Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Noor Hussain Afzal/
  4. Waqia e Meraj Un Nabi Tareekh e Insane Ka Sab Se Taweel Tareen Safar (1)

Waqia e Meraj Un Nabi Tareekh e Insane Ka Sab Se Taweel Tareen Safar (1)

واقعۂ معراج النبی ﷺ تاریخ انسانی کا سب سے طویل ترین سفر (1)

اس واقعہ کی تاریخ اور سال کے متعلق، مؤرخین اور اہل سیر کی آراء مختلف ہیں، ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ نبوت کے بارہویں سال 27 رجب کو 51 سال 5 مہینہ کی عمر میں نبی کریم ﷺ کو معراج ہوئی۔

جیسا کہ علّامہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوریؒ نے اپنی کتاب "مہرِ نبوت" میں تحریر فرمایا ہے۔ اِسراء کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں۔ مسجدِ حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجدِ اقصیٰ کا سفر جس کا تذکرہ سورۂ بنی اسرائیل "سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصٰی" میں کیا گیا ہے، اس کو اِسراء کہتے ہیں۔ اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے۔ "معراج" عروج سے نکلا ہے، جس کے معنی چڑھنے کے ہیں۔

حدیث میں"عُرِجَ بِيْ" یعنی "مجھ کو اوپر چڑھایا گیا" کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس لیے اس سفر کا نام معراج ہوگیا۔ اس مقدس واقعہ کو اِسراء اور معراج دونوں ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر سورۂ نجم کی آیات میں بھی ہے:

"پھر وہ قریب آیا، اور جھک پڑا، یہاں تک کہ وہ دو کمانوں کے فاصلے کے برابر قریب آ گیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک، اس طرح اللہ کو اپنے بندے پر جو وحی نازل فرمانی تھی، وہ نازل فرمائی۔ "

سورۃ النجم کی آیات 13 تا 18 میں وضاحت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے (اس موقع پر) بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں:

"اور حقیقت یہ ہے انہوں نے اس (فرشتے) کو ایک اور مرتبہ دیکھا ہے۔ اس بیر کے درخت کے پاس جس کا نام سدرۃ المنتہیٰ ہے، اسی کے پاس جنت المأویٰ ہے، اس وقت اس بیر کے درخت پر وہ چیزیں چھائی ہوئی تھیں، جو بھی اس پر چھائی ہوئی تھیں۔ (نبی کریمﷺ کی) آنکھ نہ تو چکرائی، اور نہ حد سے آگے بڑھی، سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بہت کچھ دیکھا ہے۔ "

اور یہ واقعہ احادیثِ متواترہ سے بھی ثابت ہے، یعنی صحابہؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کی ایک بڑی تعداد سے معراج کے واقعہ سے متعلق احادیث مروی ہیں۔

(1) انسانی تاریخ کا سب سے لمبا سفر:

قرآن کریم اور احادیثِ متواترہ سے ثابت ہے، کہ اسراء و معراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں، بلکہ جسمانی تھا، یعنی نبی کریم ﷺ کا یہ سفر کوئی خواب نہیں تھا، بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا، کہ مختلف مراحل سے گزر کر اتنا بڑا سفر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف رات کے ایک حصہ میں مکمل کر دیا۔ اللہ تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے، اس کے لیے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے۔

کیونکہ وہ تو قادرِ مطلق ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے تو ارادہ کرنے پر چیز کا وجود ہو جاتا ہے۔ معراج کا واقعہ پوری انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم، مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے، جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خالقِ کائنات نے اپنے محبوب ﷺ کو دعوت دے کر اپنا مہمان بنانے کا وہ شرفِ عظیم عطا فرمایا، جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا ہے، اور نہ کسی مقرَّب ترین فرشتے کو یہ اعزاز بخشا گیا۔

(2) واقعۂ معراج کا غرض و غایت:

واقعۂ معراج کے مقاصد میں جو سب سے مختصر اور عظیم بات قرآن کریم کی سورۂ بنی اسرائیل میں ذکر کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم (اللہ تعالیٰ) نے آپ ﷺ کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔ اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اپنے حبیب محمد ﷺ کو وہ عظیم الشان مقام و مرتبہ دینا ہے، جو کسی بھی بشر حتیٰ کہ کسی مقرب ترین فرشتہ کو نہیں ملا ہے، اور نہ ملے گا۔

نیز اس کے مقاصد میں اُمتِ مسلمہ کو یہ پیغام دینا ہے، کہ نماز ایسا مہتم بالشان عمل اور عظیم عبادت ہے، کہ اس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں، بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند و اعلیٰ مقام پر معراج کی رات میں ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرائیلؑ کے ذریعہ نبی کریم ﷺ تک نہیں پہنچا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب ﷺ کو عطا فرمایا۔ نماز اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے اور اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کو مانگنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

(3) واقعۂ معراج کی مختصر تفصیل:

اس واقعہ کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے پاس سونے کا طشت لایا گیا، جو حکمت اور ایمان سے پُر تھا، آپ ﷺ کا سینہ چاک کیا گیا، پھر اُسے زمزم کے پانی سے دھویا گیا، پھر اُسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا، اور پھر بجلی کی رفتار سے زیادہ تیز چلنے والی ایک سواری یعنی براق لایا گیا، جو لمبا سفید رنگ کا چوپایا تھا، اس کا قد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا، وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نظر پڑتی تھی۔

اس پر سوار کرکے حضور اکرم ﷺ کو بیت المقدس لے جایا گیا، اور وہاں تمام انبیاء کرامؑ نے حضور اکرم ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھی، پھر آسمانوں کی طرف لے جایا گیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدمؑ، دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰؑ اور حضرت یحییٰؑ، تیسرے آسمان پر حضرت یوسفؑ، چوتھے آسمان پر حضرت ادریسؑ، پانچویں آسمان پر حضرت ہارونؑ، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰؑ اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیمؑ سے ملاقات ہوئی۔

اس کے بعد "البیت المعمور" حضور اکرم ﷺ کے سامنے کر دیا گیا، جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے اللہ کی عبادت کے لیے داخل ہوتے ہیں، جو دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتے۔ پھر رسالت مآب ﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے دیکھا، کہ اس کے پتے اتنے بڑے ہیں، جیسے ہاتھی کے کان ہوں، اور اس کے پھل اتنے بڑے بڑے ہیں، جیسے مٹکے ہوں۔ جب سدرۃ المنتہیٰ کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ڈھانکنے والی چیزوں نے ڈھانک لیا، تو اس کا حال بدل گیا۔

اللہ تعالیٰ کی کسی بھی مخلوق میں اتنی طاقت نہیں، کہ اس کے حسن کو بیان کر سکے۔ سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ میں چار نہریں نظر آئیں، دو باطنی نہریں اور دو ظاہری نہریں۔ رسالت مآب ﷺ کے دریافت کرنے پر حضرت جبرائیلؑ نے بتایا، کہ باطنی دو نہریں جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری دو نہریں دریائے فرات اور دریائے نیل ہیں۔ (دریائے فرات عراق میں اور دریائے نیل مصر میں ہے)۔

(4) نماز کی فرضیت:

اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کی وحی فرمائی جن کی وحی اس وقت فرمانا تھا، اور پچاس نمازیں فرض کیں۔ واپسی پر حضرت موسیٰؑ سے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰؑ کے کہنے پر نبی کریم ﷺ چند مرتبہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے، اور نماز کی تخفیف کی درخواست کی۔ ہر مرتبہ پانچ نمازیں معاف کر دی گئیں، یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰؑ نے اس پر بھی مزید تخفیف کی بات کہی۔

لیکن اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے کہا، کہ مجھے اس سے زیادہ تخفیف کا سوال کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے، اور میں اللہ تعالٰی کے اس حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا دی گئی، میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی ہے، یعنی میں نے اپنے فریضہ کا حکم باقی رکھا، اور اپنے بندوں سے تخفیف کر دی، اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس بنا کر دیتا ہوں۔ غرضیکہ ادا کرنے میں پانچ ہیں، اور ثواب میں پچاس ہی ہیں۔

(5) معراج پر نبی کریم ﷺ کو کون سے تین انعامات عطا کئے گئے؟

اس موقع پر حضور اکرم ﷺ کو تین انعام دیئے گئے۔

1۔ حضور اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ سے انسان کا رشتہ جوڑنے کا سب سے اہم ذریعہ یعنی نماز کی فرضیت کا تحفہ ملا، اور نبی کریم ﷺ کا اپنی اُمت کی فکر اور اللہ کے فضل و کرم کی وجہ سے پانچ نمازوں کی ادائیگی پر پچاس نمازوں کا ثواب دیا جائے گا۔

2۔ سورۃ البقرہ کی آخری آیت "آمَنَ الرَّسُولُ" سے لے کر آخر تک عنایت فرمائی گئی۔

3۔ اس قانون کا اعلان کیا گیا، کہ نبی کریم ﷺ کی اُمت کے شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی ممکن ہے، یعنی کبیرہ گناہوں کی وجہ سے ہمیشہ عذاب میں نہیں رہیں گے، بلکہ توبہ سے معاف ہو جائیں گے، یا عذاب بھگت کر چھٹکارا مل جائے گا، البتہ کافر اور مشرک ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

Check Also

Faizabad Ka Stop

By Naveed Khalid Tarar