APS Ke Aik Bache Ka Qatilon Ko Paigham
اے پی ایس کےایک بچے کا قاتلوںکو پیغام
کیا تو کبھی اسکول نہیں گیا؟ وہ بھی تو ایک اسکول ہی تھا۔ تیرے دشمن کا ہی سہی۔ تھا تو اسکول!اسکول۔ جہاں سبق کی گردانیں گونجتی ہیں۔ جہاں ہر مذہب و نسل کا بچہ آتا ہے اور بلا تفریق علم پاتا ہے۔ جہاں معصوم قہقہے گونجتے ہیں۔ بڑے بڑے خواب دیکھے جاتے ہیں۔ تیرا بھی تو کوئی اسکول ہوگا نا!جہاں تیری زندگی کے بہترین دن گزرے ہوں گے۔ جو خوشی تُونے اسکول کے دنوں میں پائی عمر بھر نہ پائی ہو گی۔
تیرے بھی تو ہم جماعت دوست ہوں گے۔ جن کے ساتھ تو خوب خوشی و مستی سے بھرپور وقت گزارتا ہوگاتُو آج بھی جب اپنے اسکول کے آگے سے گزرتا ہوگا تو تیرے لب مسکرا اٹھتے ہوں گے۔ ظالم تو نے ایک پوری نسل سے وہ مسکراہٹ چھین لی۔ کیا مرنے والے بچوں کے دوست کبھی اپنے اسکول کے سامنے سے مسکرا کر گزر سکیں گے؟ کیا کبھی ان کے ذہن میں اسکول کی ہولناک یادیں مٹ سکیں گی؟ تو بھی تو کبھی بچہ ہوگا!تیری ماں نے بھی تو بالوں میں کنگھا کر کے تیرے ماتھے پر بوسہ دے کر تجھے اسکول بھیجا ہوگا نا۔
کبھی پوچھ کر دیکھ اپنی ماں سے۔ پوچھ اس سے کہ "ماں تمہیں کیسا لگتا اگر میں کسی دن اسکول جاتا اور وہاں سے میری لاش آتی۔ خون میں لت پت۔ کٹی پھٹی۔"رو دے گی تیری ماں ! قسم کھا کر کہتا ہوں۔ وہ رو دے گی۔ جبکہ تیرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تُو تو ہمیشہ اسکول سے بالکل ٹھیک ٹھاک گھر آیا۔ مگر وہ اس تصور سے ہی رو دے گی۔ اسے بتا کہ" ماں میں تو اسکول سے خیریت سے آگیا۔ بڑا بھی ہو گیا۔ بڑا ہو کر میں عفریت بن گیا۔"
اسے بتا کہ"ماں میں نے کئی ماؤں کے بچے گولیوں سے اڑا کر، کاٹ کر، پھاڑ کر، ان کی ماؤں کے پاس گھر واپس بھیجے۔"وہ مر جائے گی۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں۔ اس کا دل پھٹ جائے گا۔ کیوں کہ وہ بھی ایک ماں ہے۔ تجھ جیسے عفریت کی ہی سہی مگر ایک ماں ہے۔ جانتی ہے کوکھ میں ننھے ننھے ہاتھ پاؤں کیسے محسوس ہوتے ہیں۔ درد ِزہ کیا ہوتا ہے؟ ننھا سا وجود دن بہ دن بڑھتا ہے تو کیسا لگتا ہے۔ لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ جس ننھے سے وجود کے ننھے سے ہاتھ کو اپنی کوکھ میں محسوس کر تی ہے۔ ایک دن وہ ہاتھ معصوم بچوں کے لہوں سے رنگ جائیں گے۔
وہ تجھے اپنی کوکھ میں ہی مار ڈالتی۔ پیدا ہی نہ کرتی۔ کاش وہ جان جاتی!تیرے بھی تو استاد ہوں گے!جن کو تو بڑی عقیدت سے دیکھتا ہوگا۔ جن کو تو آئیڈلائز کرتا ہوگا۔ جو مسکرا کر تجھے دیکھیں تو تُو فخر سے سر اٹھا لیتا ہوگا۔ جن کے لئے تو پھول لے کر جاتا ہوگا۔ طاہرہ قاضی جیسی فرض شناس استانی تیری بھی تو ہوں گی۔ جو اپنے طلبا کو بچاتی رہیں۔ آخری سانس تک اپنے پرنسپل ہونے کے فرض کو نبھاتی رہیں۔ بینش ممتاز جیسی ممتا رکھنے والی کوئی استانی تیری بھی تو ہوں گی۔ جنہوں نے اپنی تین ماۃ کی بچی کا بھی نہ سوچا اور کمپیوٹر لیب میں موجود بچوں کو بچانے کی کوشش کرتی رہی۔
ارے بد بخت، ارے ظالم انھیں دیکھ کر تجھے اپنی کوئی ماں سمان استانی کیوں یاد نہ آئی؟ کاش یاد آتی!تیرے آنگن میں بھی تو کوئی خولہ کھیلتی ہو گی۔ آرمی بپلک اسکول کی 6 سالہ خولہ جیسی۔ وم تتلی!وہ بھی تو خوشی سے جھوم جھوم کر تجھے بتاتی ہوگی۔"بابا!، بھیا!، چاچو!، ماما!کل میں اسکول جاؤں گی۔ کل میرا اسکول میں پہلا دن ہو گا۔ پھر میں روز اسکول جاؤں گی۔"
پھر تُو نے کیوں معصوم خولہ کے پہلے دن کو اس کی زندگی کا آخری دن بنا دیا؟ میں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اپنی خولہ کے لئے وہ سوچ جو تو نے ہماری خولہ کے ساتھ کیا!کیا پایا تونے؟ کیا تُو روک سکا۔ علم کے دریا کو۔ کیا تُو چھین سکا بڑے بڑے خواب معصوم آنکھوں سے۔ ڈاکٹر بنے کا خواہش مند ایک احمد الہٰی تو نے مار ڈالا۔ لاکھوں اس کی جگہ آ کر کھڑے ہو گئے۔ اسکول تو آج بھی آباد ہے۔ جو چلے گئے وہ کبھی بھولے نہیں جائیں گے۔ مگر جو آگئے وہ تیرا انجام لکھیں گے۔ تو جان لے کر بھی ناکام رہا اور ہم مر کر بھی کامیاب ہو گئے۔