Water And Power Gilgit Baltistan Ki Nijkari
واٹر اینڈ پاور گلگت بلتستان کی نجکاری

گلگت بلتستان ایک ایسا خطہ ہے جو اپنی جغرافیائی اہمیت، قدرتی وسائل اور قومی سلامتی کے حوالے سے بے حد حساس حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں کے عوام دہائیوں سے بنیادی سہولیات کی کمی، مہنگائی اور حکومتی عدم توجہی کے باعث کٹھن زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہی سہولیات میں بجلی سرِفہرست ہے۔ جب سے واٹر اینڈ پاور کے ادارے کو نجکاری کے حوالے کرنے کی خبریں منظرِ عام پر آئی ہیں، عوام اور ملازمین دونوں میں شدید اضطراب اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو عوامی امنگوں کے خلاف اور خطے کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے نجکاری کا مطلب ہے کہ ادارہ نجی ہاتھوں میں چلا جائے گا اور پھر اس کی ترجیح عوامی خدمت نہیں بلکہ منافع خوری ہوگی۔ گلگت بلتستان جیسے خطے میں جہاں عوام پہلے ہی مہنگی بجلی اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے دوچار ہیں، وہاں اگر نجکاری ہوگئی تو صورتحال مزید سنگین ہوجائے گی۔ بجلی کے نرخ آسمان کو چھوئیں گے، عوام پر مالی بوجھ کئی گنا بڑھ جائے گا اور عام آدمی کی زندگی مزید اجیرن بنے گی یہ فیصلہ صرف عوام ہی نہیں بلکہ ہزاروں ملازمین کے مستقبل کو بھی داؤ پر لگا رہا ہے۔
محکمہ برقیات کے ملازمین نجکاری کے بعد غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو جائیں گے۔ بیروزگاری، گھریلو عدم تحفظ اور سماجی مسائل جنم لیں گے۔ یہ محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ ہزاروں خاندانوں کے رزق کا سوال ہے یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستان میں کسی سرکاری ادارے کو نجکاری کے نام پر عوام سے چھینا جا رہا ہو۔ ماضی میں بھی پی ٹی سی ایل، اسٹیل ملز اور کئی دیگر اداروں کی نجکاری کی گئی۔ لیکن کیا نتیجہ نکلا؟ عوام کو ریلیف تو نہ ملا، الٹا بیروزگاری، مہنگائی اور بدانتظامی میں اضافہ ہوا۔
ان تجربات نے یہ ثابت کیا کہ نجکاری مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کو بڑھانے کا ایک راستہ ہے۔ افسوس کہ ان تلخ تجربات سے سبق لینے کے بجائے ایک بار پھر وہی غلطی دہرائی جا رہی ہے حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ریاستی ادارے عوامی ملکیت ہوتے ہیں۔ ان کی نجکاری وقتی مالی فائدہ تو دے سکتی ہے لیکن طویل المدتی نقصان کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان جیسے خطے میں جہاں عوام پہلے ہی احساسِ محرومی کا شکار ہیں، وہاں ایسے فیصلے مزید بے چینی، احتجاج اور بداعتمادی کو جنم دیں گے۔ عوامی ردعمل کے خدشات پہلے ہی واضح ہو چکے ہیں۔
ملازمین اور عوامی تنظیموں نے کھلے عام احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، جو پورے خطے میں ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر نجکاری کی پالیسی پر نظرِ ثانی کرے۔ اگر محکمہ برقیات میں کوئی مسائل ہیں تو انہیں جدید ٹیکنالوجی، شفاف پالیسی اور بہتر انتظامی اقدامات سے حل کیا جا سکتا ہے۔ لائن لاسز کم کرنے، کرپشن روکنے اور بجلی کی پیداوار بڑھانے کے اقدامات کیے جائیں، نہ کہ پورے ادارے کو نجی ہاتھوں کے حوالے کر دیا جائے۔
یہ وقت عوامی اعتماد جیتنے کا ہے، کھونے کا نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ واٹر اینڈ پاور کی نجکاری کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کو یقین دلائے کہ بجلی جیسی بنیادی سہولت ہمیشہ عوامی ملکیت ہی رہے گی۔ بصورت دیگر احتجاج، بداعتمادی اور بے چینی کا ایک ایسا طوفان اٹھے گا جسے سنبھالنا حکومت کے لیے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔

