Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Noor Hussain Afzal/
  4. Eid Ul Fitr Ki Ahmiyat Aur Fiqhi Masail

Eid Ul Fitr Ki Ahmiyat Aur Fiqhi Masail

عید الفطر کی اہمیت اور فقہی مسائل

اسلام دین فطرت ہے لہٰذا اس نے بھی اپنے نام لیواؤں کے فطری تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے خوشی و مسرت کے دو تہوار عنایت کئے ہیں، جن کو عربی میں عید کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور وہ ہیں عید الفطر اور عید الاضحی۔ ان اسلامی تہواروں کی اپنی جداگانہ اور امتیازی شان ہے۔

غیر مسلم اَقوام اپنے ایامِ عید میں اعتدال کی حدوں سے آگے بڑھ کر لہوولعب، عیش و طرب، اَکل و شرب میں مشغول ہوجاتی تھیں کیونکہ ان کے نزدیک حاصل زندگی بس یہ کچھ ہے۔ اس کے برعکس اسلامی تہوار، اسلامی فلسفہ حیات کی عملی تفسیر پیش کرکے ہمیں اس ضابطے کے ساتھ پوری زندگی وابستہ رہنے کا سبق دیتے ہیں۔

(1) عید، عہدِ نبوی میں قبل از نبوت:

آنحضرتﷺ کی بعثت کے وقت عرب کے اس خطہ میں وہ ساری برائیاں موجود تھیں، جوکسی مٹنے والی قوم میں ہوسکتی ہیں۔ ان میں بت پرستی موجود تھی، وہ شرک پر مصر تھے۔ ان کی بداخلاقیاں اس قدر بڑھ چکی تھیں، کہ وہ خود ان سے تنگ آچکے تھے۔ ان کے اخلاق میں دوگونہ غلامی کے اثرات تھے۔ ابراہیمی کہلانے کے باوجود خوشی اور غمی کے ایام میں عادات واَطوار میں وہ دوسروں کے نقال اور مقلد تھے۔ ایک طرف ان پر رومن امپائر اثر انداز تھی، دوسری طرف فارسی شہنشاہیت، اور یہودی ساہو کاروں کے اثرات اس کے علاوہ تھے۔ عید کے معاملہ میں وہ مجوسی عیدوں کے پابند تھے۔ کسی قوم کی ذلت کی یہ انتہا ہے، کہ وہ غم اور خوشی میں دوسروں کی نقال ہو، اس کی اپنی قوم اور اپنی تاریخ اس معاملہ میں کوئی راہنمائی نہ کرے، یا قومی مآثر کو ویسے ہی چھوڑ چکی ہو۔

(2) بعثت نبویﷺ میں اعلان عید:

آنحضرت ﷺ کی بعثت نے عرب میں ایک ایسا انقلاب برپا فرمایا، جس سے زندگی کے تمام گوشے متاثر ہوئے۔ شرک کی جگہ توحید نے لے لی۔ بت پرستی کی جگہ ایک اللہ کی عبادت کا ذوق پیدا ہوا۔ غلامی کی کڑیاں ایک ایک کرکے ٹوٹنے لگیں۔ حتیٰ کہ فارسی عیدوں کو کو بھی خیر باد کہہ دیا گیا۔ نوروز کے اثرات سے ذہن پاک ہوگئے۔ آنحضرت ﷺ کے ارشادِ گرامی کے ایک ایک فقرہ پر غور فرمائیے، کہ آپ نے صنادیدِ عرب کو کس قدر استقلال بخشا، اور انہیں ذہنی استقلال سے کس قدر اونچا کردیا، کہ جن کے وہ نقال تھے، ان کے مقتدا بن گئے۔

عن أنس بن مالك قال کان لأهل الجاهلية يومان في کل سنة يلعبون فيهما فلما قدم النبيﷺ المدينة قال کان لکم يومان تلعبون فيهما وقدأ بدلکم الله بهما غيرا منها يوم الفطر ويوم الأضحى۔ (سنن نسائی: ص184 ج1)

"حضرت انسؓ فرماتے ہیں، کہ زمانہ جاہلیت میں عرب نے سال میں عید کے دو دن مقرر کر رکھے تھے، جن میں کھیلتے اور خوشی کرتے تھے۔ آنحضرتﷺجب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو آنحضرت ﷺنے فرمایا: ان دو دنوں کی بجائے، جن میں تم عید سمجھ کرکھیلتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دوسرے دو دن بدل دیئے: عیدالفطر اورعیدالاضحی"

اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں:

(اول) خوشی اور مسرت زندگی کا جزو ہے:

چہرہ میں عبوست (تیوری) اور مزاج کی خشکی، نہ دینداری اور تقویٰ کی نشانی ہے، نہ ہی اسلام نے زندگی کے اس انداز کو پسند فرمایا ہے۔ آنحضرت ﷺ بےحد خوش مزاج تھے۔ بچوں تک سے مزاح فرماتے، بوڑھوں سے خوش طبعی کی باتیں کرتے۔ پھرعجیب یہ ہے، کہ اس مزاح میں نہ فحش گوئی ہوتی نہ جھوٹ۔ بظاہر خوش طبعی اور مذاق ہوتا، اور مقصد صحیح ہوتا۔ ایک آدمی نے آنحضرت ﷺ سے سواری کے لئے اونٹ طلب کیا، تو آنحضرت ﷺنے فرمایا:

"لأحملنك علی ولد الناقة"

میں تمہیں اونٹ کے بچے پرسوار کروں گا"

سائل پریشان ہوا اور اس نے کہا: یارسول اللہ ﷺ میں بچے کو کیا کروں گا۔ فرمایا:

"هل تلد الجمل إلا الناقة"

اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہوتا ہے۔

ایک ابو عمیر نامی بچے کی چڑیا مرگئی، آپ نے مزاحاً فرمایا: "يا أبا عمير ما فعل النغير"

"ابوعمیر! تمہاری چڑیا کوکیا ہوا؟"

ہمارے بعض دیندار حضرات چہرے کی عبوست کا نام تقویٰ اور زہد سمجھتے ہیں۔ آنحضرتﷺ بہت خوش مزاج تھے، اس کے ساتھ طبیعت کا رجحان فحش کی طرف قطعاً نہ تھا:

لم يکن فاحشا ولا متفاحشا (شمائل)

"نبی کریمﷺ فحش گو نہیں تھے۔ "

(دوم) دوسری قوموں کی نقالی قطعاً پسند نہیں:

یہ بات حدیث شریف کے اَلفاظ "قدأبدلکم الله بهما خيرا " سے بخوبی ظاہر ہے۔ آنحضرتﷺنے سابق رواج کو یکسر بدل دیا۔ قوی استقلال کے لئے ضروری ہے، کہ غیر مسلم قوموں کی نقالی اور فساق و اہل فجور کی مشابہت سے بچا جائے۔ قومیں اسی طرح قوموں کو ہضم کرجاتی ہیں۔ آج ہمارے ہاں تعلیم یافتہ اور یورپ زدہ طبقہ اسی نقالی کا مریض ہے۔ کوئی فیشن کتنا قبیح کیوں نہ ہو، ہمارے نوجوان اور ہماری مستورات فوراً اس پر لپکتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے، کہ اس جدت پسندی نے اسلامی رسوم و عقائد کے ساتھ وابستگی کم کردی ہے، اور اس عصبیت کا فقدان ہمیں اسلام کی روح سے بھی ناآشنا کر رہا ہے۔

(سوم) جاہلیت کی عید، عبادت اور ذکرالٰہی مفقود:

زیادہ سے زیادہ اس میں شاعری کی راہ سے زبان کی خدمت ہوتی تھی، اور وہ بھی آئندہ جنگ کا پیش خیمہ ہوتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے عید کے موقع پر مختصر سی عبادت و ذکر الٰہی کا التزام فرمایا۔ اور تاکید فرمائی، کہ وہ عید کے اجتماع میں شریک ہو جائیں، ہر آدمی مقامِ عید پر پہنچ کر نماز میں شریک ہو۔ نماز سے فارغ ہو کر انفرادی طور پر واپس گھر پہنچ جائے، اجتماع کو صرف عبادت تک محدود رکھا۔

اللهم صل وسلم علیه۔۔

پورے دن کی مسرت، لباس، خوراک، خوش طبعی کی انفرادی مجالس تک محدود ہوگئی اور ہنگامہ بپا نہ کیا گیا۔

(3) عید کی روح:

بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے، کہ چھوٹی بچیاں پرانی جنگوں کے واقعات کو اَشعار اور نظموں کی صورت میں خوش الحانی سے پڑھتی تھیں۔ اس میں بھی مبالغہ آمیزی، غلو اور فحش گوئی ممنوع تھی۔ ایک لڑکی نے آنحضرت ﷺ کی تعریف میں فرمایا: وفينا نبی يعلم ما في غد

"ہمارے نبی کل کی باتیں جانتے ہیں"

تو اسے روک دیا۔ چھوٹے بچے، نابالغ بچیاں اپنے قومی محاسن اور مشاعر کو نظموں میں پڑھیں، خوش آوازی سے پڑھیں، اس میں کچھ حرج نہیں۔ ملی ذہن کو عبوست اور بدمزاجی سے بچانا چاہئے۔ یہی عید کی روح ہے۔

(4) رمضان کے بھوک کے بعد یادگار عید:

رمضان المبارک خوراک کے عادت سے ہٹ کر جاری نظام کے ساتھ ختم ہوا۔ اس امتحان میں کامیابی کے بعد ایک دن مسرتوں کے لئے وقف ہوگیا۔ دوسری عید میں حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ، حضرت ہاجرہؑ علیھم الصلوات و تسلیمات کی جفاکشی اور ہجرت اور ان مصائب میں کامیابی پر مسرت فرمائی گئی۔ اس پاکیزہ خاندان کی وفاداریوں، اور صبرآزمایوں کو تاریخی حیثیت عنایت فرما کربقاءِ دوام عطا فرمایا گیا

(وَتَرَ‌كنا عَلَيهِ فِى الءاخِر‌ينَ 108 سَلـٰمٌ عَلىٰ إِبر‌ٰ‌هيمَ 109) سورة الصافات

(5) ملت کو اَغیار کی نقالی سے بچایا:

عید کے ذریعہ اپنی تاریخ کو عملاً زندہ فرما دیا گیا۔ اَکابر کی قربانیاں آنے والوں کے لئے اُسوہ اور زندگی کا پیغام بن گئیں۔ عید کے موقع پر اظہارِ مسرت کے لئے جنگی مشقوں کی اجازت مرحمت فرمائی۔ تھوڑے عرصہ کے لئے یہ مشقیں صحن مسجد کی زینت بنیں اور جہاد اور دفاع کے پیش نظر مرد تو اسے دیکھتے ہی تھے۔ عورتوں کو بھی اجازت دی گئی، کہ اگر وہ پسند کریں، تو اس دلنواز منظر کو ملاحظہ کریں۔ مجاہد پیدا کرنے والی مائیں جہاد کی عملی تربیت اور دفاع کی کارگزاریوں سے دلشاد ہوں، اور اس انداز سے کہ اس کا اخلاق پر بھی کوئی اثر نہ پڑے۔

ضرورت ہے، کہ آج کی عید کو زندہ عید کی صورت دی جائے۔ ہمارے ہاں عید کی خوشی میں خباثت اور بد اخلاقی کے دفتر کھل جاتے ہیں۔ دن میں کئی کئی شو ہوتے ہیں۔ اخلاقی انارکی سے نوجوان ذہن ماؤف ہوتا ہے۔ عیاشی کی راہ سے طبائع پر وہن اور جبن کا استیلاء ہوتا ہے۔ نوجوان جرأت و شجاعت کی بجائے ذلیل حرکات پراُتر آتے ہیں۔ جوکچھ ان شیطانی گھروندں میں دیکھتے ہیں، اسے عملی صورت دے کر اپنے لئے موت اور والدین کے لئے شرمساری کے سامان مہیا کرتے ہیں۔ یہ معکوس ترقی ہے، جس کی طرف اکابر ملت اور قیادتِ کبریٰ کوجلد سے جلد توجہ دے کر اس کی اصلاح کرنی چاہئے۔ عوام کے اَخلاق کی حفاظت کے لئے حکومت کو قانون بنانا چاہئے۔ اور ایک اسلامی مملکت کی تشکیل ناممکن ہے، جب تک اس میں اخلاق کے تحفظ کو لازمی مقام نہ دیا جائے۔

عیاش حکومتیں چونکہ لذت نفس کے لئے قائم ہوتی ہیں۔ وہ اس کی تکمیل کے لئے اپنی مشینری کو حرکت میں لاتی ہیں۔ ان کا پورا قانونی ڈھانچہ اسی اساس پر قائم ہوتا ہے۔ جو حکومت اسلام کے نام پر قائم ہو، اس کا پورا مزاج اسلامی ہونا چاہئے۔ نہ وہ غم میں غیر مسلموں کی نقل کرے، نہ وہ خوشی میں اپنے مزاج اور معیارِ اخلاق کو بدلے۔ اسے پہلے بھی مسلم ہونا چاہئے، اور آخر میں بھی مسلم۔ اس کے تمام انسانی حقوق کے لئے ضروری ہے، کہ اسلام کے ارشادات پر پورے اُتریں، اور خدا تعالیٰ کی اطاعت اور آنحضرتﷺکے اتباع میں ہر کام کریں۔

(6) مسائل عید الفطر:

(1) تکبیراتِ عید:

الله أکبر الله أکبر لاإلهٰ إلا الله والله أکبر الله أکبر ولله الحمد

(2) عید کی رات:

یہ بھی عبادت کی رات ہے۔ حضرت ابوامامہؓ فرماتے ہیں: "من قام ليلة العيد إيمانا واحتسابا لم يمت قلبه حين تموت القلوب" (قیام اللیل)

"جو عید کی رات ایمان کے طور پر اور ثواب کی طلب کے لئے قیام کرے گا۔ تو اس کا دل قیامت کی ہولناکیوں میں مطمئن رہے گا"

بعض سلف اس رات بھی چالیس رکعت ادا فرماتے تھے۔

(3) غسل:

عید کے دن غسل مستحب ہے، صحابہ و تابعین عید کے دن غسل فرمایا کرتے تھے۔

(4) کپڑے:

عید کے لئے نئے کپڑے پہننے چاہئیں۔ اگریہ میسر نہ ہوں، تو دھلے ہوئے پہنے۔

(5) خوشبو:

حضرت حسنؓ فرماتے ہیں، کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم فرمایا: "عید کے دن عمدہ خوشبو استعمال کریں"

(6) ناشتہ:

عیدالفطر کے دن کچھ کھا کر نماز کے لئے جانا سنت ہے (ابن ماجہ)

کیونکہ اس دن روزہ رکھنا شیطانی فعل ہے۔ بہتر یہ ہے کہ میٹھی چیز ہو۔ آنحضرتﷺ اس دن کھجوریں کھانے میں طاق کا خیال رکھتے تھے۔ ہم لقموں میں طاق کی خیال رکھ سکتے ہیں۔

(7) فطرانہ:

نمازِ عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا چاہئے۔ یہ صدقہ صرف مسلمانوں کے ذمہ ہے۔ نوکر ہو یا مالک، مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا، روزہ رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، آزاد ہو یا غلام، مسافر ہو یا مقیم سب کو اَدا کرنا چاہئے، کیونکہ روزے میں بعض کوتاہیاں ہوجاتی ہیں۔ صدقہ فطر ان کا کفارہ بن جاتا ہے۔

(8) وزن:

صدقہ فطر ایک مدنی صاع (مدینہ کا پیمانہ) ہے، جو ہمارے وزن کے مطابق دو سیر گیارہ چھٹانک ہے۔ فی کس اتنی گندم یا اس کی قیمت ادا کرنا چاہئے۔

(9) اجتماعیت:

صدقہ فطر اَدا کرتے وقت اجتماعیت کو قائم رکھنا چاہئے۔ تمام مسلمانوں سے جمع کرکے تقسیم کرنا چاہئے۔ آنحضور ﷺ کے زمانہ میں اس کی وصولی کا سرکاری انتظام تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ بھی خود تقسیم کرنے کی بجائے اجتماعی کھاتہ میں جمع کروا دیتے تھے۔

(10) پیدل جانا:

نماز عید کے لئے عیدگاہ کی طرف پیدل جانا بہتر ہے۔ آنحضرتﷺ سے اس سلسلے میں متعدد احادیث آئی ہیں۔ اکثر صحابہ کرامؓ کا بھی یہی مسلک اور عمل ہے۔

(11) تبدیلی راستہ:

رسول اکرم ﷺ ایک راستہ سے جاتے تھے، اور دوسرے سے واپس تشریف لاتے، اور راستہ میں تکبیراتِ عید کہتے۔

(12) نماز عید کہاں ادا کی جائے:

نماز عید شہر سے باہر کھلے میدان میں ادا کرنا چاہئے۔ آنحضرتﷺ نے صرف بارش کے موقع پر مسجد میں نمازِ عید ادا کی۔

(13) اذان اور اقامت:

آنحضرت ﷺنے نماز عید کیلئے کبھی اذان و اقامت نہیں کہلوائی (بخاری)

(14) نماز کا طریقہ:

عید کی نماز دو رکعت ہے۔ پہلے نماز پھر خطبہ پڑھا جائے۔ عیدگاہ جاکر امام پہلے نماز پڑھائے، اور پھر خطبہ دے۔ آنحضرت ﷺ اور خلفاءِ راشدین کا یہی دستور رہا ہے۔

(15) نبی کریمﷺ نماز عید میں کونسی سورتیں پڑھتے؟

آنحضرت ﷺ سورة فاتحہ کے بعد پہلی رکعت میں سورة الاعلیٰ اور دوسری میں سورة الغاشیہ، بعض اوقات پہلی میں سورة ق اور دوسری میں سورة القمر اور اسی طرح بعض دفعہ پہلی میں سورة الانبیاء اور دوسری میں سورةالشمس پڑھا کرتے تھے۔

(16) نماز عید کے وقت نفلی نماز؟

عید کے دن نمازِ عید سے پہلے یا بعد کوئی نفلی نماز نہیں ہے۔

(17) خطبہ عید: امام مالک رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"لا ينصرف حتی ينصرف الإمام" (موطأ)

یعنی "خطبہ عید سنے بغیر کوئی آدمی عید گاہ سے نہ جائے"

(18) عید کی مبارکباد کن الفاظ میں دی جائے:

عید کے روز صحابہ کرامؓ آپس میں ملتے تو یہ کہتے:

" تقبل الله منا ومنك " (فتح الباری)

یعنی اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی طرف سے قبول فرمائے۔

Check Also

Kitabon Ki Faryad

By Javed Ayaz Khan