Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Kursi Ke Sodagar

Kursi Ke Sodagar

کرسی کے سوداگر‎

خون کے چھینٹوں سے رنگے ہوئے تخت، بارود کی بُو میں بسے ہوئے ایوان اور لاشوں کے کاندھوں پر اونچی کی گئی حکمرانی! یہ وہ زمین ہے جہاں ہر بوند خون کی قیمت سیاستدانوں کے تبسم سے کم سمجھی جاتی ہے۔ یہاں لاشیں گرتی ہیں، لیکن تخت سلامت رہتے ہیں۔ یہاں ماں کی کوکھ اجڑتی ہے، مگر قومی ترانے فخر سے گائے جاتے ہیں۔ یہاں بچے یتیم ہوتے ہیں، مگر حکمرانوں کے بچوں کے اسکول بند نہیں ہوتے۔

برصغیر کی اس خونی سیاست کا چہرہ اب کوئی دھندلا چہرہ نہیں رہا، بلکہ یہ ایک ایسا آئینہ بن چکا ہے جس میں ہر عام انسان کو اپنی موت کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ کشمیر کے پہاڑوں سے لے کر کنیا کماری تک اور سیاچن کے برف زاروں سے لے کر راجستھان کے ریگزاروں تک، ہر جگہ ایک چیخ سنائی دیتی ہے، ایک خاموش چیخ، جو نہ اخبار کی سرخی بنتی ہے، نہ پارلیمنٹ کی تقریر، نہ اقوامِ متحدہ کا ایجنڈا۔

کیا یہ سچ نہیں کہ ان دونوں اطراف کے حاکم تخت کے بھوکے درندے ہیں؟ جی ہاں، وہی درندے جنہوں نے امن کو قفس میں قید کر رکھا ہے اور محبت کو سرحدی باڑ پر لٹکا کر اس کے سینے میں گولی ماری ہے۔ وہی درندے، جو انسانی لاشوں پر کھڑے ہو کر نغمے لکھواتے ہیں، بچوں کی آنکھوں کے آنسوؤں کو میڈیا کی ریٹنگ میں بدل دیتے ہیں اور ہر سال کی برسی پر تصویری فوٹو سیشن کے ساتھ ان کے زخموں کو پھر سے ہرا کر دیتے ہیں۔

یہ کیسے لوگ ہیں جنہوں نے انسانیت کے جنازے کو "قومی مفاد" کا نام دے دیا؟ یہ کیسا سماج ہے جس میں محبت غداری بن گئی ہے اور نفرت حب الوطنی؟ ان کے لیے نہ انسانیت کی کوئی اہمیت ہے، نہ جذبات کی کوئی قدر۔ ان کے لیے ہر یتیم بچہ صرف ایک تصویر ہے، ہر بیوہ ماں صرف ایک ریٹنگ، ہر لاش ایک ہتھیار اور ہر ماتم ایک ہتھکنڈا۔

اور المیہ یہ ہے کہ صرف قوم نہیں، اب تو عقیدہ بھی نفرت کا ہتھیار بن چکا ہے۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی ، یہ سب اب انسان نہیں، شناختی کارڈ پر لکھے گئے خانہ نمبر بن چکے ہیں۔ مسجد اور مندر کی سیاست اب اتنی گہری ہو چکی ہے کہ انسان کا خون بہتا ہے تو اس کی نماز یا اس کا منتر پہلے پوچھا جاتا ہے۔

ارے نادانو! خون تو سب کا ایک سا سرخ ہوتا ہے، درد تو ہر دل کو ایک سا جلتا ہے، ماں کا کلیجہ تو ہر مذہب میں اولاد کی لاش پر پھٹتا ہے، پھر تم کیوں مذہب کی دیواروں سے انسانیت کو بانٹ رہے ہو؟ کیا سکھ کا بچہ یتیمی کا درد کم محسوس کرتا ہے؟ کیا کسی ہندو ماں کے آنسو کم نم ہوتے ہیں؟ کیا کسی شیعہ یا عیسائی سپاہی کی بیوی کا سوگ کم اندوہناک ہوتا ہے؟ نہیں! غم کی کوئی مذہب نہیں، موت کا کوئی مسلک نہیں اور آنسو کسی خاص فقہ سے نہیں بہتے!

ان درندہ صفت حاکموں نے نہ صرف قومیت کو زہر بنایا، بلکہ دین کے نام پر بھی منافرت کے بیج بو دیے۔ اب ہر فرقہ دوسرے کو کافر کہنے میں پہل کرتا ہے اور ہر مذہب دوسرے کو دشمن سمجھ کر نعرے لگاتا ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ ان تمام مذہبی اکائیوں کے بچے ایک جیسے بستے لے کر اسکول جاتے ہیں، ایک جیسی بھوک ان کے پیٹ میں پلتی ہے اور ایک جیسی آنکھوں سے وہ اپنے شہید والد کا انتظار کرتے ہیں۔

خدا کے لیے! نفرت کو مذہب کی چادر میں نہ لپیٹو۔ اگر مسجد امن سکھاتی ہے تو مندر بھی محبت کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر چرچ رحم کا درس دیتا ہے تو گردوارہ خدمت کا سبق دیتا ہے۔ تمام ادیان کی اصل انسانیت ہے۔ کوئی مذہب قتل کا پرچار نہیں کرتا، کوئی مسلک نفرت کا حکم نہیں دیتا۔ انسان کی جان، چاہے وہ کسی بھی رنگ، نسل، یا عقیدے سے ہو، اتنی ہی قیمتی ہے جتنی تمہاری اپنی۔

ادب اگر آئینہ ہے تو وہ اب لہو سے دھندلا چکا ہے۔ شاعر جب بھی امن کی بات کرتا ہے، اسے ملک دشمن کہا جاتا ہے۔ ادیب جب بھی انسانیت کا نوحہ لکھتا ہے، اسے باغی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ وقت ہے جب قلم کو تلوار سے زیادہ خطرناک سمجھا جانے لگا ہے، کیونکہ قلم سچ لکھتا ہے اور سچ ان درندوں کے تاج کے لیے زہر ہے۔

یاد رکھو، جنگ کبھی بھی حاکموں کے بچوں کو یتیم نہیں کرتی، ان کی ماؤں کو بیوہ نہیں بناتی، ان کے گھروں میں ماتم نہیں ہوتا۔ وہ تو ہنستے ہیں، جب ہم روتے ہیں۔ وہ تو تقریریں کرتے ہیں، جب ہم کفن خریدتے ہیں۔ وہ تو گلابوں کی مالا پہنتے ہیں، جب ہم لاشوں کو کندھا دیتے ہیں۔

تو پھر کیا جنگ ہی ہمارا مقدر ہے؟ کیا نفرت ہی ہمارے نصاب کی آخری سطر ہے؟ نہیں! اگر دل ابھی زندہ ہیں، تو انسانیت بھی زندہ رہ سکتی ہے۔ اگر ضمیر جاگ جائے، تو جنگوں کے بازار بند کیے جا سکتے ہیں۔

یاد رکھو، اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی تو کل ہمارے بچوں کی آواز بھی گولیوں میں دفن ہو جائے گی۔ اگر آج ہم نے درندوں کے چہروں سے نقاب نہ اتارا، تو کل وہ ہمیں بھی ایک تصویر میں بدل کر بھول جائیں گے۔

خدا کے لیے! اپنی آنکھوں سے نفرت کے چشمے اتارو، اپنے دلوں سے دشمنی کا زنگ ہٹاؤ اور انسان کو انسان سمجھو۔ ورنہ ایک دن ایسا آئے گا جب ہمارے وجود پر صرف مٹی رہے گی اور یہ درندے ہمارے بچوں کو بھی مٹی میں بدل چکے ہوں گے۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Burai Ko Khud Mein Aur Achai Ko Dusron Mein Talash Karo

By Syed Mehdi Bukhari