Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Shamim
  4. Nana Jan Ki Kitab Armaghan e Baltistan

Nana Jan Ki Kitab Armaghan e Baltistan

نانا جان کی کتاب ارمغان بلتستان

اچھے لوگ اس دنیا میں نہیں رہتے مگر ان کے کارنامے اس جہاں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور اس دنیا میں رہنے والے لوگوں نے ان کے بہترین کارناموں کو ہر پل یاد بھی کرتے ہیں۔ آج اپنا کالم ایک ایسی شخصیت کے نام کر رہا ہوں جنہوں نے خطے کیلئے تاریخ رقم کی جن کو علم و ادب، شاعری اور سیاست پر بڑی دلچسپی تھی۔ ان کی شاعری اور بہترین اور مثبت سیاست کی وجہ سے آج بھی ہر ایک کے دلوں میں اب بھی زندہ ہیں، وہ شخصیت کوئی اور نہیں وہ رشتے میں میرے نانا جان ہیں۔

میرے نانا جناب ماسٹر محمد تقی نے 1928 میں مہدی آباد سابق پرکوتہ کے ایک علمی و ادبی اور سیاسی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی علم و ادب اور تدریس کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ علاقے کی سیاست میں بھی حصہ لیتے رہے اور عوامی امنگوں پر پورا اترتے رہے اسی لئے ان کو ایک بہترین سیاستدان بھی مانا جاتا تھا۔ ان کے ادبی خدمات کے حوالے سے لکھنا شروع کروں تو ان کی پہلی اولین کتاب جو انہوں نے پاکستان اور ہندوستان الگ ہونے سے قبل اپنی ہاتھوں سے تحریر کی جو اس وقت پرنٹنگ مشین موجود نہیں تھی، انہوں نے بڑی ہمت کر کے شائع کروا دی۔

بندہ ناچیز نے اس کتاب کو ڈھونڈھنے میں بڑی جستجو کی مگر وہ کتاب نہ مل سکی اس حوالے سے میری جستجو کا سفر ابھی جاری ہے۔ نانا جان نے سرکاری جاب شروع کی اس وقت کرگل زانسکار میں بحیثیت ویکسینٹر محکمہ ہیلتھ میں اپنی خدمات سر انجام دیں۔ جب پاکستان اور ہندوستان الگ ہوے تو اس نوکری کو خیر باد کہہ کر علم و ادب سے تعلق جوڑ لیا۔ محکمہ تعلیم میں بحیثیت استاد تعیناتی عمل میں آئی تو سرکای نوکری کے ساتھ ساتھ یہاں علاقے کے لوگوں کے مسائل حل کیلئے ایک سماجی خدمت گار کے طور پر کام عوام میں مقبول رہے سیاسی حوالے سے بھی انہوں نے علاقے میں ایک مقام حاصل کیا۔

اس وقت جب سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان میں پاکستان پیلپز پارٹی کی بنیاد رکھی تو آپ بلتستان میں پیلپز پارٹی کے بانیوں میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے اپنا گھر پیلپز پارٹی کے دفتر کے طور پر استعمال کیا اور یہاں سے لوگوں کے مسائل حل کرتے رہے اس کے بعد انہوں نے مہدی آباد پرکوتہ کے بازار میں اپنی دکان کو پیلپز پارٹی کھرمنگ کا سیکٹرٹیریٹ بنا دیا۔ ایک دفعہ جب پاکستان پیلپز پارٹی کے مدمقابل کچھ مفاد پرست لوگوں نے اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کیلئے اور الیکشن میں اپنی کامیابی کی خاطر مذہب کو استعمال کرتے ہوئے تحریک جعفریہ کو میدان میں اتارا تو مذہب کے نام پر مخلتف فتوے جاری کئے گئے۔

تحریک مخالف لوگوں کو باقاعدہ مرتد اور سوشل بائیکاٹ کیا اس وقت جب میرے نانا جان کی دکان جو انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دفتر کے طور پر استعمال کر رکھی تھی۔ دکان کے چھت پر پیلپز پارٹی کے جھنڈے لگے ہوئے تھے تو مخالف پارٹی نے رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راتوں رات پیلپز پارٹی کے جھنڈے کو اکھاڑ کے غائب کر دیا پھر بھی انہوں نے کسی کو کچھ نہیں کہا حالانکہ اس وقت اس زمانے میں پیلپز پارٹی کی گورنمنٹ عروج پر تھی یہ سب ان کی سیاسی بصیرت تھی۔

پیپلز پارٹی کے جان نثار سپاہی کے طور پر وہ ہر برے وقت میں ساتھ رہے۔ اسی لئے ان کو پارٹی کے اندر بہت عزت بھی تھی 1990 میں مرحوم قربان علی گلگت کے بانیوں میں شامل تھے۔ ان کے اعزاز میں ہائی اسکول مہدی آباد کے گراونڈ میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا جس میں پورے جی بی کے لوگوں نے شرکت کیں۔ مرحوم نانا ابو جان نے وہاں کے جلسے میں تاریخی تقریر کر کے محترمہ بینظیر بھٹو اور پاکستان پیلپز پارٹی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اس جلسے کی خبر محترمہ بینظیر بھٹو تک پہنچ گئی تو اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے محترم نانا جان ماسٹر محمد تقی کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے خط لکھا۔ وہ خط اب بھی راقم کے پاس موجود ہے۔

میرے نانا جان نے علمی و ادبی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے 1998 میں ایک اور کتاب شائع کر دی انہوں نے اس کتاب کا نام ارمغان بلتستان رکھا۔ ارمغان بلتستان کی کتاب اس وقت کے وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان جناب عبدالجمید ملک کے نام منسوب کیا۔ امور کشمیر و گلگت بلتستان نے اس کتاب کی اشاعت کے لیے امداد بھی کر دی اس کے علاوہ اس وقت کے وفاقی وزراء خصوصاََ سیدہ عابدہ حسین، جناب مشاہد حسین سید نے بھی ان کی علمی و ادبی خدمات کو خوب سراہا۔

اس کے بعد 2012 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ انتقال سے قبل وہ ایک اور کتاب لکھ رہے تھے مگر ان کو موت نے فرصت نہیں دی۔ میں اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ ان کی ادھوری کتاب ان کے بیٹے میرے ماموں جان ماسٹر محمد سکندر مکمل کر رہے ہیں جو انشاءاللہ بہت جلد منظر عام پر آئے گی۔

میری دعا ہے کہ میرے ماموں جان اس مشن میں کامیاب ہوں۔

Check Also

Phone Hamare Janaze Nigal Gaye

By Azhar Hussain Bhatti