Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Shamim
  4. Pakistani Adab Ke Muammar

Pakistani Adab Ke Muammar

پاکستانی ادب کے معمار

گلگت بلتستان کے مایہ ناز بلتی و فارسی شاعر سید عباس علی شاہ عرف بواعباس کی فن و شخصیت اور ان کی بلتی زبان کی شاعری کے حوالے سے ملک کے نامور ادیب، مفکر، دانشور، علم و ادب کے شہ سوار جناب پروفیسر محمد حسن حسرت کی لکھی ہوئی کتاب بندہ ناچیز کو حسرت صاحب نے بطور تحفہ دے دی، جس کے لیے میں جناب محمد حسن حسرت صاحب کا مشکور و ممنون ہوں جنہوں نے بندہ حقیر کی ادبی ذوق و شوق دیکھ کر اپنی معیاری کتاب کے تحفے کا حقدار ٹھہرایا۔

حسرت صاحب بلتستان سے تعلق رکھنے والے محقق، ادیب اور نقاد ہیں انہوں نے ہمیشہ ہر فورم پر بلتستان کی تاریخ و ثقافت، لوک ورثہ اور بلتی زبان و ادب جیسے متنوع موضوعات پر تقریریں کیں اور درجنوں کتابیں بھی اب تک لکھ چکے ہیں یوں انہوں نے تاریخ بلتستان تہذیب و تمدن اور زبان کے حوالے سے بے شمار کام کر چکے ہیں۔ بلتستان کو پوری دنیا میں متعارف کرانے میں ان کا بڑا کردار ہے۔

اب کی بار جناب حسرت صاحب نے بلتستان لداخ اور مخلتف علاقوں کے بلتی اہل بلتیوں پر ایک اور احسان کرتے ہوئے شاعر آل محمد بواعباس کی فن و شخصیت اور ان کی شاعری پر ایک ضخیم کتاب بھی منظر عام پر لائے ہیں، جس میں بواعباس کی بلتی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی بلتی شاعری اردو میں تشریح کرتے ہوئے اہل علم و ادب پر بہت بڑا احسان کر دیا۔ اس کتاب میں حسرت صاحب لکھتے ہیں بواعباس کے بارے میں کہ بلتی زبان کے ملک آل شعرا سید عباس علی شاہ شگر چھورکاہ میں بمقام خنمی کا پیدا ہوئے درست تاریخ پیدائش کا تعین عام طور پر محققین کے لیے بڑا چیلنج اور ان کی کاوشوں کا محور ہوتا ہے۔

اردو ادب کی تاریخ کے نام گرامی شعراء ولی دکنی سے لے کر حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ تک سب کی تاریخ پیدائش متنازعہ مباحث کا باعث بنی اور یہی معاملہ سید عباس علی شاہ عرف بواعباس کی تاریخ پیدائش کا بھی ہے۔ ان کی پیدائش کی صحیح تاریخ بڑی جستجو کے باوجود اب تک دستیاب نہ ہو سکی البتہ گلدستہ عباس کے ترتیب کنندہ وزیر احمد غضواپا کے مطابق سید عباس علی شاہ عرف بواعباس کی تاریخ وفات 1232 ہجری مطابق 1913 کے قریب ہونا قرار پائی ہے۔

سید عباس علی شاہ عرف بواعباس نے جب دنیا میں زندگی کی آنکھ کھولی تو اس وقت بلتستان کے راجاؤں کے اقتدار کا سورج ڈوگرہ غلامی کے افق میں ڈوب چکا تھا۔ سید عباس علی شاہ کا گھریلو ماحول مذہبی تھا اور آپ نے اسی ماحول میں زندگی کی آنکھ کھولی۔ اس زمانے میں غربت و پسماندگی اور دیہاتی ماحول بلتستان کی پہنچان اور مقدر تھا۔ بواعباس مرحوم نے اپنی زندگی خالص دیہاتی ماحول میں گزاری۔

انہوں نے دنیاداری اور دولت کی بجائے سادہ زندگی کو ترجیح دی۔ تاہم غربت اور دیہاتی ماحول میں زندگی گزارنے والے سید عباس علی شاہ عرف بواعباس نے دنیائے ادب میں ایسا نام پیدا کیا کہ جو آج ان کی شہرت اس خاندان کے لیے وجہ امتیاز قرار پائی۔ بہرحال بلتی شاعری کے بے تاج بادشاہ شاعری کے آسمان پر چمکنے والا یہ مہر درخشاں شگر چھورکاہ بقام خنمی کا سپردِ خاک ہے اور ان کی ابدی آرام گاہ کے اوپر اب جدید طرز کی امام بارگاہ قائم ہے جہاں لوگ مجالس و محافل قائم کرتے ہیں۔

حسرت صاحب مزید لکھتے ہیں کہ خنمی کاہ شگر کے لوگوں سے روایت ہے کہ ملک شعرا سید عباس علی شاہ بواعباس مرحوم و مغفور کے انتقال کے بعد چالیس دن تک ان کی مرقد سے تلاوت قرآن کی آواز آتی رہی جسے متعدد لوگوں نے سنی۔

میں حسرت صاحب کو بواعباس کی فن و شخصیت اور انکی شاعری پر اتنی خوب صورت اور معیاری کتاب لکھنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور دعا گو بھی ہوں کہ اللہ تعالیٰ حسرت صاحب کو صحت سلامتی اور آسودگی عنایت کرے اور ایسے گوہر نایاب پر مزید لکھنے کا موقع عنایت فرما۔ آخر میں بواعباس مرحوم کی ایک بلتی شعر اور ان کی تشریح کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔

کھو بند بیا سے یقسنا چو جرس سنینگ پاو قاو بید

نی ژھن نہ نیمی ذکر خفی ان نا علی ان۔

(ترجمہ) میری زبان بند رکھی جائے تب بھی میرا دل گنھٹی کی طرح بجتا ہوا آواز دے رہا ہے کہ میرا شب و روز دل ہی دل میں کیا جانے والا ذکر خفی علی علی ہی ہے۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra