Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Sarfaraz
  4. Batakh Ya Uqab

Batakh Ya Uqab

بطخ یا عقاب

مجھے کچھ سال پہلے استنبول جانے کا اتفاق ہوا، میں ہوائی اڈے سے نکلی اور ٹیکسی کے لئے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی اور میرے اشارہ کرنے سے قبل ہی ایک ٹیکسی قریب آ کر رُکی۔ ٹیکسی کی ونڈ اسکرین پر لکھے ایک جملے نے میری توجہ فوری اپنی طرف مبذول کروا لی۔ لکھا تھا: "بطخ یا عقاب؟ تم خود فیصلہ کرو۔"جملہ مختصر مگر بہت معنی خیز تھا۔ دوسری چیز جو میں نے فوری طور پر نوٹ کہ وہ یہ تھی کہ وہ ایک بہت صاف ستھری اور چمکدار ٹیکسی تھی۔

خود ڈرائیوربھی صاف کپڑے پہنے ہوئے تھا، سفید قمیض اور جما جما کر استری کی ہوئی پینٹ، سیاہ ٹائی کے ساتھ وہ کہیں سے بھی ڈرائیور نہیں لگ رہا تھا۔ اس نے میرے لیے دروازہ کھولا اور کہا:"میں جان ہوں، آپ کا ڈرائیور۔ جب تک میں آپ کا سامان رکھتا ہوں، میں چاہوں گا کہ آپ اس کارڈ پر پڑھیں کہ میرا مشن کیا ہے۔"میں نے غیر اختیاری طور پر ہی اس کے ہاتھ سے کارڈ لے لیا تھا۔ میں ٹیکسی میں داخل ہوئی ٹیکسی کا اندرونی حصہ بھی اتنا ہی کافی صاف اور خوشبو دار تھا ورنہ عموماً ٹیکسیاں اندر سے کافی عجیب بودار ہوتی ہیں، جن سے اکثر میری طبعیت متلانے لگتی تھی۔

میں نے اس کے دیئے ہوئے کارڈ پر نظر ڈالی کارڈ پر لکھا تھا" آپ کی منزل، میرا مشن۔"دوستانہ ماحول میں محفوظ اور باکفایت سفر۔"میں کافی متاثر ہوئی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی جان نے مجھ سے سوال کیا، کیا درجہ حرارت آپ کو ٹھیک لگ رہا ہے؟ گاڑی باہر کی ٹھنڈ کے مقابلے کافی گرم اور آرام دہ تھی۔ پھر اس نے مجھے میری منزل پوچھی اور یہ بتایا کہ ہم تقریباً ایک گھنٹہ میں اپنی منزل تک پہنچ جائیں گے۔

پھر اس نے مجھے یہ بھی کہا: "اگر آپ پڑھنا چاہتی ہیں تو میرے پاس آج کا اخبار اور کچھ میگزین بھی ہیں اور اگر آپ میوزک کے شوقین ہیں تو میری پاس ہر طرح کی کلیکشن ہے۔"لیکن مجھے اس وقت صرف اس بات کرنے میں دلچسپی تھی۔ میں نے پوچھا: "کیا آپ ہمیشہ سے اپنے گاہکوں کی اس طرح خدمت کرتے رہےہیں؟ وہ ہنسا اور بولا"نہیں، ہمیشہ نہیں، صرف پچھلے دو سالوں سے۔"

مجھے ٹیکسی چلاتے تقریباً چھ سال ہو گئے ہیں۔ پہلے چند سال میں اپنا زیادہ تر وقت دوسرے ٹیکسی ڈرائیوروں کی طرح شکایتیں ہی کرتا تھا شور مچاتا تھا، حکومت کو، لوگوں کو، سڑک پر گاڑی چلاتے دوسرے ڈرائیوروں کو کوستا تھا، اپنے مسافروں کو محض بے جان سامان کی طرح گاڑی میں بیٹھاتا اور اتارتا تھا۔"وہ شرمندہ سی ہنسی ہنسا۔ پھر ایک دن ایک فیملی میری گاڑی میں بیٹھی۔ ان کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا چودہ پندرہ سال کا بچہ، ذہین سا بچہ، چشمہ لگائے، وہ اپنی ایک کتاب میری گاڑی میں بھول گیا، میں نے فارغ بیٹھے اس کتاب کی ورق گردانی شروع کر دی۔

اس میں لکھا"اگر آپ صبح اس امید کے ساتھ اٹھتے ہیں کہ آج کا دن برا دن ہوگا، تو آپ یقین کریں ایسا ہی ہو گا؟ بطخ مت بنو! عقاب بنو!بطخیں صرف شور مچاتی ہیں اور شکایت کرتی ہیں، عقاب بنو، عقاب بلندیوں پراڑتے ہیں۔ اور، زاویہ بدل بدل کر منزل پر نظر رکھتے ہیں۔"وہ لمحہ میری زندگی ٹرنگ پوائینٹ تھا میں نے خود کو بدلنے اور عقاب بننے کا فیصلہ کیا۔ میں نے دوسری ٹیکسیوں اور ڈرائیوروں کا جائزہ لینا شروع کیا۔ ان کی ٹیکسیاں گندی ہوتی ہیں، ان کا رویہ غیر دوستانہ بلکہ جاہلانہ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے ان کے گاہک نا خوش ہوتے تھے۔ میں نے یہ سب کچھ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔

سب سے پہلے میں نے اپنا رویہ بدلا، میرے گاہکوں نے بہت اچھا ردعمل ظاہر کیا۔ ان چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کے بعد ایک سال میں ہی میری آمدنی دوگنی کر دی اور اب میں پہلے سے ہی چار گنا زیادہ کماتا ہوں۔ میں نے کچھ اور دوستوں کو ساتھ ملا کر اپنا ایک نظام بنا لیا ہے، ہم ایک دوسرے کو بھی گاہک فراہم کرتے ہیں۔ میں اب ٹیکسی اسٹینڈ پر کم کم ہی کھڑا ہوتا ہوں۔ میرے کلائنٹ میرے سیل فون پر ریزرویشن کرتے ہیں۔ اگرمیں میسر نہ ہوں تو میں اپنے دوستوں کو ان کی طرف بھیج دیتا ہوں یوں اب ہم ایک باقاعدہ نیٹ ورک کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔"

جان مختلف تھااس نے شور مچانا بند کرنے کا فیصلہ کیااور اپنے کام کو عقاب کی طرح فوکس ہو کر نبھانے کا فیصلہ کیا۔ لوگ یقیناًدوسروں کی نسبت اسے فوقیت دیتے ہوں گےایسا لگتا تھا کہ جلد ہی وہ اپنی ٹرانسپورٹ سروس شروع کر دے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ دفتر میں کام کرتے ہیں، ٹیچر ہیں، سرکاری ملازم ہیں یا نجی ملازم یا محض ایک ٹیکسی ڈرائیور، آپ کا کام کرنے کا انداز آپ کو مختلف بناتا ہے۔ لوگوں سے آپ کا رویہ آپ کو ممتاز کرتا ہے۔ خوش اخلاقی پر کوئی خرچہ نہیں آتا مگر یہ انمو ل ہے۔

گاہک کا سامان کے ساتھ ایک خیرمقدمی مسکراہٹ کا تحفہ دے کر دیکھیں، یقین مانیں وہ بار بار آپ کے پاس ہی واپس آئے گا۔ خود کو بدلیئے، تبدیلی کا یہ دروازہ صرف اندر سے کھلتا ہے!فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔"بطخ یا عقاب؟ تم خود فیصلہ کرو۔"

Check Also

Khawarij Ke Khilaf Karwai Aur Taliban

By Hameed Ullah Bhatti