Mumtaz Hussain Narvi Ilm o Dosti Ka Roshan Charagh
ممتاز حسین ناروی علم و دوستی کا روشن چراغ

میری ممتاز حسین ناروی صاحب سے شناسائی سن 2003 میں ہوئی، جب وہ قراقرم کوآپریٹو بینک مہدی آباد برانچ میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ ابتدا ہی سے ان کی شخصیت میں علم و ادب، شائستگی اور ذوقِ سخن کی جھلک نمایاں تھی۔ ان کی گفتگو میں نرمی اور وقار، جبکہ باتوں میں ادبی خوشبو بسی ہوتی تھی جب بھی وہ بینک سے فارغ ہوتے، ہم اکثر مہدی آباد اور اس کے اطراف کی سیر کے لیے نکل جاتے۔ ان کی باتیں دل کو سکون دیتیں اور ان کے اندازِ گفتگو سے ذہنی راحت ملتی۔ وہ صرف بات نہیں کرتے تھے، بلکہ گویا علم و عرفان کے موتی بکھیرتے تھے۔
کچھ عرصے بعد ممتاز صاحب نے بینک کی ملازمت ترک کر دی اور ملک کے معتبر ادارے پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی (ریڈ کراس) بلتستان ریجن میں سیکریٹری کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ مگر یہ تبدیلی ہماری دوستی میں فاصلہ پیدا نہ کرسکی، بلکہ محبت اور اعتماد کا رشتہ مزید مضبوط ہوگیا وہ جہاں بھی جاتے چاہے کوئی میٹنگ ہو یا ٹریننگ، ہمیشہ بندۂ ناچیز کو ساتھ لے جاتے۔ یہ ان کی سادگی، خلوص اور اپنائیت کی روشن مثال ہے۔
ممتاز حسین ناروی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ شاعر، نثر نگار، نقاد اور دانشور ہیں۔ حال ہی میں ان کی ایک ویڈیو نے ان کی فکری وسعت کو مزید واضح کیا، جس میں وہ خدائے سخن، غلام حسین بلغاری کے بلتی کلام کی نہایت خوبصورت تشریح کر رہے ہیں ان کی تشریح سن کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بلغاری صاحب کے دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے جذبات کو لفظوں میں ڈھال رہے ہوں۔ ان کا اندازِ بیان اتنا مربوط اور مؤثر ہے کہ سامع خود بخود بلتی ادب کی روح میں اتر جاتا ہےغلام حسین بلغاری بلتی زبان کے معروف شاعر ہیں۔
ان کا تعلق ضلع گنگچھے کے گاؤں بلغار سے ہے، مگر زیادہ تر زندگی انہوں نے اسکردو میں گزاری۔ ان کی شاعری میں عشق، درد اور محرومی کی جھلک نمایاں ہے۔ ان کے اشعار میں ایک ناکام عاشق کا درد، ایک حساس دل کی دھڑکن اور ایک فطری شاعر کا خلوص جھلکتا ہے آج گلگت بلتستان کی محفلوں میں بلغاری صاحب کے کلام کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ان کی شاعری سن کر ہر سامع اپنے دل کے جذبات کو محسوس کرتا ہے اور ان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتا ہے۔
بلغاری کے کلام کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، مگر ممتاز حسین ناروی نے جس مہارت سے ان کے اشعار کی تشریح کی ہے، وہ ان کی ادبی بصیرت اور لسانی مہارت کا ثبوت ہے۔ انہوں نے بلتی زبان کے ان مشکل الفاظ اور استعارات کو اس سادگی سے سمجھایا کہ ایک عام سامع بھی اس کی گہرائی محسوس کرسکےآخر میں، میں اپنے بچپن کے دوست ممتاز حسین ناروی کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں، جنہوں نے نہ صرف بلتی ادب کی خدمت کی بلکہ مجھ جیسے کم علم کو بھی غلام حسین بلغاری کے کلام کو سمجھنے کی صلاحیت بخشی۔
وہ واقعی علم و ادب کا روشن چراغ ہیں، جو اپنی روشنی سے بلتستان کی ادبی فضا کو منور کر رہے ہیں۔

