Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nida Ishaque
  4. The Art Of War

The Art Of War

دی آرٹ آف وار

جنگ ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ دنیا میں موجود تمام جاندار جنگ میں ملوث ہو کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے دشمن پر غالب آ کر خود کو ڈومینیٹ کرتے ہیں۔ جنگ فطری ہے اور یہ محض میدانوں تک محدود نہیں، انسانوں کے لیے بزنس، اسپورٹس، سیاست، وڈیو گیمز، شہرت اور طاقت کا حصول کسی میدانِ جنگ سے کم نہیں۔ اور اگر کوئی انسان اپنے اردگرد کے حالات سے جنگ لڑنے کا فن نہیں جانتا تو بہت ممکن ہے وہ ساری زندگی حالات کا شکار ہو کر خود کی ذات سے جنگ میں ملوث رہے گا۔

"دی آرٹ آف وار" ایک قدیم چائنیز کتاب ہے جو سن سو (Sun Tzu) نے چائنیز ملٹری کے سپہ سالار کو میدانِ جنگ میں حکمت عملی، حربوں اور جنگی چالوں سے دشمن کو ہار کا مزہ چکھانے کے طریقے بتانے کے لیے پچیس سو سال قبل لکھی تھی۔ آپ سوچ رہیں ہونگے کہ ہمارا اس کتاب سے کیا واسطہ؟ ہم بیشک کسی ملٹری کے جنرل نہیں لیکن اپنی زندگیوں کے سپہ سالار تو ہیں۔ میدانِ زندگی کے کچھ معاملات پر فتح پانے میں اس کتاب کا وزڈم شاید ہمارے کام آ سکتا ہے۔ ویتنام کے جنرل Vo Nguyen Giap فرانس کو میدانِ جنگ میں ہرانے اور برازیلیئن کوچ Luiz Felipe Scolari اپنی ٹیم کو دو ہزار دو کا فٹ بال ورلڈ کپ جتوانے کا کریڈٹ اس کتاب کو دیتے ہیں۔

کتاب کے مطابق اوّل تو یہ کہ اگر آپ خود کو اور اپنے حریف کو بہتر طور پر نہیں جانتے تو آپ میدان میں اترنے سے پہلے ہی ہار چکے ہیں۔ جسے اپنی اور اپنے دشمن کی طاقت اور کمزوریوں کا علم نہ ہو، ہار اسکا مقدر ہے۔ اپنی شخصیت اور دشمن کا حقیقی (realistic) جائزہ نہایت اہم ہے۔ کیونکہ آپ اپنی ہر کمزوری کو طاقت میں تو نہیں بدل سکتے البتہ اگر آپ اپنی کمزوریوں سے واقف ہیں تو دوسروں کو اسکا فائدہ اٹھانے سے ضرور روک سکتے ہیں۔ خود آگاہی ضروری ہے۔

ریسرچ بہت ضروری ہے، کیلکولیشن، حکمت عملی اور موازنہ کرکے فیصلہ کرنا چاہیے کہ جس مقصد کے لیے ارادہ بنایا ہے کیا اسے realistically حاصل کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس مقصد (جنگ) کو چھوڑ دینا بہتر ہے۔ دشمن اور میدانِ جنگ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کریں۔ ہر جنگ یا ہر دشمن اس قابل نہیں کہ اسے جواب دیا جائے۔ وقت، انرجی اور قیمتی ریسورسز کو بچانے کے لیے وہی جنگ لڑیں جسے لڑنے کا فائدہ ہو، جس پر وقت، انرجی اور ریسورسز لگا کر آپ کو افسوس نہ ہو۔

دشمن کو دھوکے میں رکھنا ضروری ہے۔ اگر فتح قریب بھی ہے تو تکبر اور جذبات میں دشمن کو احساس نہیں ہونے دینا، اسے ہمیشہ الجھائے رکھیں۔

سن سو کے مطابق میدانِ جنگ کے بدلتے حالات کے ساتھ اپنے حربے بدلنا ضروری ہے کیونکہ جنگ اور حالات کی مثال پانی کی ہے، کبھی بھی رخ بدل جاتا ہے۔ باہری حالات پر ہمارا کنٹرول زیادہ دیر برقرار نہیں رہتا۔ آپ کے مزاج اور حکمت عملی کو پانی کی طرح ہونا چاہیے تاکہ جب ضرورت ہو اپنے فائدے کے لیے اسے بدلا جا سکے۔ دشمن کی کمزوری پر نظر رکھنا ضروری ہے، فوکس اہم ہے۔ حریف کمزوری دکھائے تو اس کمزوری کو اپنے فائدے کے لیے فوری طور پر بروئے کار لایا جائے۔ کوشش رہے کہ آپ کا حریف آپ کے متعلق زیادہ معلومات اکھٹی نہ کر سکے، پراسرار رہنا آپ کو فائدہ دے سکتا ہے۔

سن سو لکھتے ہیں کہ "جنگ کی سب سے اعلیٰ قسم وہ ہے جس میں بنا لڑے حریف کی ہار اور ہماری جیت ممکن ہو اور حریف کبھی معلوم یا پریڈکٹ نہ کر سکے کہ اس کے ساتھ آخر ہوا کیا ہے، ہمارا داؤ اسکی امید کے برخلاف ہو جس کی وجہ وہ سٹپٹا جائے یا فریز ہو جائے۔ " اس حکمت عملی کو بروئے کار لانے کے لیے کسی بھی انسان کا emotional intelligence کی اعلیٰ سطح پر ہونا ضروری ہے۔ وہ حالت جس میں انسان ایموشنز کو نچائے، نہ کہ ایموشنز اسے۔ جب انر پیس (inner peace) اور بیلنس (balance) ہو تو کگنیٹو اور ریشنل برین (cognitive and rational) خود بخود بہتر طور پر کام کرنے لگتا ہے۔

اگر کبھی آپ نے اپنے کسی جاننے والے کو اسکی امید کے برخلاف اسکے ایکشن کا رسپانس دیا ہو تو وہ کچھ دیر کے لیے حیران رہ جائے گا، سٹپٹا جائے گا یا فریز ہو جائے گا کیونکہ اسے اس رسپانس کی امید نہیں تھی اور یوں آپ بنا ری ایکشن دیے اسے شدید نفسیاتی تکلیف پہنچا سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنے حریف سے روایتی انداز میں لڑے بنا، عقل، دانش، ایموشنل انٹیلیجنس، حقیقت پسندی، ریسرچ، ڈسپلن اور حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی بدلنے کی ہمت رکھتے ہیں تو جنگ یقیناً آپ کے لیے ایک آرٹ ہی ہے۔

Check Also

Khawarij Ke Khilaf Karwai Aur Taliban

By Hameed Ullah Bhatti