سیاح جو اس علاقے کی آمدنی کا سب سے بڑا سبب ہیں یہ ہی نہ رہے تو آمدنی کہاں سے ہوگی؟ وہاں سیاحوں کو سیزن قرار دینے والے ہوٹل مالکان کا ہجوم بھی تھا جن کے نزدیک سیاحوں سے حاصل ہونے والی آمدنی ہی حاصل حیات ہے۔
وہ بھی نہ سوچ پائے کہ یہ سیزن تو ہر سال آتا ہے کیوں نہ اس ہنگامی صورت حال میں اس "سیزن "کو انسان کا درجہ دے دیا جائے۔ لیکن ایسا نہ ہوا ہجوم نے فرد بن کر اپنا فائدہ سوچا۔۔ قوم بن کر نہیں سوچا۔
سیاحت آج دنیا بھر میں ایک صنعت کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ لاکھوں زرمبادلہ حاصل کرنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ ہر ملک سیاحت کو فروغ دینے کے لئے کوشاں ہے۔ سیاحوں کو زیادہ سے زیدہ سہولیات دے کر اپنی طرف توجہ کرتا ہے۔ لیکن ہمارا حکمران ہجوم اس بارے میں قطعی فکر مند نطر نہیں آتا کہ ایسے میں پاکستان سے جانے والی ایسی خبریں غیر ملکی سیا حوں پر کیا اثرات مرتب کریں گی۔
کاش ہم قوم بن کر سوچ سکیں، اجتماعی سوچ میں انفرادی فائدہ خود بخود حاصل ہو جاتا ہے مگر ہجوم کے لئے اس بات کو سمجھنا مشکل ہے کیوں کہ ہجوم سوچ نہیں سکتا۔