Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Bebas

Bebas

بے بس

"بس۔۔ اب اور کام نہیں ہوتا۔۔ اس پردیس میں بیس سال گزر گئے۔۔ اب تو ہڈیاں دکھ گئیں ہیں۔۔"

ماموں نصیر کی آواز میں ایسی تھکن تھی کہ شبانہ کا دل بھر آیا۔

"ماموں۔۔ واپس آ جائیں۔۔ بس بہت محنت کر لی اب آرام کریں۔۔"

ماموں دل گرفتہ سی ہنسی ہنس دئیے۔

"ہاں اب تو آنا ہی ہے۔۔ کچھ کرنے قابل جو نہیں رہا۔۔ بیماری اور کمزوری نے کسی قابل نہیں چھوڑا۔۔"

ماموں کی آواز آنسووں سے بھیگی ہوئی تھی۔

"اچھا یہ بتائیں ممانی اور بچے سب ٹھیک ہیں؟"

شبابہ نے موضوع بدلنے کی کوشش میں ایک بار پھر غلطی کر دی۔

"ہونہہ۔۔ ابھی دینار و درہم مل رہے ہیں اس لئے ابھی تک تو ٹھیک ہیں۔۔"

شبابہ ایک بار پھر گونگی ہوگئی۔

***

شبابہ اور ماموں نصیر کی عمروں میں چند سال کا ہی فرق تھا۔ یہ ہی وجہ رہی کہ ان درمیان احترام سے زیادہ دوستی کا رشتہ رہا۔ آگے پیچھے جماعتوں میں ہونے باعث ماموں نصیر پڑھائی میں شبابہ کی مدد کرتے اور شبانہ کو بھی ان کے سوا کسی کا پڑھایا سمجھ نہیں آتا تھا۔ یوں ان کا تعلق خاندان بھر میں ایک الگ ہی حیثیت رکھتا تھا۔

شبابہ کی شادی پر نصیر ہی تھے جو سب سے زیادہ اداس تھے اور نصیر کی شادی پر شبابہ سب سے زیادہ خوش تھی۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا۔ شبابہ اپنی گرہستی میں ایسی الجھی کہ کئی کئی ماہ اپنے ماموں کی خیر خبر نہ لے پاتی مگر جب بھی میکے آتی ماموں نصیر کا حال ضرور لیتی اور جب اس کو پتہ چلا کہ ماموں نصیر سعودی عرب جا رہے ہیں تو وہ بیک وقت خوش اور اداس ہوگئی۔

"ماموں۔۔ اتنی دور۔۔ آپ اکیلے کیسے مینیج کریں گے؟"

شبابہ کو فکر لاحق ہوگئی۔

"کر لوں گا۔۔ یہاں زندگی کون سی گلزار ہے۔۔ وہاں کم از کم ہر وقت کی چخ چخ تو نہیں ہوگی۔۔"

ماموں بھی پردیس جانے پر زیادہ خوش نہ تھے شبابہ ان کو دیکھ کر دکھی ہوگئی وہ ان کا حال جانتی تھی۔

نصیر کی بیوی اور ماں کے درمیان روز اول سے ہی اختلافات شروع ہو گئے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے گئے۔ دونوں خواتین اپنی اپنی حاکمیت قائم رکھنے کے چکر میں نصیر کے ذہنی سکون کو قربان کرتی رہیں ایسے میں جب نصیر کو سعودی عرب سے جاب آفر ہو ئی تو اس نے فرار کو ہی عافیت سمجھا۔ پیچھے ماں اور بیوی کی جنگ جاری رہی۔۔ ماں مرتے مرتے نصیر سے خفا رہیں جو اپنی بیوی کو لگام نہ ڈال سکا اور بیوی ہمیشہ کے لئے متنفر ہوگئی کہ یہ اپنی ماں کے سامنے میرا دفاع نہ کرسکا۔ اس جنگ کی نذر صرف نصیر کا سکون ہی نہیں ہوا بلکہ بچوں کی بھی تربیت بھی نہ ہو سکی۔

"اتنی فیس؟ زرینہ۔۔ یہاں پیسے درختوں پر نہیں لگے۔۔ خون پانی ہو جاتا ہے۔۔"

نصیر نے بیوی پر اظہارِ ناراضگی کیا۔

"ہاں ہاں مجھے معلوم ہے۔۔ مگر تعلیم بھی تو ضروری ہے۔۔ تم کس کے لئے کما رہے ہو؟ بچوں کے ہی کام نہ آئے تو فائدہ ایسے پیسے کا۔۔"

زرینہ نے الٹی چڑھائی کرتے ہوئے کہا

"بھلی لوک۔۔ کوئی نتیجہ بھی تو ملے۔۔ کسی بچے نے کبھی کوئی اچھا رزلٹ نہیں دیا۔۔ یہ چار بچوں کی اسکول کی فیس۔۔ ٹیوشن کی فیس۔۔ قاری کی فیس۔۔ ہزاروں روپے ماہانہ کا خرچہ ہے۔۔ میں تعلیم کے لئے منع نہیں کر رہا۔۔ مگر تم بھی تو ان پر توجہ دو۔۔"

نصیر نے رسان سے سمجھانے کی کوشش کی اور یہ اس کی غلطی تھی۔

"مجھے پتہ تھا۔۔ تم یہ ہی کہو گے۔۔ اپنی ماں کی زبان ہی بولو گے۔۔ وہ بھی ہر آئے گئے کے سامنے یہ گانا گاتی ہیں اور تم کیا سمجھتے ہو مجھے معلوم نہیں ہے۔۔ سب جانتی ہوں۔۔ اپنی ماں کو موٹی موٹی رقمیں بھیجتے ہو اور وہ خاندان کی شادیوں میں خوب خرچ کرتی ہیں۔۔ ان کو بھی یہ بھاشن دیا کرو۔۔ بس ہمیں ہی بچت کرنے کا حکم ہے۔۔"

زرینہ نے زہر اگلا۔ اس سے آگے کی کہانی نصیر جانتا تھا۔ شام تک دونوں ساس بہو میں جھڑپ ہوگی اور ماں روتے ہوئے اس کو فون پر فریاد کرے گی۔ وہ ان دونوں کی جنگ میں پس گیا۔ تنگ آ کر اس نے بچوں اور گھر کے معاملات میں دلچسپی لینا چھوڑ دی۔ بس پیسہ کمانے کی مشین بن گیا۔ لاکھوں روپے خرچ کرنے باوجود نصیر کا کوئی بچہ ڈھنگ کی تعلیم حاصل کر سکا۔ بیٹے اوباش دوستوں کی سنگت میں پڑ گئے اور بیٹیاں فیشن کی دل دادہ ہوگئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جوان بیٹوں کے ہوتے ہوئے بھی نصیر غم روزگار سے نجات نہ پا سکے۔ آئے دن بڑی بڑی رقوم کے مطالبے زور پکڑ گئے۔ ایک بار و وہ گھر سے نکلے تو واپسی کا راستہ ہی بھول گئے۔ دوچار سال میں ایک ہفتے کے لئے آمد ہوتی تھی۔ اس مختصر وقفے میں نصیر شبانہ سے ملنا نہ بھولتے۔

***

"ماموں۔۔ آپ۔۔"

شبابہ پر شادی مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی۔

"ہاں بھئی۔۔ میں ہی ہوں۔۔ اندر تو آنے دو۔۔"

ماموں ہنس کر بولے تو شبابہ کو ہوش آیا۔

"آئیں۔۔ اندر آئیں۔۔ بس آپ کو اچانک دیکھ کر۔۔ بہت۔۔ بہت خوشی ہو رہی ہے۔۔"

شبابہ نے کہا

"ہاں۔۔ بس ایک تم ہی ہو۔۔ جو میری آمد پر خوش ہو۔۔ ورنہ۔۔ تمہاری ممانی اور بچے تو سخت ناراض ہیں۔۔"

ماموں شبابہ سے اپنے دل کی ہر بات کہہ لیتے تھے۔

"کیوں۔۔ اس میں ناراضگی کی کیا بات ہے؟"

شبابہ نے خفگی سے پوچھا تو نصیر ہنس دئیے۔

"ہمیشہ کے لئے واپس آ گیا ہوں۔۔ اس لئے۔۔"

"ماموں۔۔ آپ نے یہاں سے جا کر غلطی کی۔۔ بچوں کے سر پر باپ کا ہونا بہت ضروری ہے۔۔ آپ وہاں دن رات محنت کرتے رہے اور یہاں ممانی ان کو آپ اور ددھیال کے خلاف کرتی رہیں۔۔ باپ اور بچوں کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے وہ آپ لوگوں کے درمیان کبھی بن ہی نہیں پایا۔۔"

ماموں نصیر سر جھکائے بیٹھے رہے۔ حالات کا مارا شخص کیا کہہ سکتا تھا۔ جس کو نہ اپنے گھر میں پناہ ملی نہ پردیس میں کوئی سکھ پایا۔

***

نصیر کو پردیس کی اجنبیت نے اتنی تکلیف نہ پہنچائی جتنی اپنے ہی گھر میں اپنے ہی بیوی بچوں کی آنکھوں میں موجود اجنبیت دیکھ کر ہو رہی تھی۔

"آخر کچھ تو لائے ہو گے۔۔ بتاؤ کتنے پیسے لائے؟"

زرینہ ایک ہی سوال بار بار پوچھ رہی تھی۔

"زرینہ۔۔ یہ سوال تو مجھے تم سے پوچھنا چاہئے۔۔ میں نے جو کمایا سب تمہیں بھی دیا۔۔ یہ تمہاری ذمہ داری تھی کہ پیسوں کا حساب رکھنا۔۔ بچت کرنا۔۔"

زرینہ حسب معمول ہتھے سے اکھڑ گئی۔

"اور یہ سب خرچے۔۔ یہ کہاں سے پورے کرتی اور پیسے تم نے صرف مجھے نہیں بھیجے۔۔ اپنی ماں کو بھی بھیجے تھے۔۔ ان کے پاس سے نکلا کچھ؟ سب اپنی بیٹیوں کو دے گئیں۔۔ مگر حساب مجھ اکیلی کو دینا ہے۔۔"

نصیر بہت تھکا ہوا تھا بحث نہیں کرنا چاہتا تھا خاموشی سے گھر سے نکل گیا۔

مگر کب تک؟

زرینہ نے اپنے بچوں کے ساتھ مل کر اس کے خلاف محاذ بنا لیا تھا۔ نصیر اکیلا کس کس سے لڑتا۔

"پاپا۔۔ مجھے صرف دس لاکھ کی ضرورت ہے۔۔ میں بزنس اسٹارٹ کردوں گا۔۔ پھر آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔۔"

نصیر نے بے بسی سے اپنے جوان بیٹے کی طرف دیکھا جس نے آج تک ایک دھیلا نہیں کمایا تھا۔ اس کو صرف خرچ کرنا آتا تھا مگر اس کی ماں اس کی پشت پر کھڑی تھی۔

"زرینہ۔۔ تم نے کئی بار مجھے سے کئی کئی لاکھ روپے یہ کہہ کر لئے کہ بچے کاروبار کریں گے۔۔ کہاں ہے وہ کاروبار؟ کہاں ہیں وہ پیسے؟"

زرینہ کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ وہ ماں تھی اپنے بیٹوں کے عیبوں پر سے پردہ نہیں اٹھانا چاہتی تھی۔ نصیر کی زندگی بھر کی کمائی لٹ چکی تھی۔

***

"ماموں۔۔ یہ۔۔ یہ کیا حال بنایا ہوا ہے؟"

شبانہ کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ آج وہ اپنے بیٹے کی ایڈمیشن کی مٹھائی دینے ماموں نصیر کے گھر گئی تھی۔ گھر کا ایک کمرہ ماموں کے زیر استعمال تھا جبکہ باقی گھر کے دونوں پورشن کرائے پر اٹھا دیئے گئے تھے۔ ماموں اس کمرے میں تنہا پڑے تھے۔ کمرہ کی حالت بتا رہی تھی کہ صفائی ہوئے کئی دن گزر چکے ہیں۔ ماموں کا بستر اور کپڑے بھی گندے تھے۔

"یہ۔۔ یہ سب کیا ہے؟"

شبابہ کا دل پھٹا جا رہا تھا۔

"ممانی۔۔ بچے۔۔ سب کہاں ہیں؟"

ماموں نصیر نے دل گرفتہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

"زرینہ مجھے چھوڑ کر اپنے بیٹوں کے ساتھ چلی گئی ہے۔۔ اس کو لگتا ہے میرے پاس بہت پیسہ ہے۔۔ اس کو اور اس کے بچوں کو بس پیسہ چاہئے۔۔ جب کہ میں خالی ہاتھ ہوں۔۔ میں نے جو کمایا۔۔ بھیج دیا۔۔ کہاں سے لاؤں پیسے۔۔"

نصیر کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح شانے جھکائے بیٹھا تھا۔ زندگی بھر کی مشقت، تنہائی اور اب بیماری نے اسے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا۔

"آپ میرے ساتھ چلیں۔۔ میرے گھر چلیں۔۔" شبابہ نے اس کو سہارا دیا۔

***

"وہ سب سے چھوٹے ہیں۔۔ گھر کے چھوٹے بچے سے تو سب ہی کو بہت پیار ہوتا ہے۔۔ مگر آپ سب نے تو انھیں ایسا فراموش کر دیا کہ پلٹ کر نہیں دیکھا؟"

شبابہ کو اپنی ماں، خالہ اور ماموں پر شدید غصہ تھا۔ بڑے ماموں انتقال کر چکے تھے مگر حمید ماموں تو حیات تھے خود شبابہ کی امی اور فرحانہ خالہ بھی موجود تھیں مگر کسی کو اپنے چھوٹے بھائی کی کوئی فکر نہ تھی۔

"بیٹا۔۔ اس نے بھی تو کبھی ایسا تعلق نہیں رکھا۔۔ ملک سے باہر جا کر سب سے رابطہ ہی ختم کر لیا۔۔"

ماموں حمید نے افسردگی سے اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھا۔

"بھائی جان میں وہاں بڑی سخت مشقت کر رہا تھا۔۔ مجھے تو شیشہ دیکھے کئی کئی دن گز جاتے تھے۔۔ گھر فون کرتا تو امی اور زرینہ کی لڑائیاں سنتا تھا۔۔ میرا کسی سے بات کرنے کا دل نہیں کرتا تھا۔۔ مگر اب سوچتا ہوں اتنی محنت کا حاصل کیا ملا۔۔ جن کے لئے میں دن رات لگا رہا وہ بھی آج میرے نہیں ہیں۔

شبابہ کی امی اور خالہ کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔

"نصیر۔۔ تم حالات سے فرار ہوئے تھے۔۔ تمہیں مرد بن کر مقابلہ کرنا چاہئے تھا۔۔"

شبابہ کی امی نے کہا تو نصیر زخمی سی ہنسی ہنس دیا۔

"کس کے خلاف مردانگی دکھاتا؟ اپنی ماں کے خلاف۔۔ یا اپنے بچوں کی ماں کے خلاف۔۔"

ماحول کی سوگواری اتنی بڑی کہ شبانہ کو مداخلت کرنا پڑی۔

"میں آپ سب کو یہاں اس لئے نہیں بلایا کہ آپ نصیر ماموں کو اور شرمندہ کریں۔۔ ارے بھئی کوئی حل نکالیں۔۔"

شبانہ کی بات سن کر خالہ کو جلال سا آگیا۔

"آخر یہ زرینہ چاہتی کیا ہے؟"

"وہ چاہتی ہے کہ میں وہ گھر بیچ کر رقم اس کے حوالے کردوں۔۔ جب میں نہیں مانا تو وہ گھر کرائے پر اٹھا کر اپنے بچوں کے ساتھ کسی اور جگہ شفٹ ہوگئی۔۔ مگر وہ چاہے جو کرے۔۔ میں گھر نہیں بیچوں گا۔۔ عمر بھر کی کمائی یہ گھر ہی ہے۔۔ اس کو بیچ دیا تو مجھے شاید ایدھی سینٹر میں ہی مرنا پڑے۔۔"

نصیر ماموں کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ خون نے جوش مارا حمید ماموں اٹھ کھڑے ہوئے۔

"ابھی میں زندہ ہوں نصیر۔۔"

خالہ بھی بول اٹھیں۔

"جب وہ تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو تمہارے گھر کو کس حق سے کرائے پر دیا؟"

نصیر ماموں زخمی نظروں سے دیکھ کر بولے

"آپا۔۔ اس کے پاس جوان بیٹوں کی طاقت ہے۔۔"

منجھلے ماموں نے نصیر کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا"بوڑھے تم بھی نہیں ہو۔۔ ہم سب سے چھوٹے ہو۔۔ زندگی کی مشکلات نے اس حال کو پہنچادیا ہے۔۔ اب کچھ عرصے تک تم میرے ساتھ رہو گے۔۔ اپنی خوراک اور دوا کا خیال رکھو۔۔ جلد بہتر ہو جاؤ گے اور جوان بیٹے صرف زرینہ کے نہیں ہیں۔۔ میرے بھی ہیں۔۔"

شبانہ کی امی بھی چھوٹے بھائی کی حالت دیکھ کر بہت شرمندہ تھیں۔

"نصیر۔۔ اب تک ہم کبھی زرینہ کے روبرو نہیں ہوئے۔۔ ہمیشہ طرح دی۔۔ تم سے بھی دوری اختیار کر لی تاکہ تمہارے گھر میں سکون رہے۔۔ مگر اب حد ہوگئی۔۔ اب ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔۔"

نصیر کو لگا اس کی جھکتی کمر سیدھی ہوگئی ہے۔

***

"کیا؟"کس نے کہا؟"

زرینہ چیخ پڑی

"کیا ہوا؟"

اس کا بڑا بیٹا علی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔

"تمہارے ابا جان نے کرائے داروں کو گھر خالی کرنے کا نوٹس دے دیا ہے۔۔"

زرینہ نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر ادا کیا تھا۔

علی کو اپنی نئی نئی جوانی کا زعم بھی حد سے سوا ہی تھا۔

"رسی جل گئی۔۔ مگر بل نہیں گئے۔۔ امی۔۔ ابھی چلیں۔۔ بڑے میاں کا دماغ ٹھیک کردوں گا۔۔"

زرینہ کو لگا اس کی طاقت کے سامنے کوئی نہیں ٹہر سکتا مگر گھر پہنچ کر وہ حیران رہ گئی۔

نصیر صاف ستھرے حلیے میں وہاں موجود تھا۔ چہرے پر بحالی نظر آ رہی تھی۔

"کک۔۔ کیا۔۔ کیا مسئلہ ہے؟ کرائے داروں کو کیوں نکال رہے ہو؟"

زرینہ نے اکڑ کر پوچھا

"کیوں کہ یہ میرا گھر ہے۔۔"

نصیر نے بھی مستحکم لہجے میں جواب دیا

"اور میں یہاں اپنے گھر والوں کے ساتھ رہوں گا۔۔ سمجھی؟"

"ہونہہ۔۔ گھر والے۔۔ کون سے گھر والے؟ کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا اور اب گھر والوں کے ساتھ رہنے آ گئے۔۔"

علی نے زہر اگلا وہ اور بھی کچھ اور کہنا چاہتا تھا مگر اس نے اندر داخل ہوتے سمیع بھائی کو دیکھ لیا تھا سمیع حمید تایا کے بڑے بیٹے تھے اور پولیس میں اچھے عہدے پر تھے وہ اس وقت بھی اپنی وردی میں ہی ملبوس تھے۔ علی کی سٹی سی گم ہوگئی۔ اس کو اپنی غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیاں سے خوب یاد تھیں۔ سمیع نے علی اور زرینہ کو بالکل نظر انداز کردیا اور نصیر سے مخاطب ہوا۔

"چچا جان۔۔ کرائے دار وں کا سامان تو ہٹ گیا ہے۔۔ کمرے صاف ہو چکے ہیں۔۔ چچی جان کا بھیجا ہوا سامان بھی سیٹ کروا دیا ہے۔۔"

زرینہ کا دماغ چکرا سا رہا تھا۔

"کون سا سامان؟ میں نے تو کوئی سامان نہیں بھیجا۔۔"

سمیع نے چونک کر زرینہ کی طرف دیکھا

"ارے چچی زرینہ آپ؟ آپ کب آئیں؟"

"میں تو بڑی دیر سے یہاں ہوں۔۔ تم ہی نجانے کیا کیا کرتے پھر رہے ہو۔۔ پہلے یہ بتاؤ یہ کس کے سامان کی بات ہو رہی ہے؟"

زرینہ نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا

"یہ ہماری نئی بھابھی اور نصیر کی دلہن شازیہ کے سامان کی بات ہو رہی ہے۔۔"

نصیر کی دونوں بہنیں ایک سجی بنی درمیانی عمر کی عورت کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں۔ زرینہ کے سر پر پہاڑ ٹوٹ پڑا۔

"نن۔۔ نصیر۔۔ یہ۔۔ یہ سب۔۔ کیا ہے؟ تم ایسا کیسے۔۔ کر سکتے ہو؟"

"یہ صرف نصیر کا نہیں بلکہ ہم سب کا فیصلہ تھا اور اگر اب کسی نے اس زندگی میں زہر کھولنے کی کوشش کی۔۔ تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔۔"

نصیر کے بڑے بھائی نے دبنگ لہجے میں اعلان کیا۔ علی اور زینہ کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari