Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Darwaze Ki Kundi

Darwaze Ki Kundi

دروازے کی کنڈی

"تو پھر۔۔ پرسوں آپ چلے جائیں گے۔۔"

آنسو سے بھیگی آواز رات کے سناٹے میں یوں سرسرائی تھی کہ جیسے ہوا ساکت پتوں کے بیچ سے سسکتی ہوئی گزر گئی ہو۔ پورا چاند چھت پر اپنی آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ واسع نے سامنے بیٹھی اپنی نئی نویلی دلہن کی طرف دیکھا۔ چاندنی میں اس کے رخساروں پر آنسو ستاروں کی طرح جھلملا رہے تھے۔ اس کے دل کو کچھ ہونے لگا۔

"دانیہ۔۔ جلد ہی واپس بھی آ جاؤں گا۔۔ بس کچھ ماہ۔۔ یا شائد سال۔۔"

واسع کی جھوٹی تسلی خود اس کے اپنے دل کو قرار نہ دے سکی تو دانیہ کے ڈوبتے دل کو کیا سہارا دیتی۔۔ اس کی سسکیوں کی آوازیں واسع کا دل چیر رہی تھیں۔ اس نے بے ساختہ اپنی عروس کو گلے لگانا چاہا مگر زینے پر قدموں کی آہٹ نے اس کو روک دیا

"واسع۔۔ بیٹا واسع۔۔ نیچے آ جاؤ۔۔ یہ تمہارا انگلینڈ نہیں ہے۔۔ یہاں رات میں مچھر ہوتے ہیں۔۔ بیمار نہ پڑ جانا۔۔"

صبیحہ آدھی سیڑھیوں تک رک گئی مگر اپنی امی کی آواز سن کر واسع کی کھلی بانہیں نیچے گر گئیں

"چلو۔۔ امی بلا رہی ہیں۔۔"

***

"دلہن ادھر بیٹھو۔۔"ساس نے دانیہ کو آواز دے کے بلایا۔

"جی امی۔۔"

وہ فرمابرداری سے پاس جا بیٹھی۔

"واسع کہاں ہے؟"

صبیحہ نے پوچھا

"وہ۔۔ اپنے دوستوں سے ملنے گئے ہیں۔۔"

واسع کے نام پر دانیہ کے چہرے پر بیک وقت خوشی اور غم کی قوس و قزح بارش کی دھوپ چھاؤں کی طرح بکھر گئی۔ صبیحہ نے اپنی بہو کے چہرے کے ہر رنگ کو بخوبی دیکھا تھا۔

وہ متانت سے بولی

"دیکھو۔۔ بیٹا۔۔ دانیہ۔۔ میں تمہارے جذبات سمجھ سکتی ہوں۔۔ شادی کے محض پندرہ دن بعد شوہر کو پردیس بھیجنا۔۔ معمولی بات نہیں۔۔ مگر سچائی یہ ہی ہے۔۔ بیٹا۔۔ پلیز ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے اس کا سفر بھاری ہو جائے۔۔ ہنسی خوشی رخصت کرنا۔۔ تمہارے آنسو اس کی راہ کی رکاٹ نہ بنیں۔۔"

دانیہ نے نگاہ اٹھا کر انھیں دیکھا اس کی آنکھیں آنسو سے لبریز تھیں۔

"ابھی رو لو۔۔"

صبیحہ نے اس کو گلے لگا لیا

"واسع کے سامنے تمہاری آنکھ سے ایک آنسو نہ بہے۔۔ یہ میرا حکم ہے۔۔"

اور ایسا ہی ہوا۔ دانیہ نے اپنے آنسوؤں پر باڑھ بٹھا دی۔

***

واسع چلا گیا۔

دانیہ اپنے حجلہ عروسی میں بیٹھی تھی۔ دل سخت بوجھل تھا۔ صبیحہ ہلکی سے دستک کے بعد کمرے میں داخل ہوگئیں۔ انھوں نے اپنا تکیہ بغل میں دبایا ہوا تھا۔ وہ کچھ لحظہ کھڑی دانیہ کو دیکھتی رہیں پھر اس کے قریب بیٹھ گئی۔

"اب تمہیں رونے کی اجازت ہے۔۔ کھل کر رو لو۔۔ مگر صرف میرے سامنے۔۔ واسع کے سامنے رونے کی اجازت میں نہیں دوں گی۔۔"

صبیحہ نے نرم لہجے میں کہا مگر دانیہ کو ان کا نرم لہجہ کوڑوں کی طرح لگا۔

صبیحہ نے اس کی ناراض نگاہوں کو اگنور کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔

"یہ میرے ہاتھ دیکھ رہی ہو؟ یہ ایک محنت کش عورت کے ہاتھ ہیں۔۔"

اب صبیحہ اپنے ہاتھوں کو تَک رہی تھی۔

"تم جانتی ہو دانیہ کہ میں اور میرے مرحوم شوہر گورنمنٹ ٹیچرز تھے۔۔ تنخواہ تو بہت زیادہ نہ تھی مگر اس معاشرے نے عزت بہت دی اور عزت کا بھرم اپنی سفید پوشی میں رہ کر رکھنا۔۔ بڑا مشکل کام ثابت ہوا تھا۔۔"

دانیہ بالکل نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ ان سب باتوں کا مقصد کیا تھا۔ وہ جذباتی طور پر بہت ڈسٹرب تھی اور ان باتوں میں اس کو ذرا دلچسپی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔

"تین بیٹیاں۔۔ ایک بیٹا۔۔ اچھی تعلیم۔۔ اچھے کپڑے۔۔ اچھا گھر۔۔ اچھا لینا دینا۔۔ سب کچھ کیا ہم نے۔۔ مگر میرا خواب نہ اچھا کھانا تھا۔۔ نہ اچھا گھر۔۔ نہ اچھے کپڑے۔۔ میرے خواب بہت بلند تھے۔۔ ان سب سے بالا تر۔۔"

صبیحہ خلاؤں میں دیکھ رہی تھیں۔

"میرا خواب تھا اور اب بھی ہے کہ میرا بیٹا بڑا آدمی بنے۔۔ وہ کتابی بڑا آ دمی نہیں جو تھوڑا بہت پیسہ کما کر صرف اپنے خاندان میں مثال بن جاتا ہے۔۔ وہ بڑا آدمی۔۔ ایسا بڑا سائنس دان جو پوری دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔۔ جس کا ذکر کتابوں میں ہوتا ہے اور میں۔۔ میں اس بڑے آدمی کی۔۔ اس عظیم سائنس دان کی ماں۔۔ بنوں۔۔ میرا نام بھی اس کے نام کے ساتھ کتابوں سےہوتا ہوا اگلی نسلوں تک پہنچے۔۔"

یوں لگتا تھا کہ صبیحہ اس کمرے میں موجود ہی نہیں ہیں وہ خیالوں ہی خیالوں میں کسی بڑے مجمعے کے ڈائس پر کھڑی ہیں۔ ساری دنیا ان کے سامنے موجود ہیں اور واسع کی ماں ہونے کا تاج لگائے فخر و غرور سے سب کو دیکھ رہی ہیں۔۔ مسکرا رہی ہیں۔۔

"امی۔۔" دانیہ نے ان کی کیفیت سے خوف زدہ ہو کر انھیں آواز دی۔

"او ہو۔۔ ارے۔۔ دیکھو تو۔۔ میں بھی خیالوں میں کہاں سے کہاں نکل گئی۔۔"

صبیحہ ہنس پڑی

"میں یہ سب باتیں تمہیں اس لئے بتا رہی ہوں کہ اب تم بھی واسع کی زندگی میں شامل ہو۔۔ تمہیں میرے اس خواب میں بھی شامل ہونا ہے۔۔ نام صرف میرا نہیں۔۔ تمہارا بھی ہوگا۔۔ بطور بیوی۔۔ میرا ساتھ دو دانیہ۔۔ اس کی راہ میں اپنا جسم اور اپنے جذبات مت لانا۔۔ اس کا مقصد حیات ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بہت بلند ہے۔۔ باقی۔۔ جسم اور جذبات کی ضرورت سے تو میں بھی انکاری نہیں۔۔ مگر یہ کوئی عظیم مقصد تو نہیں ہے۔۔"

صبیحہ نے اپنا تکیہ دانیہ بیڈ پر رکھا اور پیر سمیٹ کر لیٹے ہوئے کہا۔

"سو جاؤ۔۔ تم بھی تھک گئی ہوگی۔۔"

دانیہ سن سی رہ گئی۔

***

واسع اور دانیہ دو بالکل الگ الگ دنیاؤں کے باسی تھے۔ واسع ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ باشعور نوجوان جو اپنے کئریئر کو چار چاند لگانے انگلینڈ چلا گیا تھا۔ معاشرے میں بڑی عزت کی نظر سے دیکھے جانے والے اساتذہ والدین کا اکلوتا بیٹا۔ جس کی تعلیم پر انھوں نے اپنی تمام تر پونجی لگا دی تھی جب کہ دانیہ کم عمر، کم تعلیم یافتہ لڑکی جس کا باپ ایک جنرل اسٹور پر کشیئر کی معمولی سی ملازمت کرتا تھا اور ماں گھر میں لوگوں کے کپڑے سی کر زندگی کی گاڑی کو دھکا لگاتی تھی۔

"امی۔۔ آپ نے کیا دیکھا؟"

صبیحہ کی بیٹیاں اپنے اکلوتے بھائی کے لئے نجانے کیا کیا سپنے سجائے بیٹھی تھیں۔ ان کا خوبصورت اعلیٰ تعلیم یافتہ بھائی دانیہ سے کہیں بہتر جیون ساتھی کا حق دار تھا مگر صبیحہ نے سب کو خاموش کر دیا۔

"جو میں دیکھ رہی ہوں۔۔ وہ تم لوگوں کو نظر نہیں آ ئے گا۔۔ بس اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی۔۔ دانیہ ہی واسع کی دلہن بنے گی۔۔"

بیٹیاں ماں کی سخت گیر طبعیت سے واقف تھیں لہذا چپ چاپ تیاریوں میں مگن ہوگئیں۔ واسع کو بھی ماں کے انتخاب پر تھوڑی حیرت ہوئی۔۔

"امی نے ہمیشہ میرے لئے بہترین کا انتخاب کیا ہے مگر دلہن۔۔"

وہ پوچھنا چاہتا تھا مگر اپنی ماں کی قربانیوں کا اتنا زیر بار تھا کہ کچھ نہ کہہ سکا اور پہلی رات ہی دانیہ کی من موہنی صورت نے اس کا دل جیت لیا وہ ایک بار پھر اپنی ماں کے انتخاب کا قائل ہوگیا۔ شادی کے بعد پندرہ دن کا ٹائم واسع اور دانیہ کے لئے بہت ناکافی تھا اس میں بھی صبیحہ ارادی طور پر واسع کو خود سے نتھی رکھنے کی کوشش کرتی رہیں۔ زیادہ وقت شادی کی دعوتوں میں گزر گیا۔ رات گئے واپسی کے بعد بھی صبیحہ دو چار گھنٹے بیٹے اور بہو کے کمرے میں گپ شپ میں گزارتی تھیں اور صبح دیر تک سونا واسع کا مزاج نہیں تھا۔ یوں پتہ ہی نہ چلا کب واپسی کا دن آ پہنچا اور دو تشنہ روحیں جدا ہوگئیں۔

واسع کی زندگی بہت مصروف تھی اپنی تعلیم، ریسرچ ورک اور جاب۔۔ دانیہ کا خیال بھی زیادہ دیر کام سے دور نہیں ہونے دیتا تھا مگر دانیہ تو گویا فراغت کی آخری حد پر تھی۔ اس کا میکہ بھرا پرا تھا۔ ڈھیر سارے بہن بھائی۔۔ ہر وقت دھینگا مشتی، لڑائی جھگڑا اور ہنسی مذاق۔۔ گھر کا کام۔۔ سلائی میں ماں کی مدد۔۔ غرض فرصت ہی نہ ہوتی تھی اور اب شادی کے بعد سسرال میں کام ہی نہیں تھا۔۔ ایک وہ اور ایک اس کی ساس۔۔ ماسی صبح جھاڑو پوچا کر جاتی اور شام تک گھر ویسا ہی پڑا رہتا۔

دو عورتوں کا کھانا ہی کیا؟ چند روٹیاں اور ذرا سا سالن۔۔

دانیہ گھنٹہ بھر میں سب کاموں سے فارغ ہو جاتی تھی۔ شروع شروع میں چھٹی والے دن صبیحہ کی بیٹیوں نے گھر میں میلا لگایا مگر وہ سب بھی جاب کرتی تھیں۔ ان کے بچے بھی اسکول جاتے تھے لہذا یہ سلسلہ بھی جلد ہی ختم ہوا۔۔ ہفتے بعد کوئی بیٹی چند گھنٹے گزارنے آجاتی تو کچھ دیر کے لئے گھر شورسے بھر جاتا۔۔

ورنہ وہ ہی سناٹا۔۔ وہ ہی تنہائی۔۔ صبیحہ دن پھر دانیہ کا سایہ بنا رہتی اور رات بھر اس کے تکیے سے اپنا تکیہ جوڑے لیٹی رہتی۔ دانیہ کو لگتا وہ ہر وقت انڈر آبزرویشن ہے۔ واسع سے تو کیا وہ اپنے گھر اپنی ماں سے بھی کھل کر بات نہیں کر پاتی تھی۔

"امی۔۔ میں تھک گئی ہوں۔۔ بور ہوگئی ہوں۔۔ مجھے کم سے کم ایک ہفتے کے لئے گھر آنا ہے۔۔"

اس نے ماں کو ڈرتے ڈرتے میسج بھیجا۔

"نہیں بیٹا۔۔ ناشکری نہ کرو۔۔ اتنا اچھا سسرال ملا ہے۔۔ نہ کوئی لڑائی نہ جھگڑا۔۔ نہ کوئی فرمائش۔ نہ غرور۔۔ ایسا کہیں نہیں دیکھا اور ایک ہفتہ تم یہاں آ جاؤ گی تو پیچھے صبیحہ بہن اکیلی رہ جا ئیں گی۔۔ موقع محل دیکھ کر چلنا سیکھو۔۔ بس ایک دن کے لئے بلوالوں گی۔۔ اس سے زیادہ نہیں۔۔"

دانیہ کے ماں پاب صبیحہ کی بہت عزت کرتے تھے۔ صبیحہ نے جہیز اور تمام فصول رسموں سے انکار کرکے گویا بے مول ہی خرید لیا تھا۔ ماں باپ ہی کیا دانیہ کا سارا خاندان، پاس پڑوس، سہیلیاں۔۔ سب ہی صبیحہ سے مرغوب تھے۔ دانیہ کی خوش نصیبی پر رشک و حسد کا شکار تھے اور اپنی بیٹیوں کے لئے ایسے ہی نصیب کی دعا کرتے تھے مگر دانیہ کے لئے یہ ایک پنجرہ تھا۔

۔۔ سونے کا پنجرہ۔۔

***

"سوئی نہیں اب تک؟"

واسع نے پوچھا

"سو گئی تھی۔۔ تھوڑی دیر۔۔ اتنی لمبی راتیں ہیں۔۔ کٹتی ہی نہیں ہیں۔۔"

دانیہ کی سر گوشی آنسوؤں سے نم تھی۔ رات کے تین بج رہے تھے دانیہ کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ اس کو واسع کی یاد ستا رہی تھی۔۔ نرم گرم لمس۔۔ کانوں میں سرگوشیاں۔۔ سرسراہٹیں۔۔ بہت کم تجربہ ہوا تھا مگر جتنا بھی ہوا تھا۔۔ اب اس کو بے چین کر رہا تھا۔

"واسع۔۔ آپ کے بغیر کچھ بھی اچھا نہیں۔۔"

وہ جذب کے عالم میں کہہ رہی تھی۔۔

"ِچٹ۔۔"

دانیہ کو اپنے پیچھے بٹن بند ہونے کی آواز آئی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔۔ صبیحہ کا ہاتھ وائی فائی ڈیوائس کے بٹن پر تھا اور دانیہ کا موبائل"نو انٹر نیٹ" کا میسج دے رہا تھا۔ وہ حق دق صبیحہ کی طرف دیکھتی رہ گئی۔

صبیحہ نے آگے بڑھ کر موبائل دانیہ کے ہاتھ سے لے لیا اور سامنے آ کر بیٹھ گئی۔ دانیہ کا دل زور زور دے دھڑکنے لگا۔ اس کو لگا وہ چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی ہے۔ سخت سردی میں بھی خوف اور شرمندگی سے اس کی پیشانی عرق آلود ہوگئی۔

"دانیہ۔۔ تمہیں معلوم ہے محکمہ تعلیم کی کئی اعلیٰ افسران نے واسع کے لئے اپنی خوبصورت۔۔ طرح دار بیٹیوں کے پیغام پہنچائے۔۔ مگر میں نے ان سب کو رد کرکے تمہارا انتخاب کیوں کیا؟"

دانیہ کے پاس صبیحہ کے اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ وہ مجرموں کی طرح چپ بیٹھی رہی۔

"کیوں کہ مجھے لگتا تھا کہ تم ایک غریب گھر کی لڑکی ہو۔۔ بچپن سے محرومیاں ہی دیکھی ہوں گی۔۔ آگے بھی محرومیوں سے سمجھوتہ کر لو گی اور محرومیاں بھی نہیں۔۔ صرف ایک محرومی۔۔ شوہر سے دوری۔۔ یہ بات جان لو دانیہ۔۔ واسع اب کئی سال تک واپس نہیں آئے گا۔۔ اس کو یک سو ہو کر اپنا مشن پورا کرنا ہے۔۔ میں اس کی ریسرچ کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دوں گی۔۔ یہ ریسرچ مکمل ہونے کے بعد بھی اس کی منزل بہت دور ہے۔۔ اس کو نامور سائنس دان بننا ہے۔۔"

آنسو دانیہ کی آنکھوں سے بہہ کر اس کے گردن تک پہنچ چکے تھے۔

"پھر۔۔ آپ۔۔ آپ نے ان کی شادی کیوں۔۔ کی؟ کیوں۔۔"

دانیہ سے بولا نہیں جا رہا تھا گلا آنسوں سے بھر گیا تھا۔

"اچھا سوال ہے۔۔ میں نے اس بارے میں بھی کافی سوچا۔۔ ایک تو معاشرتی دباؤ۔۔ بیٹیاں۔۔ داماد۔۔ میرا خود کا میکہ اور سسرال۔۔ سب ہی باتیں بنانے لگے تھے۔۔ پھر سب سے بڑھ کر۔۔ میرے لئے واسع کی فکر مندی۔۔ اس کے کام کا حرج ہوتا تھا۔۔ وہ بار بار فون کرکے میری خیریت لیتا تھا۔۔ مجھے یہ منظور نہ تھا کہ اس کا ذہن اپنی تعلیم اور ریسرچ سے ہٹے۔۔ جب تک اس کے پاپا حیات رہے۔۔ میں اس معاملے کو ٹالتی رہی۔۔ مگر ان کے بعد میرے سب بچوں کو میری تنہائی کا خیال ستانے لگا۔۔ تو بس۔۔ یوں سمجھو۔۔ مجبوری میں یہ فیصلہ کرنا پڑا۔۔ ورنہ میرا مقصد اتنا عظیم ہے کہ اس کی راہ میں، میں اپنے سارے جذبات اور ارمان قربان کر چکی ہوں۔۔"

صبیحہ سانس ہموار کرنے کے لئے رکیں۔

"اور ایسا بھی نہیں ہے کہ میں نے تمہارے بارے میں نہیں سوچا۔۔ میں اس ایک محرومی کے صلے میں، میں تمہاری ساری محرومیوں کا ازالہ کر دوں گی۔۔"

دانیہ اب بھی کچھ نہیں سمجھ پا رہی تھی۔ صبیحہ نےشال میں سے ہاتھ باہر نکالا تو اس میں ایک دوسرا موبائل تھا۔۔ بالکل نیا اور مہنگا موبائل۔

دانیہ حیرت سے کبھی موبائل کو دیکھتی تو کبھی اپنی ساس کو۔۔

"لےلو۔۔ یہ لو۔۔ یہ تمہارے لئے ہی ہے۔۔ آج سے یہ نیا موبائل تمہارے زیر استعمال رہے گا اور پرانا موبائل میرے پاس رہے گا۔۔"

صبیحہ نے جدید اور مہنگا موبائل تقریباً زبردستی دانیہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔

"اس۔۔ نئے موبائل میں۔۔ سوشل میڈیا کے کئی اکاونٹس ہیں۔ جو میں نے تمہارے نام سے بنائے ہیں۔۔ ہر اکاؤنٹ پر میں نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے بہت سارے گروپس ایڈ کر دئیے ہیں۔۔ میں اُن سے تم بن کر۔۔ بات چیت کرتی رہی ہوں۔۔ ان میں سے بہت سوں کے پاس تو تمہاری تصویریں بھی ہیں۔۔ ایک دو کے ساتھ ویڈیو چیٹ بھی کی ہے۔۔ شکل کے بغیر۔ اب آگے کی بات چیت تم خود کرو گی۔۔ جس سے چاہو۔۔ جیسی چاہو۔۔ چیٹنگ۔۔ دوستی۔۔ شاپنگ۔۔ آؤٹنگ۔۔ جو تمہارا دل چاہے۔۔ کر سکتی ہو۔۔"

دانیہ کے کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔

صبیحہ الفاظ بم بن کر اس کے چاروں طرف گر رہے تھے۔۔

اس کی زبان لکڑی کی طرح خشک ہو چکی تھی۔ صبیحہ گویا اس کی ہر کیفیت سے بے خبر بولے جا رہی تھی

"مگر اس میں واسع کا نمبر نہیں ہے اور نہ ہی واسع کو کبھی اس موبائل پر ایڈ کرنا۔۔ میں خود۔۔ دن میں ایک بار تمہاری اس سے بات کروایا کروں گی اور ہاں ظاہر ہے واسع یا اپنے گھر والوں کو تم اس بارے میں کچھ نہیں بتاؤ گی۔۔ ویسے بھی کوئی تمہاری بات پر یقین نہیں کرے گا۔۔ امید ہے اب تم میری بات سمجھ گئی ہوگی"۔

صبیحہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوگئیں۔ اپنی شال اتار کر دانیہ کے شانوں پر پھیلائی اور وائی فائی ڈیوائس کا بٹن آن کرتے ہوئے بولیں۔

"آج سے میں تمہارے ساتھ نہیں سوؤں گی اور سنو۔۔ اندر سے دروازے کی کنڈی لگا کر رکھا کرو۔۔"

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari