Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Nida Ishaque/
  4. Weltschmerz

Weltschmerz

ویلشمرز

سدھارت گوتم کے متعلق پیشنگوئی ہوئی تھی کہ یا تو وہ کامیاب فاتح بنے گا یا پھر عظیم روحانی لیڈر۔ گوتم کے والد چاہتے تھے کہ انکا بیٹا ایک کامیاب فاتح بنے، انہوں نے گوتم کو ہر اس درد اور تکلیف سے دور رکھا جس کی وجہ سے اس کے ذہن میں سوال ابھرتے اور نفسیاتی تکلیف کے زیرِ اثر وہ روحانیت کی جانب چل پڑتا۔ لیکن ہوا کچھ یوں کہ گوتم کے سامنے کچھ ایسی حقیقتیں آئیں جس نے اس کے والد کے بنائے ہوئے خول کو توڑ دیا۔

سدھارت پر انکشاف ہوا کہ زندگی صرف اس کے محل کی چار دیواری میں ہو رہی ہارڈ کور پارٹیز تک محدود نہیں، موت، درد، بڑھاپا، بیماری اور زندگی سے ملنے والی مختلف تکلیفوں سے وہ بھاگ نہیں سکتا۔ جس رات سدھارت اپنے محل کو چھوڑ کر گیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بہت ممکن ہے اس رات سدھارت نے Weltschmerz محسوس کیا ہو۔

ہم سب سدھارت کی طرح بچپن میں ایسی کہانیاں سنتے ہیں جس میں کردار کچھ عرصہ مصیبتوں کا سامنا کرکے ہمیشہ کے لیے ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ بالی وڈ، ہالی وڈ کی فلمیں جن میں ہیرو پورے گاؤں، شہر کو ولن سے نجات دلاتے ہیں اور یوں برائی پر اچھائی کی جیت ہوتی ہے، یا پھر ہمیں والدین کہتے ہیں کہ اچھا کرو گے تو اچھا ہی ملے گا۔ ان آئیڈیل کہانیوں اور نظریات کے ساتھ جب ہم اصلی دنیا میں قدم رکھتے ہیں اور لوگ ہماری توقعات کے برعکس ہمیں رسپونس دیتے ہیں۔

یعنی اچھائی کا بدلہ جب برا ملتا ہے، ایک مسئلہ حل ہونے کی خوشی ہوئی نہیں ہوتی کہ دوسرا مسئلہ سر کھڑا ہوتا ہے، جب جیت ولن کی ہوتی اور ہمارے مقدر میں محض غم، تب ہمارے آئیڈیل نظریات دنیا کی سخت حقیقت کے ساتھ ٹکرا کر چکنا چور ہو جاتے ہیں اور ہمیں درد، غصہ، بوریت، بےچینی گھیر لیتی ہے (کبھی شعوری کبھی لاشعوری طور پر)، حقیقت کے آئیڈیل پر اس زور دار وار اور اس وار سے ملنے والی تکلیف کو Weltschmerz کہتے ہیں، جو کہ جرمن زبان کا لفظ ہے۔

انسانی دماغ آئیڈیل سین تشکیل دینے میں اول نمبر ہے اور جب وہ آئیڈیل حقیقت سے میل نہ کھائے تو ہمیں تکلیف پہنچتی ہے۔ ہمارے دماغ سوچتے ہیں کہ دنیا میں ہر وقت امن ہو اور خوشحالی ہو، ہمارے ذہن کو لگتا ہے کہ ہم انسان جنگیں اور دکھ سہنے کے لیے نہیں بنے، ہمارے ذہن فلموں میں دکھائی جانے والی ہمیشہ والی خوشی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ لیکن جب تک زندگی ہے یہ سب چلتا رہے گا، کبھی اچھائی کی جیت ہوگی تو کبھی برائی کی، کبھی حالات ولن کے حق میں ہونگے تو کبھی ہیرو کے حق میں۔ رائیٹر مارک مینسن کہتے ہیں کہ زندگی میں مسائل سے نجات ممکن نہیں بس اس بات کا خیال رہے کہ مسئلے معیاری ہونے چاہیے۔

تاریخ میں مختلف لوگوں نے مختلف طریقوں سے Weltschmerz کو ڈیل کیا ہے۔ گوتم نے روحانیت سے اس احساس کو سمجھا، حقیقت کو تسلیم کرکے اپنی تکلیف کو کم کیا۔ فرانسیسی فلسفی البرٹ کیمو کے مطابق زندگی کا کوئی مقصد نہیں اس لیے جو بھی وقت میسر ہے اسے کوئی مقصد دے کر حقیقت کو تسلیم کرکے ہر قسم کے کٹھن حالات کا سامنا کرتے ہوئے زندگی سے لطف اندوز ہوا جائے۔

اس کے برعکس فلسفی سورن کیکرگارڈ نے مذہب میں اس تکلیف سے نمٹنے کا حل تجویز کیا۔ اسٹائک فلاسفرز نے کہا کہ حالات ہمارے کنٹرول میں نہیں ہوتے البتہ ہماری سوچ اور ہمارا رسپانس ہمارے کنٹرول میں ضرور ہوتا ہے۔ نتیجتاً Weltschmerz کو ڈیل کرنے کے لیے ہمیں آئیڈیل دنیا کا خواب بنُنے کی بجائے حقیقت سے نظریں ملانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اچھائی اور برائی دونوں ہی ہماری دنیا کا حصہ ہیں۔

اچھا یقیناً سب کو پسند ہے، کوئی بھی ہرٹ نہیں ہونا چاہتا۔ لیکن Weltschmerz ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اگر آپ ایک optimist ہیں، زندگی کو لے کر پرامید ہیں، اچھا کرنا چاہتے ہیں، ضرور کیجیے لیکن یاد رکھیے کہ بہترین عمل سے ملنے والے بہترین نتیجہ کی امید رکھے بغیر اس عمل کو انجام دیجئے کیوں کہ اسٹائک فلاسفرز شاید صحیح کہتے ہیں کہ ہم سامنے والے کا رسپانس کنٹرول نہیں کر سکتے البتہ سامنے سے بہتر عمل کی امید نہ رکھ کر خود کو ذہنی اذیت سے بچا سکتے ہیں۔

بیشک ریٹرن یا فائدے کی امید رکھے بغیر بہترین عمل کرنا میچورٹی کی علامت ہے۔

Check Also

Kya Hum Radd e Amal Ki Qaum Hain

By Azhar Hussain Azmi